بہار الیکشن،عوامی مسائل،سیاسی پارٹیاں اور مسلمان

از:- سرفراز احمد قاسمی حیدرآباد

بہار،سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست ہے وہاں ایک بار پھر انتخابی بگل بج چکا ہے اور الیکشن کی گہما گہمی شروع ہوچکی ہے،اگلے مہینے دو مرحلے میں وہاں الیکشن ہونگے،پہلے مرحلے میں 6 نومبر کو اور دوسرے مرحلے میں 11 نومبر کو ووٹنگ ہوگی،14 نومبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیاں شدت اختیار کر گئی ہے،سیاسی جماعتوں کی اپنی اپنی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں اور ہر کوئی انتخابات میں کامیابی کے لئے حکمت عملی بنانے میں جٹ گیا ہے، گزشتہ دنوں اپوزیشن مہاگٹھ بندھن کی جانب سے ووٹر ادھیکار یاترا اور قائد اپوزیشن تجسوی یادو نے بہار ادھیکار یاترا نکالی تھی،دوسری طرف برسر اقتدار این ڈی اے اتحاد کی سرگرمیاں بھی بڑھ گئی ہیں،وزیراعظم نریندر مودی کے بہار کے دورے بھی بڑھ گئے ہیں،بہار کا دورہ کرتے ہوئے ہزاروں کروڑ روپے کے ترقیاتی پراجیکٹس کا سنگ بنیاد بھی انہوں نے رکھا،بہار کے لئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑ روپے کے پراجیکٹس کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن ان میں شاید ہی کوئی پراجیکٹ شروع کیا گیا ہو اور شاید ہی کوئی پراجیکٹ مکمل کیا گیا ہو،سابقہ پراجیکٹس اور سنگ بنیاد کے تعلق سے عوام میں تفصیلات پیش کرنے کے بجائے مزید پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے،مودی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز نہایت جارحانہ لب و لہجے میں کیا ہے،پورنیا ریلی میں انکا بیان کہ ‘بہار میں گھسنے والا ہرغیر قانونی تاریک وطن واپس جائے گا’محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک گہرے سیاسی بیانیے کی طرف اشارہ ہے،جس کے ذریعے وہ نہ صرف بی جے پی کا ووٹ بینک مستحکم کرنا چاہتے ہیں بلکہ انتخابی ماحول کو ایک خاص رخ دینا بھی ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے،بی جے پی قیادت کو بخوبی اندازہ ہے کہ بہار ایک آسان ریاست نہیں ہے،اگرچہ کہ 2014 اور 2019 میں لوک سبھا انتخابات میں زعفرانی پارٹی کو شاندار کامیابیاں حاصل ہوئی مگر ریاستی سطح پر پارٹی اب تک نتیش کمار جیسے اتحادیوں کی بیساکھی کے بغیر حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے،مودی کا حالیہ بیان ایک طرف عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف وہ ریاست میں اپنی جماعت کی تنظیمی کمزوریوں اور قیادت کے فقدان پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

بہار ایک پیچیدہ سماجی تانے بانے والی ریاست ہے،جہاں ذات پات کی سیاست آج بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے،بی جے پی کو آج بھی اعلی ذاتوں کی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے،جبکہ اکثریتی آبادی کا تعلق او بی سی،ایس سی اور اقلیتوں سے ہے،ایسے میں بی جے پی کی جانب سے صرف ہندوتوا یا قومی سلامتی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی پالیسی زمینی حقائق سے متصادم دکھائی دیتی ہے،اس کے علاوہ ریاست میں شہری آبادی محض 15 فیصد ہے جو بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک کی نمائندگی کرتی ہے،مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے بہار کے لئے اب تک کروڑہا روپے کے ترقیاتی پیکجز کا اعلان کیا ہے مگر ریاست کی حالت آج بھی وہی ہے،کوئی تبدیلی نہیں ہوئی،تعلیم،صحت،روزگار اور بنیادی ڈھانچے کے لحاظ سے بہار کا آج بھی ملک کی سب سے پسماندہ ریاستوں میں شمار ہوتا ہے،یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے ترقیاتی بیانیے کے پردے میں چھپانا اب آسان نہیں رہا،شاید اسی لیے اب بی جے پی نے ترقی کے بجائے سلامتی،قوم پرستی اور غیر قانونی تاریکین وطن جیسے جذباتی موضوعات کو انتخابی محور بنانے کا فیصلہ کیا ہے،تاہم اس بار عوام شاید صرف جذباتی نعروں پر بھروسہ نہ کریں،سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے رویے پر سوالات اٹھا کر یہ واضح کردیا ہے کہ جمہوری اداروں کی ساکھ اب داؤ پر لگی ہوئی ہے،ووٹر لسٹ سے لاکھوں ناموں کی منمانی منسوخی اور انتخابی شفافیت پر بڑھتے سوالات کیا بی جے پی کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں؟ کیا عوام کو اب محض حب الوطنی یا مخالفین پر الزامات سے مطمئن کرنا ممکن ہے؟ بہار کے سیاسی تناظر میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بی جے پی کے پاس مقامی سطح پر نتیش کمار جیسا کوئی متبادل لیڈر موجود نہیں، نتیش کی صحت،قیادت اور مقبولیت خواہ جتنی بھی کمزور ہو چکی ہو لیکن بی جے پی اب بھی ان کے بغیر اپنی سیاسی گاڑی کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی،یہ اس جماعت کی کمزوری ہے،جسے مودی کے ذاتی کرشمہ سے ڈھانپنے کی کوشش کی جارہی ہے،سوال یہ بھی ہے کہ مودی کی مقبولیت اور غیر قانونی تاریکین وطن کا بیانیہ کیا واقعی بہار کے عوام کو درپیش اصل مسائل بے روزگاری،مہنگائی،تعلیم،صحت اور تحفظ سے توجہ ہٹا پائے گا،اگر بی جے پی صرف قوم پرستی کی لہر پر سوار ہو کر بہار کو فتح کرنا چاہتی ہے تو اسے اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ باشعور عوام اب صرف نعرے نہیں،نتائج مانگتی ہے،بہار کے عوام نے ہمیشہ سیاسی بیداری کا مظاہرہ کیا ہے اور اس بار بھی شاید وہ ترقی اور شفافیت کو ووٹ دیں نہ کہ خوف اور تقسیم کو،یہ انتخاب مودی کے لئے محض ایک ریاستی انتخاب نہیں بلکہ ایک بار پھر اپنی قیادت کی قبولیت کو ثابت کرنے کی بڑی آزمائش ہے،وقت ہی بتائے گا کہ بہار کا ووٹر قوم پرستی کے نعروں پر لبیک کہتا ہے یا وہ سوال کرتا ہے کہ دو لاکھ کروڑ کے وعدے آخر زمین پر کب اور کہاں اترے؟

یہ بھی دیکھیں: آر ایس ایس سو سالہ جشن

بہار انتخابات کی گہما گہمی کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ وہاں عوام کو درپیش مسائل پر مباحث نہیں ہو رہے ہیں،عوامی مسائل کی یکسوئی کے منصوبے اور پروگرامس نہیں بنائے جا رہے ہیں،بلکہ اس بات پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے کہ کس نے کس کو گالی دی، کس نے کس کو نیچا دکھایا، کس نے کس کی بےعزتی کی، اور کس نے کس کو نشانہ بنایا،سیاسی قائدین عوام کے مسائل کو پیش کرنے کے بجائے ذاتی مسائل کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،بہار کا شمار ملک کی پسماندہ ترین ریاستوں میں ہوتا ہے، بی جے پی ہر اسمبلی انتخاب کے وقت ڈبل انجن سرکار کا نعرہ دیتی ہے،بہار میں 20 سال سے ڈبل انجن سرکار ہے اور بہار نے گزشتہ 20 سال میں دوہرے رفتار سے ترقی کرنے کے بجائے دوہری رفتار سے مزید پسماندگی کا دور دیکھ لیا ہے، 20 سالہ طویل عرصے کی حکمرانی کا جواب دینے کے بجائے آر جے ڈی دور کے جنگل راج کے حوالے دیتے ہوئے ووٹ مانگنے کی کوشش کی جاتی ہے، بی جے پی بہار کی صورتحال کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتی اور اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے لئے،ایسے مسائل کو ہوا دئے جارہے ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے،بنیادی اور سلگتے ہوئے مسائل پر توجہ کرنے کے بجائے غیر ضروری ریمارکس پر سیاست کی جارہی ہے،بہار کی ترقی کا حساب کتاب پیش کرنے کے بجائے دو دہے پرانے آر جی ڈی اقتدار کو نشانہ بنانے پر محنت کی جاتی ہے۔عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ 20 سال میں بہار کی جی ڈی پی میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ عوام کو یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ 20 سال کے نتیش کمار کے اقتدار میں بہار میں فی کس آمدنی کتنی بڑھی ہے؟ یہ بھی نہیں بتایا جا رہا ہے کہ ترقی کے معاملے میں بہار نے کتنی ریاستوں کو پیچھے چھوڑا ہے؟ بہار میں سرکاری دواخانوں اور سرکاری ملازمتوں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ بہار میں کتنے کالجس اور کتنی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں،اس کا بھی کوئی حساب، کتاب عوام میں پیش نہیں کیا جارہا ہے؟ اب جبکہ الیکشن کا وقت آن پہنچا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر عوام کی تائید حاصل کرنے سرگرم ہو گئی ہے تو عوام کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ 20 سال میں نتیش کمار حکومت نے عوام کےلئے کیا کیا ہے؟ کتنی ترقی دلائی ہے؟ اور عوام سے کئے گئے کتنے وعدوں کو بی جے پی اور جے ڈی یو نے پورا کیا ہے؟ محض جذباتی مسائل اور شخصی تنقیدوں کو عوام میں پیش کرتے ہوئے تائید حاصل کرنے کی کوششوں کو مسترد کیا جانا چاہیے اور پوری سیاسی سمجھ بوجھ اور فراست کے ساتھ اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو پس پشت ڈالنے والی سیاسی طاقتوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔

بہار میں نتیش کمار کے زیر قیادت این ڈی اے حکومت اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اور آر جی ڈی لیڈر تجسوی یادو کے زیر قیادت عظیم اتحاد اقتدار کو چھیننے کے لیے جدوجہد کریں گے۔جہاں تک دیگر سیاسی جماعتوں کا سوال ہے وہ اپنے اپنے طور پر یقینی طور پر رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی اور زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی،عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی جائے گی،ایسے وعدے کیے جائیں گے جنہیں انتخابات کے تقریبا پانچ سال تک فراموش کردیا جائے گا،وقتی طور پر کچھ لالچ دے دئیے جائیں گے اور اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوششیں ہوں گی،اصل مقصد و منشا محض اقتدار حاصل کرنا ہوگا،عوام کی بہتری اور فلاح نہیں ہوگی،محدود وقت میں سیاسی جماعتوں کے حربے اور ہتھکنڈے بہت زیادہ ہو جائیں گے، عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں تیز ہو جائیں گی کئی گوشے اس کام کے لیے سرگرم ہو جائیں گے،عوام کو مذہبی جذبات میں الجھا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں ہوں گی،ذات پات کے مسائل کو ہوا دی جائے گی،ہندو مسلم تو پہلے ہی سے شروع کردیا گیا ہے،ایسے میں بہار کے عوام کو اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی،مذہبی اور ذات پات کے جذبات کو ابھارنے والوں کو مسترد کرنا ہوگا،عوام کو یہ بات ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ اگلے پانچ سال میں بہار کی صورت بدلنے کا جذبہ حقیقی معنوں میں کس کے پاس ہے،نتیش کمار کی زیر قیادت حکومت گزشتہ دو دہوں سے بہار میں کام کر رہی ہے،عوام کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ نتیش کمار نے دو دہاؤں میں بہار اور وہاں عوام کے حالات بدلنے کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ کچھ کیا بھی ہے یا نہیں؟ جہاں تک بات ہے بی جے پی کی تو وہ مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعے اقتدار پر قبضہ یا پھر اقتدار میں حصہ داری چاہتی ہے،شاید اسی وجہ سے نتیش کمار ہوں یا مودی گزشتہ ایک ڈیڑھ مہینے میں بہار کے عوام سے بے تحاشہ وعدے کیے ہیں،انہیں سبز باغ دکھانے کی پوری کوشش کی گئی ہے،انہیں چند ہزار روپے کی مدد فراہم کرتے ہوئے ووٹ خریدنے کی کوشش بھی کی گئی ہے،بہار کے عوام کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چند ہزار کی مدد سے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے،وقتی طور پر کچھ راحت فراہم کرنے سے بہار ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوگا،نوجوانوں کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے اور انہیں روزگار سے جوڑنا ہے تو انہیں تبدیلی کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے،مذہبی جذبات کا شکار ہونے کی بجائے ریاست اور عوام کے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوام کو کوئی فیصلہ کرنا ہوگا،عوام کو ہی بہار کی صورتحال کو بہتر بنانے اور اس میں تبدیلی لانے کے لئے ووٹ دینا چاہیے تاکہ بہار پسماندگی اور غریبی کے دلدل سے نکل کر ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

