محمد قمر الزماں ندوی استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپ گڑھ
دین اسلام کا امتیازی وصف اعتدال اور توازن ہے ، اسی لئے اس امت کو امت وسط کا خطاب ملا ہے ، وسطیت ،اعتدال و توازن دنیا و آخرت میں کامیابی کی شاہ کلید ہے ۔ جب معاشرہ اعتدال پسند ہوتا ہے، تو اس میں توازن رہتا ہے ،پھر وہ معاشرہ اس اعتدال کی برکت سے کامیاب معاشرہ رہتا ہے، اعتدال یہ وہ صفت ہے، جو زندگی کو خوشگوار اور پر بہار بناتی ہے ۔جس قوم کے افراد اعتدال پسند اور متوازن طبیعت کے ہوں، وہ قوم عروج و کمال تک پہنچتی ہے ،کامیابی و کامرانی اس کی حلیف ہوتی ہے ۔اعتدال اور توازن جمال و خوبصورتی کا سبب ہے، اور افراط و تفریط بدصورتی اور بدنمائی کا ذریعہ ہے ،جہاں اعتدال ،میانہ روی اور توازن ختم ہوتا ہے، وہیں سے افراط و تفریط کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں اور جب یہ مزاج انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے تو پھر عقل و منطق کی کوئی تدبیر اس کے لئے کارگر نہیں ہوتی ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں ،عام طور پر ان میں افراط و تفریط انسان کے لیے ناگوار خاطر اور دشوار ہوتی ہے ،یہاں تک کہ انسان کے لئے نفع بخش اور مفید ترین چیزیں بھی، اگر حد اعتدال سے بڑھ جائیں یا حد ضرورت سے کم ہوجائیں، تو انسان کے لئے رحمت کی بجائے زحمت اور انعام خدا وندی کی بجائے عذاب آسمانی بن جاتی ہیں ۔۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو اعتدال پر قائم فرمایا ہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بھی اعتدال چاہتے ہیں اور افراط و تفریط کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے عدل کا حکم دیا ہے ۔عدل کی روح اعتدال ہے اور جادئہ اعتدال سے ہٹ جانا ہی، انسان کو ظلم کی طرف لے جاتا ہے ،اعتدال زندگی کے تمام شعبوں میں اور ہر مرحلہ میں مطلوب ہے ۔ شریعت کے اصول اور قرآن وحدیث پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتار و رفتار خوشی و غم سلوک و برتاؤ اور بحث و مباحثہ،دوستی و دشمنی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت ہر شعبئہ زندگی میں افراط و تفریط ناپسندیدہ ہے، اور اعتدال مطلوب و محبوب ہے ۔
اعتدال انسان کی رفتار میں بھی ہو ،اترانے کا انداز نہیں ہونا چاہیے، یہ چال کا اعتدال ہے ۔ولا تمش فی الارض مرحا ، گفتگو بول چال میں بھی اعتدال اور توازن ہو ،آواز نہ بالکل پست ہو کہ مخاطب سن نہ سکے اور نہ اتنی کرخ دار گرج دار اور بلند کہ حد اعتدال سے گزر جائے ۔قران کہتا ہے کہ آواز حسب ضرورت پست ہونی چاہیے ،گدھے کی آواز بہت بلند ہوتی ہے ،لیکن سب سے ناپسندیدہ ۔۔ اسی طرح انسان کو لعان اور طعان نہیں ہونا چاہیے کہ وہ بات بات پر کسی لعن طعن کرے ۔ لباس و پوشاک میں بھی اعتدال مطلوب ہے ،لباس تقویٰ کو لباس خیر کہا گیا ہے ۔ اس لباس کو شریعت میں پسند نہیں کیا گیا ہے، جس میں جذبئہ تفاخر ہو ،نخوت تکبر اور گھمنڈ ہو۔ لباس سادہ ہو لیکن لباس پر اس کی نعمت کا اثر ضرور ظاہر ہو ،یہ مقصد نہیں کہ آدمی پھٹے پرانے پہنے جو اس کے مصنوعی فقر کا مظہر ہو ۔غرض یہ کہ لباس میں بھی افراط و تفریط نہ ہو ۔
داڑھی رکھنے کا شریعت میں تاکیدی حکم ہے ،لیکن روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چہرے کی چوڑائی اور لمبائی سے داڑھی تراشا بھی کرتے تھے، عجمی مجذوب کی صورت اپنانا اور کریھ اور بے ہنگم صورت بنا کر رکھنا یہ منع ہے ۔ دعا کے بارے میں بھی حکم شریعت ہے کہ آواز بالکل بلند نہ ہو ،بلکہ ایک حد تک پست ہو ،بہت بلند آواز میں دعا کرنے کو زیادتی قرار دیا گیا ہے ۔دوستی اور دشمنی میں بھی اعتدال مطلوب ہے اس میں بھی افراط و تفریط ناپسندیدہ ہے ۔ دشمن سے بدلہ لینے میں بھی جادئہ اعتدال نہ ہٹے اور اس میں بالکل اندھا نہ ہو جائے ، ظلم کے بقدر ہی بدلا لینا جائز ہے۔
