انسانی زبان اور کمپیوٹرکی زبان: ایک تقابل
تحریر:ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی، استاد دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
زبانیں اللہ کا عطیہ ہیں۔اللہ نے انہیں اظہار آراء وافکار کے وسیلہ کے طور پر بنایاہے۔یہ زبان ہی ہے جس سے ہم پیغام پہنچاسکتے ہیں اور دوسروں کومتاثر کرسکتے ہیں۔بلاشبہ زبان ایک معجزہ ہے۔ یہ ان معجزات میں سے ہے جس کی یاددہانی اللہ نے خود قرآن مجید میں کرائی ہے۔ ارشاد باری ہے:’’رحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے ۔ اس نے انسان کو پیداکیا اوراسے بولنا سکھایا‘‘۔ (۵۵: ۱-۴)دوبارہ ارشاد ہے:’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے‘‘۔ (۳۰: ۲۲) مزید ارشاد ہے:’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیاہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ (۱۴: ۴)
بنی نوع انسان کی طرح جو کمپیوٹر سے ربط پیدا کرتاہے، ہمیں ایک ایسی زبان کی ضرورت پڑتی ہے جو کمپیوٹر سمجھتاہو۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ انسانی زبانیں اور کمپیوٹر کی زبانیں دونوں ربط کی منفرد شکلیں ہیں۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ انسانی زبان سیر حاصل اور لچکدار ہوتی ہیں اور کمپیوٹر کی زبان باقاعدہ اور پختہ ہوتی ہیں۔دونوں رابطے کے لیے اور سائنس وٹکنالوجی کے کی ترقی کے لیے لازمی ہوتی ہیں۔لب لباب یہ ہے کہ انسانی زبانیں تین میدانوں تقریری، تحریری اور علامتی ورموزی میں موجود رہتی ہیںلیکن مشین پر مبنی زبانیں صرف ایک میدان تحریری میں موجود رہتی ہیں۔
کمپیوٹر کی زبانوں کی درج ذیل تقسیم ہوتی ہے:
۱۔ مشینی زبان (نسل اول)
یہی وہ زبان ہے جسے کمپیوٹر سمجھتاہے۔ یہ بائنری شکل یعنی ’صفر‘ اور ’۱‘ میں ظاہر ہوتی ہے۔ صفر کا مطلبِ’آف‘ اور ’۱‘ کا مطلب ’آن‘ کی حالت ہوتاہے۔ مشینی زبان کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے اوراس میں بہت کم میموری کا استعمال ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشینی زبان کو(Low Level Language) کم درجے کی زبان کے طور پر جاناجاتاہے۔
۲۔ اسمبلی زبان (نسل دوم)
یہ زبان ’صفر‘ اور’۱‘‘ کی جگہ حافظہ بڑھانے والے اشارات اور رموز کا استعمال کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بائنری میں اگر جوڑ کے لیے عملِ اشارہ 0010ہوتاہے تو اسمبلی زبان میں اس کو براہ راست ’Add‘ لکھاجاسکتاہے کیونکہ اسمبلی زبان رموزی اشارات کا استعمال کرتی ہے۔ چنانچہ اسمبلی زبان میں کام کرنا بائنری زبان کی بہ نسبت زیادہ آسان ہوتاہے۔
۳۔ اعلی درجے کی زبان (نسل سوم)
اعلی درجہ کی زبان انگریزی زبان کے بالکل مساوی ہوتی ہے۔ COBOL، Fortran، Basic، C، C++، Java وغیرہ اعلی درجے کی زبان کی بہت معروف مثالیں ہیں۔
۴۔ چوتھی نسل کی زبان
چوتھی نسل کی زبانیں کسی دیگر اعلی درجے کی زبان سے انسانی زبان سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔
۵۔ پانچویں نسل کی زبان
پانچویں نسل کی پروگرامنگ زبانوں کا استعمال بنیادی طور پرآرٹیفیشیل انٹلی جینس اور آرٹی فیشیل نیورل نیٹ ورک کے شعبہ کے لیے مبنی بر اپلی کیشن اور پروگرام گرافیکل یوزر انٹرفیس کی ترقی کے لیے ہوتاہے۔ یہ زبانیں پروگرامروں کے لیے بہتر انٹرفیس مہیا کرتی ہیں۔ پانچویں نسل کی زبانوں کی کچھ مثالیں Mercury، OP55اور Prologہیں۔ (Computer Applications, P. 3)
اس تناظر میں یہاں کمپیوٹراوراس کی مختلف نسلوں کی مختصر تاریخ کا ذکر کرنا موزوں ہوگا۔ Blaise Pascalنے پہلی جوڑنے والی مشینی کا ایجاد ۱۶۴۲ء میں کیا۔ Baron Gottfriedاور Wilhelm Von Leibnizنے ضرب کرنے کے لیے پہلے کلکولیٹر کا ایجاد ۱۶۷۱ء میں کیا۔ کی بورڈ مشین کی ابتداء امریکہ میںتقریبًا ۱۸۸۰ء میں ہوئی۔ تقریبًا ۱۸۸۰ء میں Herman Hollerithنے پنچ کارڈ کا تصور پیش کیا۔ ان کارڈوں کا استعمال ۱۹۷۰ء کے آخر تک بطور ان پٹ کے وسیع پیمانے پر ہوتاتھا۔ Charles Babbageکو بابائے جدید ڈیجیٹل کمپیوٹر ا تصور کیاجاتاہے۔انہوں نے ۱۸۲۲ء میں ڈیفرنس انجن کی تشکیل کی۔ انہوں نے ۱۸۴۲ء میں بنیادی علمِ حساب کے لیے مکمل خود کار تشریحی انجن بھی تفویض کیا۔ ان کی کاوشوں نے ایسے بے شمار اصول مرتب کیے جو کسی بھی ڈیجیٹل کمپیوٹر کی ڈئزائن میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
اب ہم کمپیوٹر کی پانچ مختلف نسلوں کے بارے میں جانتے ہیں:
- کمپیوٹر کی پہلی نسل (۱۹۴۰ء-۱۹۵۶ء)۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۶ء کے دوران کمپیوٹر کی پہلی نسل کی ترقی ہوئی۔ ان میں پروسیسر کے طور پر ویکم ٹیوب کا استعمال ہوتاتھا۔ مثال کے طور پر: Mark-1، Univac Rnica۔ کمپیوٹر کی دوسری نسل (۱۹۵۶ء – ۱۹۶۳ء)۔
- دوسرے دورانئے ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۳ء تک بنے کمپیوٹر دوسری نسل تصور کی جاتی ہے۔ان کمپیوٹروں میں بطور پروسیسر ویکم ٹیوب کے بجائے ٹرانجسٹر کا استعمال ہوا۔ پہلی اور دوسری نسل کے دونوں کمپیوٹر میں ان پٹ کے طور پر پنچ کارڈ کا استعمال ہوتاتھا۔
- تیسری نسل کے کمپیوٹر (۱۹۶۳ء-۱۹۷۱ء)۔تیسری نسل کے کمپیوٹر میں انٹیگریٹڈ سرکٹ(ICs) کا استعمال شروع ہوگیا۔ انہیں چپ کہاگیا۔ مثال کے طور پر : Apple-1اور IBM۔
- چوتھی نسل کے کمپیوٹر(۱۹۷۱ء -۱۹۸۰ء)۔ انٹیگریٹد سرکٹ کی ایک بڑی تعدادباہم ایک مادے میں رکھی گئی جسے سلیکان چپ کہتے ہیں۔ یہ کمپیوٹر کے تمام اجزاء سے اطلاعات پہنچانے کی اہلیت رکھتاہے۔اسے Central Processing Unitیا CPUکہتے ہیں۔ کمپیوٹر کی چوتھی نسل VLSLہوتی ہے جس کے معنی ’Very Large Scale Integrated‘ سرکٹ کے ہیں۔ چوتھی نسل کے کمپیوٹروں کی مثالیں IBM PCجو ۱۹۸۱ء میں آیا اور Apple Macintosh۱۹۸۴ء میں۔ اس کے بعد لیپ ٹاپ اور پام ٹاپ کمپیوٹر آچکے ہیں جو بیگ میں لے جائے جاسکتے ہیں۔
- پانچویں نسل کے کمپیوٹر(۱۹۸۰ء تا حال)۔ پانچویں نسل کے کمپیوٹر آرٹی فیشیل انٹلی جینس پر مبنی ہوں گے۔ یہ ابھی ترقی کے مرحلے میں ہیں۔ روبوٹ پانچویں نسل کے کیمپوٹروں کی بہترین مثال ہیں۔ آرٹی فیشیل انٹلی جینس کی کچھ خصوصیات درج ذیل ہیں:
٭ان میں عظیم پیمانے پر انٹیگریٹڈ چپ کا استعمال ہوگا۔٭ وہ حد درجہ پیچیدہ مسائل کرنے کے اہل ہوں گے۔٭وہ فکر کے حدود پر غالب آنے کے اہل ہوں گے۔ (Digital World, P. 5-6)
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ Statista کی ایک تحقیق کے مطابق کمپویٹر کی زبانوں میں Java Script سب سے مقبول زبان ہے۔ Java Scriptایک لکھنے کی زبان ہے جو ویب سائٹ اور موباہل اپلی کیشن بنانے کے لیے زیادہ متعامل ہے۔
جہاں تک انسانی زبانوں کا تعلق ہے تو انگریزی مقبول ترین زبان ہے۔ اس کے بولنے والے تقریبًا ۱۴۵۲ملین لوگ ہیں۔ Ethnolugueکے مطابق انگریزی دنیا کی بشمول وطنی اور غیر وطنی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔انگریزی دنیا کی عام زبان بن چکی ہے۔ یہ عالمی تجارت ، سیاحت، ٹکنالوجی وغیرہ کی ایک عادی زبان ہے۔
الغرض حقیقی معنوں میںآج جو طریقۂ تعلیم رائج ہے وہ یہ ہیں: (۱) تعلیم (۲) تربیت اور (۳) تلقین۔ اوراس کے حصول کے لیے انسان کو مذکور بال تمام طرح کی زبانوں پر عبور رکھنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ تعلیم کے میدان میں زبانوں کی غیر معمولی اہمیت ہے۔قطعی طور پر باقی تمام مخلوقات پر انسان کی افضلیت اس وجہ سے ہے کہ وہ تمام زبانوں کا علم رکھتاہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام انسانی اور کمپیوٹری زبانوں سیکھیں تاکہ دنیا کے اسرار وحقائق جان سکیں۔ اور ہم اس طرح اپنی زندگی اللہ کی مرضی کے مطابق گزارسکیں،تبھی ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