بہار کی سیاست علاقائی اعتبار سے سب سے الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے بہار کے عوام کی سیاسی سمجھ بوجھ بھی اہمیت کی حامل ہے اور خاص طور پر ذات پات کو بہار میں اہمیت دی جاتی ہے،اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں ذات پات کے توازن کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں آر جے ڈی کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار خواتین کی بھلائی اور دوسرے ترقیاتی اقدامات کا نعرہ دیتے ہوئے اس ذات پات کے حصار کو توڑنے کی کوشش کررہی ہے،ایسے میں ذات پات کی سیاست کی جو بساط ہے وہ کس حد تک کمزور ہوتی ہے،لوگ کس حد تک ترقیاتی نعروں کو پسند کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں،اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا،بہار کی سیاست گنجلک اور پیچیدہ ہوتی ہے اور اسی لئے قبل از وقت عوام کے موڈ کو سمجھنے میں سیاسی جماعتوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ روزگار اور ترقی کا نعرہ نوجوانوں میں مقبول ہونے لگا ہے،نوجوان چاہتے ہیں کہ ذات پات کی سیاست سے بالاتر ہوتے ہوئے ان کی ترقی اور ان کے بہتر مستقبل کی بات کی جائے فرقہ پرستی اور نزاعی مسائل کو پس پشت ڈالنے کے لیے آر جی ڈی اور کانگرس کی جانب سے جو مہم شروع کی گئی ہے،نوجوان اس سے متفق ہونے لگے ہیں، جیسے جیسے انتخابات کے لئے وقت قریب آتا جارہا ہے،ریاست کی سیاست میں سرگرمی بڑھتی جارہی ہے، کئی جماعتیں اپنے اپنے منصوبوں کے ساتھ عوام سے رجوع ہونے لگی ہیں کوئی خود کامیابی حاصل کرنے سرگرم ہے تو کوئی کسی کو شکست سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے،موجودہ صورتحال میں جہاں این ڈی اے اتحاد کو کئی طرح کے اندیشے لاحق ہیں،بہار اسمبلی انتخابات میں سیدھا مقابلہ این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے درمیان ہوگا تاہم تازہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ این ڈی اے کو معمولی برتری حاصل ہے،انتخابات میں مسلم ووٹر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں،الیکشن سے قبل سیاسی پارٹیاں ہوم ورک کرنے میں جٹ گئی ہیں این ڈی اے اور گرینڈ الائنس دونوں اتحاد میں سیٹوں کے بٹوارے پر بات چیت جاری ہے لیکن ابھی تک بات نہیں بن پائی ہے ادھر ایک حالیہ سروے نے انتخابی ماحول کو دلچسپ پہ بنادیا ہے،سروے کے مطابق انتخابات میں این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے بیچ سخت مقابلہ ہوگا،سروے کے نتائج کے مطابق این ڈی اے کو معمولی برتری حاصل ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ برتری فیصلہ کن نہیں ہے،اس کا مطلب ہے کہ مقابلہ کانٹے کا ہوگا خاص طور پر مسلم ووٹروں نے اس بار گرینڈ الائنس کی ٹینشن میں اضافہ کردیا ہے، بہار کی سیاست میں مسلم ووٹروں کا اہم کردار رہا ہے،ریاست میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 18 فیصد ہے،2020 کے انتخابات میں گرینڈ الائنس کو مسلمانوں کے تقریبا 75 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ مجلس کو تقریبا 17 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے یہ یہ تقسیم کئی سیٹوں پر مہا گٹھبندھن کے لئے مہنگی ثابت ہوئی،تجسوی یادو کی پارٹی نے مجلس کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا ہے،2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم ووٹروں نے خود کو مجلس سے دور کرلیا تھا اور