کانسٹی ٹیوشن کلب حملہ،مظلومین کے حق میں آواز دبانےکی کوشش
تحریر: سید سرفراز احمد
"مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑو اور گدی کی راہ ہموار کرلو”۔یہ وہ سیاسی نسخہ ہے جو ہر زوال پذیر سیاست داں کو عروج عطا کرسکتا ہے۔اگر یہ اس نسخہ سے رتی برابر بھی پیچھے ہٹ جائیں گے تو ان نکنمے سیاست دانوں کی سیاست چمکنے سے قاصر رہ جاۓ گی۔اس وقت بھاجپا اقتدار والی کوئی ریاست ایسی باقی نہیں رہی جہاں مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی نہ کی گئی ہو۔یا نہ کی جارہی ہو۔بلکہ ظلم و ذیادتی کے تمام حدود کو بھی پار کردیا گیا۔محض اسی لیئے کہ ان کی گدی پر کسی طرح کی آنچ نہ آۓ۔ان نفرتی پروانوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ حاصل کرنے اور اس طبقہ میں مقبولیت کا ڈنکا بجانے کی غرض سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔اس اکثریتی طبقہ کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہی ملک کا سب سے بڑا ترقی یافتہ کام ہے جو ہم کر رہے ہیں۔اسی لیئے نفرتی سیاست داں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے کام میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔
خود ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی مثال سامنے ہےکہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سے لے کر بھارت کے وزیر اعظم کی کرسی تک کا ان کا سیاسی سفر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔گجرات فسادات سے نریندر مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔اور وزیر اعظم کی کرسی کی راہ ہموار ہوگئی۔اب جتنے بھاجپائی سیاست داں ہے وہ مودی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔تاکہ مستقبل میں ان کا سیاسی سفر تابناک رہے۔آپ دیکھئے بھاجپائی اقتدار کی ریاستوں کے وزراۓ اعلیٰ یوگی،فڈنویس،ہیمنت بسوا سرما،پشکر سنگھ دھامی،وغیرہ وغیرہ۔یہ تمام اپنی اپنی ریاست میں مطلق العنان والی حکمرانی پر گامزن ہے۔
وہ اپنی ریاست میں صرف مسلمانوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔مدارس اسلامیہ پر بلڈوزر کاروائی،مسلم آشیانوں پر بلڈوزر کاروائی،زہریلے بیانات دینا یا پھر جھوٹے مقدمات کے ذریعہ جیلوں میں ٹھونسنا۔کیونکہ ان میں سے ہر کوئی مستقبل کے وزیراعظم کی کرسی پر قبضہ جمانے کی سوچ رکھتا ہے۔اور اسی سوچ کی وجہ سے وہ مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی کرتے ہوۓ سرخیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔اور اکثریتی طبقہ کو اپنی جانب پر کشش بنانے کی سیاست کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کا مقابلہ چل رہا ہے کہ جو جتنا مسلمانوں پر ظلم کرے گا۔اسی کو یہ کرسی مل سکتی ہے۔لیکن اکثریتی سماج اس نکمی سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
ان سب کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انڈیا ٹوڈے نے جمعرات کے دن ایک سی ووٹرس سروے کا انکشاف کرتے ہوئے عوام کی موجودہ سوچ کو بتایا کہ بھارت کی 17 فیصد عوام رام مندر کی تعمیر سے بھاجپا یا نریندر مودی کو پسند کرتی ہے۔12 فیصد عوام آپریشن سندور کی وجہ سے پسند کرتی ہے۔اور دس فیصد عوام مودی دور کی ترقی کو پسند کرتی ہے۔لیکن انڈیا ٹوڈے نے سی ووٹرس سروے کا انکشاف کرتے ہوۓ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ عوام جنوری سال 2023 میں نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم 72 فیصد عوام دیکھنا پسند کرتی تھی۔لیکن یہ تناسب گھٹ کر اگسٹ 2025 میں58 فیصد ہوگیا ہے۔ویسے یہ تناسب زمینی صورت حال سے بالکل مختلیف ہے۔
بھاجپا کی یہ بھی ایک سیاسی سازش ہے کہ جب بھی اس کی کشتی ڈگمگاتی ہے تو وہ اپنے گود کی میڈیا کو آگے کردیتی ہے۔لیکن اس میں دل چسپ اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ اس بڑھتے اور گھٹتے تناسب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رام مندر کی تعمیر کو کیسے نریندر مودی نے اپنی مقبولیت کا ڈنکا بجایا۔ابھی جو بھی تناسب باقی ہے وہ بھی آپریشن سندور کی وجہ سے ہے۔لیکن جو سہرا فوج کو ملنا چاہیئے انھیں نہیں مل رہا ہے۔یہ وہی سیاست ہے جو ہمارے وزیر اعظم ہر کام کو اپنے سر لینا چاہتے ہیں۔لیکن جمہوریت میں یہ سب عارضی ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت میں مقبولیت ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔تب ہی یہ لوگ جمیوریت کا گلا گھوٹنا چاہتے ہیں۔تاکہ یہ آزادنہ فیصلے کرسکیں۔لیکن زمینی صورت حال میں نریندر مودی کا قد بہت گھٹ چکا ہے۔جو انھیں زوال تک لاکر رہے گا۔
