Slide
Slide
Slide
سیل رواں

ہمارا تجزیہ سیاسی مہارت اور سیاسی دوراندیشی کے ساتھ ہونا چاہیے

نــــــوٹ: ’’قیادت کا فقدان یا تسلیمِ قیادت کا بحران‘‘ مسلمانوں کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟۔ مولانا محمود احمد خان دریابادی  ملی درد رکھنے والا معروف چہرہ ہے۔ مولانا کا یہ مضمون یوں تو ایک پرانا مضمون ہے۔ لیکن نشر مکرر کی طور پر مولانا محمود احمد خان دریابادی نے دوبارہ  شائع کیا۔ حسب سابق تحریر کو پذیرائی ملی۔ اور بہتوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ’’سیل رواں‘‘ صحت مند تنقید کا حامی ہے۔ اپنے پیج پر مناسب اور بغرض اصلاح تنقید پر مشتمل  تحریروں کو جگہ دیتا ہے۔  مولانا ابوالاعلی سید سبحانی کی یہ تحریر اسی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔اس سے متعلق دیگر تحریریں درج ذیل لنکس پر کلک کر کے  پڑھ سکتے ہیں۔

نــــــوٹ: ’’قیادت کا فقدان یا تسلیمِ قیادت کا بحران‘‘ مسلمانوں کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟۔ مولانا محمود احمد خان دریابادی  ملی درد رکھنے والا معروف چہرہ ہے۔ مولانا کا یہ مضمون یوں تو ایک پرانا مضمون ہے۔ لیکن نشر مکرر کی طور پر مولانا محمود احمد خان دریابادی نے دوبارہ  شائع کیا۔ حسب سابق تحریر کو پذیرائی ملی۔ اور بہتوں کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ’’سیل رواں‘‘ صحت مند تنقید کا حامی ہے۔ اپنے پیج پر مناسب اور بغرض اصلاح تنقید پر مشتمل  تحریروں کو جگہ دیتا ہے۔  مولانا ابوالاعلی سید سبحانی کی یہ تحریر اسی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔اس سے متعلق دیگر تحریریں درج ذیل لنکس پر کلک کر کے  پڑھ سکتے ہیں۔

تحریر: ابوالاعلی سید سبحانی

امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کے بعد دنیا بھر کے مسلم علماء اور دانشوروں کو اپنے یہاں کیوں جمع کیا تھا؟

اُس وقت وہاں جانے والوں نے ایک عذر یہ پیش کیا تھا کہ اس وزٹ کا مقصد جدید ٹکنالوجی اور جدید ترقی یافتہ دنیا سے مسلم علماء اور دانشوروں کو واقف کرانا تھا، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ سفر خالص ایک سیاسی سفر تھا۔ اس سفر کا مقصد دنیا بھر میں امریکہ کی شبیہ کو درست اور صاف کرنا تھا، اور ان میں سے اپنے کام کے “افراد” کو مستقبل میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ اُس دوران امریکہ جانے والوں کا ایک آزادانہ اور بے لاگ تجزیہ ہونا چاہیے کہ امریکہ جانے سے پہلے اور بعد کی زندگی میں ان افراد کی شخصیات اور افکار میں کیا کچھ تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ اور امریکہ نے علماء ودانشوران کی اس وزٹ سے کن سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 

نریندر مودی کی وزیراعظم بننے سے پہلے گجرات فسادات اور قتل وخون والی ایک عالمی شبیہ تھی۔ چنانچہ نریندر مودی نے وزیراعظم بننے کے بعد کئی کام کیے:

  • مسلم دنیا کے ممالک کا بار بار سفر کیا۔
  •  مغربی دنیا کے ممالک کا بار بار سفر کیا۔ 
  • دہلی میں ایک انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کی۔
  • سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے ایک بڑا شہری ایوارڈ حاصل کیا۔
  • یوم آزادی کی تقریب میں مسلم حکمرانوں کو خاص طور پر مدعو کیا گیا۔

اور اسی طرح اور بھی بہت سے اقدامات کے ذریعہ اپنی بگڑی ہوئی تصویر کو صاف کرنے کا کام کیا اور سچ بات یہ ہے کہ اس میں بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل کی۔

سیاسی اسفار کے اپنے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں، لہذا ان کا تجزیہ بھی پوری سیاسی مہارت اور سیاسی دوراندیشی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ابھی رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عیسی ہندوستان کے سفر پر آئے۔ نریندر مودی کی قیادت میں موجودہ حکومت نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور ان کے سفر کو پورا پورا میڈیا کوریج دیا گیا۔ اس موقع پر ہمارے احباب نے عموماً دو طرح کے تبصرے کیے:

  • ایک: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا ارشد مدنی نے چونکہ ڈاکٹر عیسی کا روزناموں میں اعلان کرتے ہوئے کھلا استقبال کیا، اس لیے ان کے سفر کو بار بار جواز فراہم کرنے اور اس کو نارملائز کرنے کے لیے کچھ لوگوں نے پورا زور لگادیا۔ 
  • دوسرا: بہت سے ساتھیوں نے اس سفر کی خطرناکی کو تو محسوس کیا لیکن وہ اس سفر کا سیاسی تجزیہ کرنے سے قاصر رہے، چنانچہ ان کی طرف سے سفر کے دوران سامنے آنے والی دسترخوان اور مندر وغیرہ کی تصاویر اور دوسرے پروگرامس کی تصاویر کو پیش کرکے جزوی قسم کی باتیں کی گئیں۔

حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ:

  • – اس دورہ کے پس منظر، اصل مقاصد اور اصل خطرناکی پر کھل کر گفتگو کی جاتی۔ 
  • – ڈاکٹر عیسی کے بیک گراؤنڈ اور ان کے فکری پس منظر کا کھلا تجزیہ کیا جاتا۔
  • – یہاں پر ڈاکٹر عیسی کے خطابات اور بیانات میں موجود بین السطور کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔
  • – سعودی عرب اور ہندوستان کے سیاسی تعلقات کا تجزیہ کیا جاتا کہ وہ محمد بن سلمان کے آنے کے بعد سے اب تک کس رخ پر جارہے ہیں۔
  • – سعودی حکومت کا تاریخی تجزیہ کیا جاتا کہ وہ پہلے ہمارے ملی مسائل کے سلسلہ میں کیا اپروچ رکھتی تھی اور اب کیا صورتحال ہے۔ 
  • – مسلم حکمرانوں میں جو ’’اعتدال پسند اسلام‘‘ کا علم اٹھاتے ہیں، وہ اکثر دوسرے مذاہب و اقوام کے ’’دائیں بازو‘‘ والوں کے ساتھ کیوں کھڑے نظر آتے ہیں؟
  • – اور بھی پہلو ہوسکتے ہیں جن پر بہت کھل کر اور بے باکانہ انداز میں تجزیہ ہونا چاہیے۔

بہرحال، یہ واضح طور پر ایک سیاسی وزٹ ہے، یہ نریندر مودی کی فسطائی حکومت کی بھرپور اور باقاعدہ میزبانی میں ہورہی ہے، اجیت ڈوبھال اس وزٹ کو بذات خود ہینڈل کررہے ہیں، گودی میڈیا کی جانب سے اس کو بھرپور کوریج دیا جارہا ہے، لہذا اس وزٹ کا سرسری تجزیہ اور اس کو نارملائز کرنے کی کوئی بھی کوشش کسی بھی طور پر مناسب نہیں معلوم ہوتی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: