یہ آر ایس ایس کی جیت ہے

بقلم:       محمد نصر الله ندوی

             چار ریاستوں کے نتائج نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے،ان کیلئے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بی جے پی نے تلنگانہ کو چھوڑ،تین ریاستوں میں فتح کا پرچم کا لہرا دیا اور اقتدار کی کرسی پر قابض ہو گئی،یہ نتائج کانگریس کیلئے بہت مایوس کن ہیں،کرناٹک کے بعد کانگریس میں ایک نیا جوش اور جذبہ پیدا ہوا تھا،مگر یہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا،اور ایک بار پھر اس کو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے، اس شکست نے اس کو ازسر نو اپنی حکمت عملی پر غور کرنے کیلئے مجبور کردیا ہے۔

                اس میں شک نہیں کہ یہ نتائج صرف کانگریس کیلئے ہی نہیں،جمہوری قدروں میں یقین رکھنے والے ہر شخص کیلئے لمحہ فکر ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی کو اتنی بڑی کامیابی کیسے حاصل ہوئی؟کیا بی جے پی کو شکست دینا واقعی ناممکن ہے؟کیا نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی ناقابل تسخیر ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہن ودماغ میں گردش کر رہے ہیں۔

                  بی جے پی کی یہ جیت دراصل جمہوریت کی ہار ہے،بی جے پی نے تمام جمہوری اداروں کو اپنا غلام بنا لیا ہے،الیکشن کمیشن جس طرح خاموش تماشائی بنا رہتا ہے،اور بی جے پی کیلئے ماحول سازگار بنانے میں معاونت کرتا ہے،اس نے الیکشن کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں،اسی طرح میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے،اس کا کام صرف اقتدار کی چاکری کرنا رہ گیا ہے،اس کے علاوہ سرکاری ایجینسیاں مثلا،ای ڈی،سی بی آئی وغیرہ سرکار کے اشارہ پر ناچتی ہیں،اور الیکشن کو متاثر کرنے کیلئے کام کرتی ہیں،یعنی سام ،دام ،ڈنڈ،بھید کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی حکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے،یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب جمہوریت جاں کنی کے عالم میں آخری سانسیں لے رہا ہے،اور ہندوستان تیزی سے ایک ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

               کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں احمقوں کی حکومت ہوتی ہے،حالیہ نتائج نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے،مدھیہ پردیش کے ووٹروں نے ہندتو کے برانڈ کو کامیاب بنایا ہے،انہوں نے ووٹ دیتے وقت دماغ کا استعمال نہیں کیا،بلکہ جذبات کی رو میں بہ گئے،ان کے سامنے بیروزگاری، کرپشن، مہنگائی جیسے سنگین مسائل تھے،لیکن شاید ان کی آنکھوں پر ہندتو کی پٹی پڑی تھی،ان کے سروں پر الیکشن کمیشن کا ہاتھ تھا،ایسے میں بھلا کون بی جے کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے!

              بی جے پی کی جیت میں سب سے بڑا دخل آر ایس ایس کا ہے،جس کے کارکنان نے رات دن ایک کرکے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچایا اور انہیں بی جے پی کو ووٹ کرنے کیلئے آمادہ کیا،آرایس ایس زمین سے جڑی ہوئی تنظیم ہے،اس کے پاس ایک مشن ہے،جس کی تکمیل کیلئے اس کے ممبران بہت جانفشانی کرتے ہیں،اور جان ومال کی قربانی دیتے ہیں،نہ ان کو صلہ کی تمنا ہوتی ہے،نہ ستائش کی پرواہ،ان کے سامنے صرف مقصد ہوتا ہے،جس کے سامنے وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں،اس میدان میں کانگریس پچھڑ جاتی ہے،بلکہ بسا اوقات جیتی ہوئی بازی ہار جاتی ہے۔

      افسوس کی بات یہ ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمان نہ آر ایس ایس کی طرح منظم ہیں،اور نہ اس کی طرح قربانی کا جذبہ ان کے اندر پایا جاتا ہے،ابھی تک وہ جلسہ جلوس سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں،حالات کے اعتبار سے وہ اپنی حکمت عملی بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں،اور نہ ہی اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانے کے روادار ہیں ،ظاہر ہے اکیسویں صدی کی چکا چوند اور ترقی یافتہ دنیا میں بھی،اگر ہم برٹش دور کے ہتھیار استعمال کریں گے،تو ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے،اس لئے بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں اپنے طرز عمل اور لائحہ عمل پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