ویسے ہی ان سب میں اگر دیکھا جاۓ تو یوگی اور ہیمنت بسوا سرما ظلم کی انتہا میں سب سے آگے ہے۔جو قانون کی حکمرانی کو درکنار کرتے ہوۓ اپنے مطلق العنان فیصلوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہینمت بسوا سرما ایک دوسرے چہرے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔چونکہ جب وہ کانگریس کا حصہ تھے تب ان کا چہرہ الگ تھا اور آج بالکل الگ۔ان کی اسی شخصیت میں تبدیلی کی روشن دلیل یہی ہے کہ وہ آسام میں مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی کرتے ہوۓ مستقبل کے وزیر اعظم بننے کا خواب رکھتے ہیں۔اب یہ خواب پورا ہوگا یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن ان کی اسی سوچ نے ریاست کی ترقی کو بہت پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔پچھلے ماہ آسام کے گولا گھاٹ ضلع کے ایک جنگلاتی علاقے میں پندرہ سو ایکر علاقے سے ناجائز قبضوں کو برخواست کرنے کی مہم شدت سے چلائی گئی۔اس انخلاء مہم میں پندرہ سو مکانات کو بلڈوزر کاروائی سے منہدم کردیا گیا۔ان میں بیش تر وہ تھے جنھیں آسام حکومت بنگالی مسلمان مانتی ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ اس آبادی میں پردھان منتری آواز یوجنا اور گرامین کے تحت بناۓ گئے مکانات بھی شامل تھے۔انھیں مرکزی اسکیم جل جیون اسکیم کے تحت نل کے کنکشن بھی دیئے گئے تھے۔اور مزید دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں سرواسکشھاابھیان کے تحت سرکاری اسکولس،قومی براۓ صحت مشن کے مراکز بھی شامل تھے۔اس کے علاوہ چرچ مساجد بھی تھے۔یہ کاروائی محکمہ جنگلات کی نگرانی میں ہوئی اور اس سکیورٹی انتظامات کے لیئے سی آر پی ایف فوج کا استعمال کیا گیا۔
آسام کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ یہ جنگل کھیت ہمارا ہے۔حکومت اپنے جائز علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے مشن پر لگی ہوئی ہے۔اور کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے میں کوشاں ہیں کہ اس سے ہندوستانی شہریوں کو فائدہ پہنچے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بسوا شرما جو جنگل کی اراضی بھارتی شہریوں کو دینا چاہتے ہیں۔کیا جن کا انخلاء کیا جارہا ہے وہ بھارتی شہری نہیں ہے؟حقیقت یہ ہے کہ جن خاندانوں کا انخلاء کیا جارہا ہے ان تمام کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔بلکہ 1947 کے بھی دستاویزات موجود ہیں۔لیکن بسوا شرما یہ کھل کر نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس جگہ سے مسلمانوں کو بے دخل کرتے ہوۓ ہندوؤں کو بسانا چاہتے ہیں۔چونکہ یہ بسوا شرما کا ووٹ بینک ہے۔
جب یہ آبادی پوری طرح سے ناجائز طریقے سے قبضہ کرکے بنائی گئی تھی تو سرکار بسوا شرما کی ہے اور عہدیداران بسوا شرما کے پھر کیوں بسوا شرما نے یہاں مرکزی اسکیمات سے گھروں کی تعمیرات کرائی؟اور کیوں جل جیون اسکیم کے تحت نل کے کنکشن دیئے؟جب اس طرح کے سوالات اٹھاۓ جاتے ہیں تو یہ قانون کا غیر قانونی استعمال کرتے ہوۓ ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس طرح دی وائر کے بانی اور ایڈیٹر بلکہ ابھیسار شرما کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔یہ ہیمنت بسوا شرما کا ہی نہیں بلکہ ہر بھاجپائی کا یہی ہتھیار ہے کہ وہ جمہوری ملک میں دیانت دار صحافت کو اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔26 اگسٹ کو جب ایسو سی یشن فار پروٹیکشن آف سول رائیٹس (APCR)نے آسام میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن آف کلب میں ایک عوامی ٹریبونل اجلاس منعقد کیا۔
جس میں جسٹس اقبال انصاری سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ پٹنہ،جسٹس انجنا پرکاش سابق جسٹس ہائی کورٹ پٹنہ،گوپال کے پلائی سابق ہوم سکریٹری آف انڈیا،جواہر سرکار آئی اے ایس، سابق ایم پی راجیہ سبھا،وجاہت حبیب اللہ سابق چیف انفارمیشن کمیشنر،سیدہ حمید سابق چیر پرسن فار وومین کمیشن،ہرش مندر آئی اے ایس اکٹی ویٹس،پرشانت بھوشن سینئر وکیل سپریم کورٹ،پروفیسر اپوروا آنند،فواز شاہین ریسرچ اسکالر اے پی سی آر،اس اجلاس میں شریک تھے۔
