محمد قمر الزماں ندوی/استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
گزشتہ کل ہمارے قارئین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ مولانا صاحب ! یہودیت کیا ہے، اور یہودی اصلا کون لوگ ہیں ، کیا آج جو لوگ یہودی ہیں یہ اصلا اور اصولا یہودی اور اہل کتاب ہیں، اہل کتاب کی تعریف کیا ہے،کیا موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہی کے لوگ یہودی کہلاتے ہیں؟ اس پر آپ تھوڑی روشنی ڈالیں اور اس کی وضاحت فرمائیں ، مہربانی ہوگی، ۔۔ اسی سوال کا جواب ذیل کی تحریر میں پیش کیا جارہا ہے ۔
اہل کتاب قرآن و سنت کی اصطلاح میں کون لوگ ہیں،کتاب سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا اہل کتاب ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور پر ایمان رکھتے ہوں ،اس میں تو ظاہر ہے کہ کتاب کے لغوی معنی یعنی ہر لکھا ہوا ورق تو مراد نہیں ہوسکتا ،وہی کتاب مراد ہوسکتی ہے ،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہو ۔اس لیے باتفاق امت کتاب سے مراد وہ آسمانی کتاب ہے ،جس کا کتاب اللہ ہونا ،بتصدیق قرآن یقینی ہو،جیسے تورات ،انجیل زبور ،صحف موسیٰ و ابراہیم وغیرہ ۔
اس لئے وہ قومیں جو کسی ایسی کتاب پر ایمان رکھتی اور وحی الٰہی قرار دیتی ہوں، جس کا کتاب اللہ ہونا قرآن وسنت کے یقینی ذرائع سے ثابت نہیں ،وہ قومیں اہل کتاب میں داخل نہیں ہوں گی ،جیسے مشرکینِ مکہ ،مجوس ،بت پرست ،ہندو ،بدھ آریہ سکھ وغیرہ ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصارٰی جو تورات و انجیل پر ایمان رکھنے والے ہیں، وہ باصطلاح قرآن اہل کتاب میں داخل ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہود و نصارٰی کو اہل کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے، کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں ،یا محرف و تبدیل شدہ تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے عیسیٰ و مریم علیہما السلام کو خدا کر شریک قرار دینے والے بھی اہل کتاب میں داخل ہیں ، سو قرآن مجید کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہل کتاب ہونے کے لئے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعویدار ہوں ۔خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گمراہیوں میں جا پڑے ہوں ۔
قرآن مجید میں جن کو اہل کتاب کا لقب دیا انہیں کے بارے میں یہ بھی جا بجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں ۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو ۔ قالت الیھود عزیر بن اللہ و قالت النصاری المسیح بن اللہ ،ان حالات و صفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہل کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصارٰی جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑیں وہ اہل کتاب میں داخل ہیں ،خواہ وہ کتنے ہی عقائد فاسدہ اور اعمال سئیہ میں مبتلا ہوں ۔۔۔ (مستفاد معارف القرآن ص،231,ج5سورہ ابراہیم )
خلاصہ یہ کہ آج کل وہ لوگ جو صرف نام کے یہود و نصارٰی ہیں ،جو تورات و انجیل کو حقیقتاً آسمانی کتاب نہیں مانتے اور جو صرف مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں اور جو خدا کے وجود اور کسی مذہب کے قائل نہیں اور نہ موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کو نبی تسلیم کرتے ہیں، وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہل کتاب کے حکم میں شامل نہیں ہوسکتے ۔
اب آئیے یہودی ،یہود اور یہودیت کی حقیقت اور اصل کیا ہے اس کو سمجھتے ہیں ۔
قرآن مجید میں سورہ جمعہ آیت نمبر 6/ میں ہے ،، قل یاایھا الذین ھادوآ ان زعمتم انکم اولیاء لللہ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین ۔۔( سورہ جمعہ:6) ترجمہ ان سے کہو ،،اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو ،اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم اور خیال میں سچے ہو ۔
اس آیت کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں کہ ،، یہ نکتہ قابل توجہ ہے ،، اے یہودیو ،، نہیں کہا ہے بلکہ ،، اے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو، یا جنہوں نے یہودیت اختیار کرلی ہے ،، فرمایا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دین جو موسیٰ علیہ السلام اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے وہ تو اسلام ہی تھا ۔ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا اور نہ ان کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی ۔یہ مذہب اس نام کے ساتھ بہت بعد کی پیداوار ہے۔ یہ اس خاندان کی طرف منسوب ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے یہودا کی نسل سے تھا ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب سلطنت دو ٹکروں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ الگ ریاست قائم کرلی جو سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی ۔پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا ،بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا نام و نشان مٹا دیا ،جو اس ریاست کے بانی تھے ۔اس کے بعد صرف یہودا اور اس کے ساتھ بن یامین کی نسل باقی رہ گئی، جس پر یہودا کی نسل کے غلبے کی وجہ سے یہود کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا ۔اس نسل کے اندر کاہنوں اور ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات و نظریات اور رجحانات کے مطابق عقائد و رسوم اور مذہبی ضوابط کا ڈھانچہ صدہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے ۔یہ ڈھانچہ چوتھی صدی قبل مسیح سے بننا شروع ہوا اور پانچویں صدی تک بنتا رہا ۔اللہ کے رسول کی لائی ہوئی زبانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے ۔اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے ۔اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو یہود نہ کہکر الذین ھادوآ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے ،یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو ،،ان میں سب کے سب اسرائیلی ہی نہ تھے، بلکہ وہ غیر اسرائیلی لوگ بھی تھے ،جنھوں نے یہودیت قبول کرلی تھی ۔قرآن میں جہاں جہاں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ہے ،وہاں اے بنی اسرائیل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور جہاں مذہب یہود کے پیروؤں کو خطاب کیا گیا ہے، وہاں الذین ھادوآ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،، ۔۔تفہیم / جلد پنجم ۔