تحریر: مسعود جاوید
یکساں سول کوڈ پر رائے دینے کی آخری تاریخ ١٤ جولائی تھی اس تاریخ تک لاء کمیشن کو فقط ٥٠ لاکھ رائے موصول ہوئی ۔ اب دو ہفتے کے لئے اس آخری تاریخ میں توسیع کی گئی ہے۔
١٤٠ کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں تقریباً ٩٥ کروڑ سرکاری طور پر بالغ ہیں یعنی رائے دینے کے اہل ہیں. ٩٥ کروڑ ہونے کے باوجود صرف ٥٠ پچاس لاکھ لوگوں کا رائے شماری میں حصہ لینا واقعی حیرت کی بات ہے!
دراصل میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ رائے ، تجویز یا سجھاؤ کس بابت مانگی گئی ہے ! اگر اس پر کہ یکساں سول کوڈ ہونا چاہیے یا نہیں تو جب تک وہ کوڈ واضح نہیں ہوگا کوئی کیسے رائے دے سکتا ہے۔ لفافہ دیکھ کر مضمون کا اندازہ لگانا عشق و محبت میں ہوتا ہے ملکی و قومی اہمیت کے حامل حساس مسئلہ پر نہیں ۔ لیکن افسوس ہمارے بہت سے لوگ لفافہ دیکھ کر یا عنوان پڑھ کر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں! اذان پر پابندی ، ٹوپی کرتا پر پابندی ، نماز پر پابندی ، روزہ پر پابندی ، حج پر پابندی ، زکوٰۃ پر پابندی ، نکاح ، طلاق ، خلع ، فسخ ، ، متبنی گود لئے بچے کا وراثت میں حق، میراث میں بیٹے کے برابر بیٹی کا حق اور بعض نے پچیس ایسے امور پر پابندی یا شریعت کی مخالفت کا ذکر کیا ہے یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہر شخص اندھیرے میں تیر چلا رہا ہے۔
صرف پچاس لاکھ لوگوں نے رائے دی ایسا کیوں ؟ اگر عام شہریوں سے رائے مانگی گئی ہے تو اتنے کم لوگوں نے اسے قابلِ اعتناء کیوں سمجھا ؟
جمہوری نظام میں قانون سازی کے لئے عام شہریوں کی شراکت بالواسطہ ہوتی ہے یعنی وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے اپنے نمائندے منتخب کر کے قانون ساز ادارے ؛ پارلیمنٹ اور اسمبلی، میں بھیجتے ہیں اور عوامی نمائندے قانون سے متعلق مسودے کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کرتے ہیں عوام کے مفاد میں نہ ہو تو ایسے مسودے کو رد کر دیتے ہیں یا اس میں ترمیم کراتے ہیں۔
بغیر کسی واسطہ کے ، حکومت اگر رائے طلب کرتی ہے اسے استصواب رائے ریفرنڈم کہتے ہیں یہ قومی و ملکی اہمیت کے حامل مسئلہ جیسے دستور میں حذف یا اضافہ کے ‘حق’ میں یا ‘خلاف’ شہریوں سے ڈائرکٹ ووٹنگ کا مطالبہ ہوتا ہے اسے plebiscite کہتے ہیں یعنی جس میں کسی تجویز کی موافقت یا مخالفت کے لئے لوگوں کو ان کی رائے کا اظہار کے لیے کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک بہت سنجیدہ ، حساس محنت اور وقت طلب کام ہوتا ہے۔ اس کے متعلق عوام کو اس مخصوص بند کے مالہ و ما علیہ سے واقف کرانا ہوتا ہے بیدار کرنا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں حصہ لے سکیں ۔
استصواب رائے:
سویٹزرلینڈ کے شہریوں کو bipolar world order دوقطبی نظام عالم پسند نہیں تھا امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ اسی کا نتیجہ تھا ۔ اس نے کم و بیش یہی چپقلش اقوام متحدہ میں بھی دیکھا کہ اقوام عالم کا ایک گروپ امریکہ کے ساتھ ہے تو دوسرا سوویت یونین (روس) کے ساتھ۔ گرچہ وزیراعظم جواہر لعل نہرو (ہندوستان) ، صدر جمال عبدالناصر (مصر)، صدر جوزف ٹیٹو(یوگوسلاویہ ، صدر سکرنو(انڈونیشیا ) اور صدر نکروما(گھانا) نے ١٩٦١ میں ناوابستہ تحریک یعنی امریکہ اور روس دونوں بلاک کی سیاسی چپقلش سے دوری بنائے رکھنے کی تنظیم قائم کیا مگر وہ بھی بہت زیادہ مؤثر نہیں تھی اس لئے کہ ملکوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اس لئے پس پردہ کوئی امریکی بلاک میں تھا تو کوئی سوویت بلاک میں ۔ ١٩٨٩ میں افغانستان سے شکست خوردہ سوویت فوجیوں کا انخلاء سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان تھا سوویت یونین بکھر گیا اور اس وقت سے امریکہ یک قطبی نظام عالم کا سربراہ ہے۔ اس تبدیلی کے بعد ہی ٢٠٠٢ میں سویٹزرلینڈ نے اقوام متحدہ کی باضابطہ رکنیت حاصل کی اور اس سے پہلے اس نے وہاں کے شہریوں سے ڈائرکٹ ووٹنگ plebiscite استصواب رائے طلب کیا جس میں اکثریت نے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے حق میں اظہار رائے کیا۔
ہمارے یہاں قانون سازی کے لئے یہاں کے سرکاری طور پر بالغ باشعور شہری اپنے اپنے حلقہ سے نمائندے منتخب کرتے ہیں یعنی انڈائرکٹ شریک ہوتے ہیں جس پر کروڑوں روپے صرف تشہیر پر خرچ ہوتے ہیں ۔ دستور ہند کے ایک بند اور ضمنی بنود سے متعلق عام شہریوں سے اظہار رائے طلب کی گئی ہے کیا اس کی تشہیر پر کما حقہ کام ہوا ہے ؟ کیا یکساں سول کوڈ کے نقاط سے عام شہریوں کو باخبر کیا گیا ہے؟ ایک طرف میڈیا ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ مسلمانوں کے شرعی مسائل پر بندش لگا کر سب کے لئے یکساں قانون بنانے پر دعوت اظہار رائے ہے تو دوسری طرف مقتدر جماعت اور حکومت کے بعض ذمے داروں کے متضاد بیانات نے عام لوگوں کو کنفیوژ کر رکھا ہے۔ یکساں کا مطلب یکساں ۔ اگر اس میں کسی کا استثناء کیا جاتا ہے تو پھر وہ تمام شہریوں کے لیے یکساں کہاں رہا۔