Slide
Slide
Slide
مفتی ناصرالدین مظاہری

دینی مدارس کے فارغین کہاں چلے جاتے ہیں؟

تحریر: مفتی ناصرالدین مظاہری/استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور

 کوئی مانے نہ مانے لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ جو شعبہ متاثر ہوا ہے اس کانام ہے تعلیم،ویسے بھی ہماری نئی نسل زورزبردستی ہی پڑھ رہی ہے ،دینی تعلیم کاحال اوربھی خراب ہواہے ،دینی تعلیم کوچونکہ کبھی بھی روزگارسے جوڑنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اس لئے نئی نسلوں   کا رجحان دینی تعلیم کے حصول میں کم ہوگیاہے، مادی اور تمدنی چکاچوند نے نسل ِنو کے ذہن ودماغ پربرااثرڈالاہے ،دین سے دوری اور بیزاری کا ایک ماحول بنتا جارہاہے، روزگارکے متوقع مواقع کی وجہ سے عصری تعلیم گاہوں میں طلبہ کی زیادتی ہوئی ہے،ایک طرف دینی مدارس ہیںجو مفت طعام،قیام، بجلی،کتب،علاج ومعالجہ اوروظائف وکنسیشن فارم کی آفروسہولت دینے کی پیشکش کررہے ہیں تودوسری طرف عصری اسکول وکالجز ہیں جو داخلہ سے لیکر ماہانہ وسالانہ اور امتحانات وکورسیز پربھاری بھرکم فیس کا اعلان کرتے ہیں۔ دیکھا جائے توفطری طورپر دینی مدارس میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہاں ہرچیز مفت ہے ،لیکن ہورہاہے اس کے برعکس اوراگرسچرکمیٹی کی رپورٹ مانی جائے توصرف چارفیصدبچے دینی تعلیم کے حصول کیلئے مدرسوں میںداخلہ لیتے ہیں۔

 کیا آپ نے غورکیا کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں، عوام ہمیں اپنی سب سے قیمتی چیز ’’اولاد‘‘ اِس امید پرہمارے سپرد کرتی ہے کہ ان کے اندراصلاح پیدا ہوگی ،نیکی کے اثرات نمایاں ہوں گے، نماز ،تلاوت اور دینی برکات کا بول بالا ہوگا، اُن کابچہ دوسرے بچوں کیلئے نمونہ بنے گا ،لوگ تربیت یافتہ بچہ کی چال ڈھال دیکھ کر اظہارمسرت کریں گے ،بچہ خودبھی نمازوں کا اہتمام اور والدین کا احترام کریگا او راپنے بہن بھائیوں کو بھی دینی لائن پر لانے کی کوشش کرے گا۔جوبچہ مدارس کی چہاردیواری میں فجرکی اذان سے پہلے بیدار ہونے کا عادی ہووہ گھرآکر بھی وہی عمل کرےگا؛ لیکن معاف کریں۔ دینی مدارس کے اکثرطلبہ جب اپنے وطن واپس پہنچتے ہیں تو پرانی ڈگر اورقدیم روِش کواپنا لیتے ہیں ،مساجد سے دور، کھیل کے میدان سے قریب۔اکرام واحترام سے دور، بداخلاقی وبدخلقی سے قریب ۔تلاوت قرآن سے دور ، موبائل وکمپیوٹرسے قریب ۔والدین کا ادب کرنا تودوربہن بھائیوں سے لڑنااورجھگڑنا بھی شروع۔

 اگر نمازجنازہ پڑھانے کی نوبت آجائے تو بغلیں جھانکنے لگتاہے،نکاح پڑھانے کو کہہ دو تو راہ فرار اختیار کرتاہے،جمعہ یاعیدین میں تقریر کیلئے بلائو تو منع کردیتاہے،کوئی دینی بات یا تاریخی واقعہ معلوم کرلوتو لاعلمی کا اظہار کرتاہے، تحریر اُس کی درست نہیں،املا اس کا صحیح نہیں،کردار اورگفتار میں شرافت نہیں توپھرآپ ہی فیصلہ کریں کہ والدین کیا کریں؟

