بہار کو خصوصی ریاست قرار دینے کا مطالبہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
۲۲/ نومبر ۲۰۲۳ء کو حکومت بہار کی کابینہ نے بہار کو خصوصی ریاست کے درجہ دینے کے مطالبہ پر مہر لگادی ہے اور فیصلہ لیا ہے کہ خصوصی ریاست کے درجہ دینے کے لیے وزیر اعظم کو خط لکھا جائے گا، اس سلسلے کا پہلا خط وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ہی ۹/ دسمبر ۲۰۰۵ء کو لکھا تھا، اس وقت وزیر اعظم من موہن سنگھ تھے اور نتیش حکومت کو حلف لیے صرف پندرہ دن ہوئے تھے،ا س کا مطلب ہے کہ یہ مطالبہ اٹھارہ سال پرانا ہے، اور اس درمیان نتیش کمار مختلف پلیٹ فارم سے یہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ۴/ اپریل ۲۰۰۶ء کو بہار ریاستی اسمبلی میں بھی یہ تجویز پاس ہوئی اور مرکزی حکومت کو بھیج دی گئی، جد یو کی طرف سے سوا کروڑ لوگوں کے دستخط بھی وزیر اعظم کو سونپے گیے، کانگریس دور حکومت میں ان مطالبات کا اثر یہ ہوا کہ ۵۱/ مئی ۲۰۱۳ءکو مرکزی سرکار نے رگھو رام راجن کی صدارت میں ریاستوں کی پس ماندگی کا معیار طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی، اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ ۲/ ستمبر ۲۰۱۳ءکو مرکزی حکومت کو پیش کر دیا، اور ۲۶/ ستمبر ۲۰۱۳ء کو مرکزی حکومت جو کانگریس کی تھی اس نے اس کو عام بھی کر دیا، رپورٹ کے مطابق بہار زیادہ پس ماندہ دس ریاستوں میں سے ایک تھا، اس کے لیے رگھو رام راجن کمیٹی نے پس ماندگی طے کرنے کے جو اصول بنائے تھے اس کے مطابق، سخت پتھر یلی زمین، پہاڑی علاقہ، گھنی آبادی، سرحدی علاقے، اقتصادی کمزوری وغیرہ کو بنیاد بنایا گیاتھا، سیلاب اور نکسلی کی رعایت بھی ملحوظ تھی۔درمیان میں جب نتیش حکومت بھاجپا کی حلیف بن کر حکومت پر قابض ہوئی تو یہ مطالبہ سرد بستے میں چلا گیا، حالاں کہ اس مطالبہ کی منظوری کا اصل وقت وہی تھا، جب ریاست میں ڈبل انجن کی سرکار چل رہی تھی، نتیش کمار کی کچھ اپنی مجبوری رہی ہوگی جو اس دور میں یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی، خود جب وہ مرکزمیں وزیر تھے اور ان کے لیے اس مطالبہ کی منظوری کرانا آج کی بہ نسبت زیادہ آسان تھا،وہ کچھ نہ کراسکے۔
اب جدیو عظیم اتحاد کے ساتھ ہے، اس نے بہار کا اقتصادی سروے کراکے دنیا پر آشکارا کر دیا ہے کہ بہار کس قدر غریب ہے اوریہاں کے لوگوں کو اپنی زندگی گذارنے اور روز مرہ کے کاموں، خوردونوش وغیرہ کو انجام دینے کے لیے کس قدر مدد کی ضرورت ہے، ایسے میں بہار حکومت کو پھر سے خصوصٰ درجہ کی یاد آئی ہے۔ اللہ کرے اس بار یہ کام ہوجائے، گو اس کی توقع ذرا کم ہی نظر آتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت کوئی فیصلہ کرتے وقت یہ بات ملحوظ رکھتی ہے کہ ا س کی پارٹی کو اس سے کیا فائدہ ہوگا اور ووٹ بینک میں کس قدر اضافہ ہوگا، اس کام کو کرنے سے سارا کریڈٹ بہار سرکار کو جائے گا اور بھاجپا کے حصۃ میں کچھ نہیں آئے گا، اس لیے اس کی توجہ اس کام کی طرف کم ہی ہوگی، مجبوری کی بات دوسری ہے، پچھہتر فی صد رزرویشن بھاجپا کے خلاف تھا، لیکن اسمبلی میں اس نے مخالفت اس لیے نہیں کی کہ اس سے دلت، او بی سی ووٹ کے دور ہوجانے کا اندیشہ تھا، ذات پر مبنی مردم شماری کو بھی جبرا اس نے تسلیم کیا، ایسے ہی اگر کوئی بات بھاجپا کے نظریہ ساز ادارے (تھنک ٹینک) نے وزیر اعظم کو سمجھایا اور بھاجپا کو کچھ فائدہ نظر آیا تو خصوصی ریاست کا درجہ مل بھی سکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو دوسری ریاستوں کی جانب سے اس قسم کا مطالبہ زور پکڑنے لگے گا، خصوصا اس شکل میں جب اتراکھنڈ کو اسی بنیاد پر خصوصی درجہ پہلے مل چکا ہے۔