ان تمام کے نام لینا یہاں اس لیئے ضروری ہے کیونکہ اس اہم اجلاس میں ہندو سینا اور کچھ زر خرید مسلمان جن کے سر پر ٹوپی موجود ہے۔ اس کانسٹی ٹیوشن کلب میں داخل ہوجاتے ہیں۔اور ہنگامہ آرائی کرتے ہیں۔اے پی سی آر کے ندیم خان کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ملک کے نامور و دانش واران کے اس اہم اجلاس میں گھس جاتے ہیں۔جب کہ ہمیں یہاں پولیس کی کوئی سیکیورٹی نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی کانسٹی ٹیوشن کلب کی کوئی سیکیورٹی موجود تھی۔ہنگامہ آرائی کرنے والوں نے ہمارے مہمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور ہاتھوں میں پلے کارڈس لے کر "دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو” کے نعرے بلند کیئے۔انھوں نے پولیس سے کاروائی کرنے اور ان غنڈہ گردی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرنے کی اپیل کی۔سوال یہ ہے ان غنڈوں کو کس نے بھیجا؟اور جب پولیس کو اس اہم اجلاس کی اطلاع تھی جس میں سابق ججس آئی اے ایس عہدیداران شریک ہونے والے تھے تو پولیس نے سیکیورٹی کیا جان بوجھ کر نہیں دی؟ملک کی راج دھانی اور ایک حساس مقام میں اس طرح کے حملے ہونا وزارت داخلہ کے لیئے کیا شرمندگی کا باعث نہیں ہے؟
آسام سرکار کا رویہ تو دیکھئے کے مسلمانوں کو جبراً غیر ملکی قرار دے کر گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔یہی نہیں بلکہ (ڈیٹنکشن کیمپ) حراستی مراکز میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔یہ کام ایک عرصہ سے ہورہا ہے لیکن کوئی اس سرکار سے جواب طلب نہیں کرتا ہے۔حتی کہ عدلیہ کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔
آسام سرکار ہینمت بسوا شرما کی قیادت میں یا تو وہاں کے مسلمانوں کو ملک سے باہر کا راستہ دکھانا چاہتی ہے یا پھر اذیت ناک سزائیں دے کر ان پر آسام کی زمین تنگ کرنا چاہتی ہے۔کئی ایک مبصرین کہہ رہے ہیں کہ آسام کے مسلمانوں جنھیں بنگلہ دیشی قرار دیا جارہا ہے ان کے پاس ہر طرح کے اہم دستاویزات موجود ہیں۔لیکن سرکار دستاویزات میں معمولی غلطیوں حتیٰ کہ ایک ہجے کی کمی والے کاغذات رکھنے والوں کو بھی غیر ملکی قرار دے کر جیلوں میں ڈالا جارہا ہے۔اگر اسی طرح پورے آسام کی عوام کے دستاویزات کو دیکھیں گے تو کیا آسام میں ایک فرد بھی باقی رہے گا؟
حکومت کی انسانیت تو دیکھئے ایک طرف غیر ملکی ہندوؤں کو شہریت دے کر ملک لانا چاہتی ہے اور جو ملکی ہیں انھیں باہر کا راستہ دکھانا چاہتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ آسام میں یہ سب مطلق العنان فیصلے ہورہے ہیں۔کوئی بھی کاروائی کورٹ کے ذریعہ نہیں ہورہی ہے۔سابق جسٹس اقبال انصاری نے کانسٹی ٹیوشن کلب کے اجلاس میں بڑا اچھا جملہ کہا ’’ہمیں شرم آنی چاہیے کہ آسام کا وزیر اعلیٰ آئین کے پرخچے اڑا رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔اگر آج ہم خاموش رہے تو کل یہ پورے ملک میں ہوگا۔‘‘
وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ وکاس اور وشواس جیتنے کی باتیں کرتے ہیں اور ان ہی کے وزیراعلیٰ اپنی ریاست آسام میں مسلمانوں کو کچلنے کا کام کررہے ہیں۔لیکن کیا کسی میں اتنی مجال نہیں کہ انھیں اس غیر انسانی حرکات سے روک سکیں؟اگر آج کوئی آسام میں چل رہی بھیانک مہم کو روکنے کی کوشش نہیں کرے گا تو اس بھیانک انجام کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں۔یہ اچھی بات ہے کہ انصاف پسند اکثریتی طبقہ آسام کے مسلمانوں کے لیئے انصاف کی لڑائی میں سامنے آرہا ہے۔لیکن مظلومین کے حق میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیئے کانسٹی ٹیوشن کلب میں حملہ کیا گیا۔شائد انھیں ڈر ہے کہ کہیں یہ لڑائی تحریک نہ بن جائیں۔کیونکہ ظالم کا ظلم دیکھتے دیکھتے وہاں وہاں سے آواز اٹھنا شروع ہوتی ہے۔جہاں سے ظالم کو امید بھی نہیں ہوتی۔یہ سب کمال وقت پر منحصر ہوتا ہے۔اور یہ وقت جلد آسکتا ہے۔ لیکن ظالم حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وقت جب زمین پر گراتا ہے تو پھر کبھی کھڑے ہونے نہیں دیتا۔