 نتیجہ یہ ہوتاہے کہ عوام نکیرکرنے لگتے ہیں، مدارس کے نظام تربیت پر انگلی اٹھانے لگتے ہیں،ان کو اپنی آس و امید پر پانی پھرتا نظرآنے لگتا ہے پھروہ اپنے اُن بچوں کو دیکھتے ہیں جو اسکول میں پڑھتے ہیں اور موازنہ کرنے لگتے ہیں اورپھر ان کا ضمیر خودہی فیصلہ کرتاہے کہ دونوں میں توکچھ بھی فرق نہیں ہے؟۔

 یہ سوال جب ان کے دماغوں میں آتاہے تو رفتہ رفتہ دینی تعلیم سے بیزار ہونے لگتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہونچتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اُن اوقات کو ضائع تصورکرنے لگتے ہیں جن دنوں میں اس نے دینی تعلیم حاصل کی ہے۔

 خدارا! مدارس کو آمدنی کا ذریعہ نہ بنائیں ،زکوٰۃ وصدقات کی رقم امیروں کی اولاد کو نہ کھلائیں، مستحقین تک ان کا حق پہنچائیں،کون مستحق ہے اورکون مستحق نہیں یہ معلوم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے،قوم نے آپ پراعتماد کرکے اپنی زکوٰۃ آپ کے حوالہ کی ہے اسلئے قوم کی توقعات پر کھرا اترنا آپ کی ذمہ داری ہے اوراس معاملے میں جوبھی کوتاہی ہوگی اس کیلئے بارگاہ رب العلمین میں قوم کو نہیں آپ کو جوابدہ ہوناہے۔

 مدارس کامال مالِ وقف ہے،مالِ وقف کو فضولیات میں نہ اُڑائیں،اِس رقم سے طلبہ کی تعلیم وتربیت کچھ اِس انداز اورمنہاج پرکریں کہ اپنے بھی خوش ہوں اورپرائے بھی،خوشبوچاروں سمت پھیلتی ہے،حسنِ تربیت کااثر ہرماحول اورمعاشرہ قبول کرتاہے۔

 کچھ دن پہلے خبر آئی کہ بہت سے جعلی اور فراڈ مدارس کوحکومت نے بند کردیاہے اوربہت سے جعلی مدارس بند ہونے کی کگارپر ہیں،غورکریں!حکومت غیروں کی ہے وہ کیا اثرلے گی،وہ جب ہمارا موازنہ ہمارے بڑوں سے کرے گی توانگشت بدنداں ہوکرکہہ اٹھے گی :

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ

 اپنے معاملات میں شفافیت لائیے! حسابات درست کیجیے ہرسال کا حساب C/Aسے چیک کروائیے! قوم کی طلب سے پہلے اپنا صاف ستھرا حساب ان کے سامنے رکھئے،فضول کاموں، اشتہاروں، تعمیرات، پروگراموں اوراخبارات میں بے دریغ رقوم صرف نہ کیجیے بلکہ اس بجٹ سے یتامیٰ کی کفالت کا معقول نظم بنائیے،چن چن کراور قوم کے درمیان جاجاکر یتیموں کومکمل سہولتوں کے ساتھ پڑھائیں اوربڑھائیں۔صرف زکوٰۃ وصدقات پرانحصار کرنے کے بجائے امیروں اور رئیسوں کی اولادسے اُن کے بچوں کو پڑھانے کی فیس لیجیے،خوردونوش،رہن سہن اورمعیارزندگی میں سدھارلائیے! اُن کی سب سے قیمتی امانت ’’اولاد‘‘ جوآپ کے سپرد ہے اس کی تعلیم وتربیت پربھرپور توجہ دیجیے!آپ کے مدرسہ کی چہاردیواری سے جب تعلیم یافتگان ’’زیورتربیت‘‘ سے بھی آراستہ ہوکرنکلیں گے توپھر مدرسہ بھی نیک نام ہوگا ،اساتذہ بھی۔امت ایسے نونہالوں کوپاکرخود بھی راہ یاب ہوگی اور دوسرے ماحول ومعاشرہ کیلئے نظیرومثال بھی بنے گی۔

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

نالہِ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خُونِ گُلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: