از قلم:غالب شمس قاسمی
جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیادت و سیاست کا خاتمہ ہوا، نظامِ قضاء اور اسلامی عدالت آہستہ آہستہ ختم کردئے گئے، تو اس وقت یہ مسئلہ سامنے آیا کہ عائلی و خانگی مسائل و معاملات میں مسلمان کس کی طرف رجوع کریں، خلافت کا خاتمہ ہوا، تو بے سمتی نے مسلمانان ہند کا نقطہء اتحاد تلاش کیا، اس نازک مرحلے میں حضرت ابو المحاسن محمد سجادؒ نے قوم کی رہنمائی کی، خلافت اسلامیہ کے طرز پر امارت شرعیہ کا نظریہ پیش کیا، اور بہار و اڑیسہ میں اس کا قیام عمل میں آیا، اس سلسلے میں بہت سے شبہات اور اعتراضات ہوئے، جن کا تسلی بخش جواب مولانا کے تلمیذ رشید اور رفیق کار مغتنم العلماء حضرت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے باحسن وجوہ دیا، سب سے پہلے اسلام کے اجتماعی نظام تصور کو قرآنی آیات سے سمجھایا، اور تفصیل سے بتایا ہے کہ قرآن مجید نے دار الکفر میں مسلمانوں کی زندگی کے لئےوہی رہنمائی کی ہے اور انتشار و افتراق سے اسی طرح منع کیا ہے جس طرح دار الاسلام میں روکا ہے، دار الکفر ہو یا دار الاسلام دونوں مقام پر جماعتی زندگی اختیار کرے، اور تشتت و افتراق اور فوضویت کی غیر شرعی زندگی سے بچے، چنانچہ اس تصور اجتماعی کی تشکیل بغیر امیر و قائد کے نہیں ہوسکتی، بقول مولانا رحمانی”اس کے اجمالی بیان سے قرآن کریم بھی ساکت نہیں ہے، صرف غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اتنی بات تو بہت واضح ہے کہ جماعت کا تحقق بغیر کسی قائد کے نہیں ہو سکتا ہے چاہے وہ نماز کی جماعت ہو، اور اس کے قائد کا نام امام رکھ لیا جائے ، یا کوئی فوجی جماعت ہو اور اس کے قائد کا نام سپہ سالار ، امیرعسکر ، یا کوئی دوسرا نام رکھ لیا جائے یا اخلاقی، سیاسی علمی ، ادبی اور اقتصادی امور کے متعلق کوئی کمیٹی ہو اور اس کے قائد کا نام صدر رکھ لیا جائے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف قرآن حکیم نے ان آیتوں میں اشارہ کیا ہے ۔ جہاں یہ بتایا ہے کہ خدا کے حضور میں جب جماعت باز پرس کے لئے طلب کی جائے گی تو ان کے قائد کو بھی بلا یا جائے گا جس کو کہیں امام سے اور کہیں شہید سے اور کہیں دوسرے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے لئے امام ، قائد کا ہونا قرآن حکیم کی نگاہ میں ایک حقیقت ثابتہ ہے“۔ ان تمام مسائل اور تصور جماعت و امارت کو قرآن کریم ،حدیث، فقہی تصریحات، اور تاریخی واقعات کی روشنی میں بے غبار کردیا۔
امیر و والی کی شرعی حیثیت، ولایت کی حقیقت، اوصاف امیر، قوت و امانت اور اعجازِ قرآنی کے متعلق پیارے اسلوب میں علمی نکتوں اور فکری پہلوؤں کا ذکر کردیا، مسئلہ امارت فی الہند کی اہمیت اور اسلامی و جماعتی زندگی میں اس کے مقام کے متعلق پوری رہنمائی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ملتی ہے، جب آپ مکہ میں مجبورانہ زندگی گزار رہے تھے، مسلمانوں کے لئے امیر کا انتخاب فرماتے تھے، یہ امیر بمعنی امیر المومنین نہیں تھے، انہیں قوت قاہرہ حاصل نہیں تھی، بلکہ دینی و شرعی امور میں مسلمان اپنے امیر کے ماتحت بقدر استطاعت شرعی زندگی گزارتے تھے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بیعت بھی لیا، ہندوستان میں آج امیر شریعت کی یہی شرعی حیثیت ہے، امید ہے اس کتاب کو پڑھنے والا امیر و امارت سے متعلق شرعی نقطۂ نظر اور اس کی ضرورت واہمیت سے واقف ہوجائے گا، انداز سادہ اور دل نشیں ہے،”مسلم قوم کی شخصیت اسلام کی نظر میں“ ”مگر کیا ؟“ اور "خطاب بہ علمائے کرام” کے تحت جو خلاصۂ گفتگو ہے، وہ بہت بلیغ و لطیف ہے، مولانا رحمانی نے آسان پیرایہ میں فکری و تحقیقی گفتگو کی ہے، تحقیقی ذوق رکھنے والے اس کو ضرور پڑھیں، علمی موضوع ہونے کے باوجود پڑھتے ہوئے ذہن نہیں اکتاتا ہے، کتاب کے شروع میں حضرت علامہ سید سلیمان ندوی کا وقیع مقدمہ ہے، جس میں آپ نے امارت کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا، ” اگرکسی ایک مرکز پر مسلمان مجتمع نہ ہوئے،تو یہ ہندوستان آگے چل کر بڑا راجپوتانہ ثابت ہوگا،جس کا تھوڑا سا مزہ وہ چکھ چکے ہیں، ضرورت ہے کہ حسبِ استطاعت ہم ایک علم کے نیچے جمع ہوں، تا کہ ہمارے جمعہ و جماعت، ہمارے اعیاد، رؤیت ہلال، صوم و افطار اور زکوۃ و خیرات، ائمہ و مؤذنین، مکاتب و مدارس، مساجد و مقابر، نکاح و طلاق، فسخ و تفریق، تبلیغ و ارشاد، اور دوسرے مذہبی صیغے اور شعبے کسی ایک انتظام میں آجائیں اور مسلمان افراد کی رکھوالی اور دیکھ بھال، غریبوں کی امداد، یتیموں کی کفالت، بے نواؤں کی مدد، نومسلموں کی حفاظت، گمراہوں کی ہدایت وغیرہ کے کام انتظام پاسکیں، اور ہماری مذہبی و قومی خیرات کی کوڑی کوڑی سنت سنیہ کے مطابق ایک بیت المال میں جمع ہوکر مستحقین میں خرچ ہوسکے، بالفعل ہماری شرعی امارت اسی تنظیم کا نام ہے “. چنانچہ امارت کا یہ شرعی نظام انہی مضبوط بنیادوں پر آج تک مستحکم چلا آرہا ہے، اس کتاب کی اشاعت اول 1940ء میں ہوئی، اور آخری مرتبہ 2015ء میں طبع ہوئی، آخری ایڈیشن کمپوز شدہ ہیں، جس کی ضخامت 149 صفحات میں ہے، اربابِ ذوق مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