حلال و حرام میں بھی توازن اور اعتدال کا حکم ہے ،شریعت نے جہاں حرام کو حلال کر لینے سے روکا ہے، وہیں یہ حکم بھی دیا کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو ،دین میں غلو کا راستہ اختیار کرتے ہوئے حلال کو بھی حرام نہ کرلیا جائے ۔
تنقید و احترام میں بھی میانہ روی مطلوب ہے یہ جائز نہیں کہ کسی کی فکر پر تنقید کرتے ہوئے اس کی ذاتیات کو نشانہ بنایا جائے، ان پر خواہ مخواہ الزام تراشی کی جائے،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدترین دشمنوں کیساتھ بھی ایسا نہیں کیا اور اس بات سے بھی منع کیا کہ کسی کی شخصیت کے احترام میں غلو کی صورت پیدا ہو جائے ۔
عام طور پر دو چیزیں انسان کو راہ اعتدال سے دور کر دیتی ہیں، محبت اور عداوت ،محبت انسان سے بصارت ہی نہیں بصیرت بھی چھین لیتی ہے ،اسے اپنے محبوب کی برائیوں میں بھی بھلائیاں نظر آتی ہیں ،یہی حال نفرت و عداوت کا ہے، دشمن میں رائی جیسی برائی ہو تو وہ پہاڑ محسوس ہوتی ہے اور پہاڑ جیسی خوبی ہو تو وہ رائی سے بھی حقیر نظر آتی ہے ۔ غلو آمیز محبت اور انکار و شدت اور سرے سے کسی کی نفی یہ دونوں غلط ہیں ۔ (مستفاد حقائق اور غلط فہمیاں صفحہ 80/83)
آج سب سے زیادہ شخصیت پرستی کا فتنہ ہمارے مسلم معاشرہ میں پایا جارہا ہے اور اس کی وجہ سے یہ امت انتشار و افتراق کا شکار ہے ۔۔ کسی صاحب دل نے بہت صحیح تجزیہ کیا ہے کہ کچھ لوگ فطری طور پر غیر معمولی صلاحیت اور غیر معمولی خوبی اور کمال لے کر پیدا ہوتے ہیں ،ان کو اپنے معاصرین میں نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے ان کو طبعی طور پر مرجعیت حاصل ہوجاتی ہے ،کچھ لوگ ان کے ایسے گرویدہ اور فین ہوجاتے ہیں کہ ان کی ہر بات بلا چون و چرا مان لیتے ہیں اور ان کے قلب و دماغ میں وہی باتیں گردش کرتی ہیں ،جو ان کے دل میں ڈالی جاتی ہے ،خواہ وہ قرآن وحدیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور خواہ ان کی بات جمہور علماء کی رائے اور تعامل امت سے ہی کیوں نہ ٹکراتی ہو ۔اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اس میں شدت اور غلو سے کام لیتے ہیں اور اگر کوئی مخلص اور ماہر شریعت عالم دین ان کی غلطی کی نشاندھی کرتا ہے، تو وہ شخص اس کے خلاف ہی محاذ کھول دیتا ہے ۔اور انہیں ہی گمراہ ثابت کرنے لگتا ہے ۔
آج اس امت کا حال یہ ہے ،جس امت کو امت وسط کا خطاب ملا اور جس کی خصوصیت اعتدال و توازن قرار دیا گیا اور جس نے پوری دنیا کو اعتدال و توازن کا سبق سکھایا آج وہی امت افراط و تفریط بے اعتدالی اور غلو کا عنوان بن گئی ہے ۔۔ زندگی کے تمام شعبوں میں بے اعتدالی عام ہے ،احترام و عقیدت میں ذرہ کو آفتاب بتانا اور اختلاف و دشمنی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ انتشار بنانا، ہمارا مزاج اور امتیاز بن گیا ہے ۔ دوستی اور دشمنی میں بے اعتدالی ،تعمیری کاموں میں بخل اور بے فائدہ کاموں میں فضول خرچی یہ بھی آج ہمارا مزاج ہے ۔
افراط و تفریط کے کے بہت سے اسباب و عوامل ہیں جن کی وجہ سے انسان کے مزاج میں تشدد اور سختی پیدا ہوتی ہے ۔ کہیں افراط و تفریط منصوص اور غیر منصوص میں عدم تمیز کی وجہ پیدا ہوتی ہے ۔۔ کہیں افراط و تفریط غلو اور بیجا عقیدت واحترام سے پیدا ہوتی ہے ،کہیں کم علمی اور اپنی جماعت کو صرف راہ نجات پر سمجھنے سے یہ کمی پیدا ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو غلو اور افراط و تفریط سے بچائے اور ہمارے اندر اعتدال و توازن کا حصئہ وافر عطا فرمائے اور زندگی کے ہر موڑ پر افراط و تفریط غلو اور بے اعتدالی سے بچائے آمین