گرینڈ الائنس کی تائید کی تھی، عظیم اتحاد کو 83 فیصد ووٹ ملے تھے تاہم 2025 کے اسمبلی انتخابات میں ان کا عدم اطمینان صاف نظر آرہا ہے، سروے کے مطابق اس بار مسلم ووٹر محتاط ہیں وہ فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں کہ گرینڈ الائنس کو اپنی مکمل حمایت دیں یا دیگر آپشنز پر غور کریں،سروے کے مطابق مسلمانوں کی عدم اطمینانی کی ایک بڑی وجہ سیاسی نمائندگی کی کمی ہے،راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی حالیہ ووٹر ادھیکار یاترا میں مسلم لیڈروں کے لئے مناسب جگہ نہ ہونے سے عدم اطمینانی کو تقویت ملی ہے،مسلمانوں کا ایک گوشہ ٹکٹوں کی تقسیم اور نائب وزیر اعلی کے عہدے کی مانگ کررہا ہے،پرشانت کشور بھی اس بار انتخابی میدان میں ہے وہ مسلم کمیونٹی کو زیادہ نمائندگی دینے کی بات کررہے ہیں، تاہم سروے بتاتے ہیں کہ مسلم رائی دہندگان پرشانت کشور کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ پرشانت کشور کی قیادت والی جن سوراج پارٹی کسی بھی اتحاد کے امکانات کو متاثر کرنے کے لیے بھی سرگرم ہو گئی ہے،حالانکہ جن سوراج کا دعوی ہے کہ وہ اقتدار کے لئے مقابلہ کررہی ہے تاہم بہار جیسی ریاست میں جہاں کی سیاست بہت پیچیدہ کہی جاتی ہے پہلی ہی بار میں جن سورج کو اقتدار ملنا تقریبا ناممکن کہا جا سکتا ہے، پرشانت کشور کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ انھوں نے اس سے پہلے ملک کی جتنی سیکولر پارٹیوں کے لئے کمپین کیا،اس پارٹی کے بڑے اور مسلم لیڈران کی تمام سیکولر پارٹیوں سے نمائندگی ختم کرادی،اب جبکہ وہ انتخابی میدان میں ہیں مسلمانوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو انکی آبادی کے حساب سے اپنی پارٹی میں سیٹ دیں گے،ظاہر ہے اسطرح کا نعرہ گمراہ کن ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بہار کی عوام کو ہر سال صرف جھوٹے وعدے ہی ملتے ہیں،ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوتے اور نہ ہی بہار میں اچھے دن آتے ہیں،اس لئے ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ آخر ہمارا بہترمستقبل کس میں ہے؟ کون ہم کو آگے لے جاسکتا ہے؟ اور کس کے اندر قوم کی خدمت کا سچا جذبہ موجود ہے؟میڈیا میں چل رہی خبر کے مطابق حزب اختلاف کے گرینڈ الائنس نے سیٹوں کی تقسیم کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی ہے اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو تین نائب وزیر اعلیٰ کی تقرری ہوگی،راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس کے سینئر لیڈروں نے کہا کہ اگر گرینڈ الائنس اقتدار میں آتا ہے تو دلت، مسلم اور انتہائی پسماندہ طبقے (او بی سی) برادریوں سے ایک ایک نائب وزیر اعلیٰ کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔گرینڈ الائنس کے غیر سرکاری چیف منسٹر کے چہرے کو آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، جو پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سے قبل دو بار نائب وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔تاہم ان کے اتحادیوں نے ابھی تک ان کے نام کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔ تیجسوی کا مقابلہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ہوگا،جن کے پاس اس وقت دو نائب وزیر اعلیٰ ہیں سمراٹ چودھری (او بی سی) اور وجے کمار سنہا (بھومیہار)۔آر جے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے کہا کہ سیٹوں کی تقسیم کے فارمولے کو تقریباً حتمی شکل دے دی گئی ہے۔آر جے ڈی تقریباً 125 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی،جو 2020 میں اس نے لڑی 143 سیٹوں سے 19 کم ہیں۔ کانگریس کو 50-55 سیٹیں ملیں گی اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو تقریباً 25 سیٹیں ملیں گی۔بقیہ سیٹیں دیگر حلیفوں جیسے وکاس شیل انصاف پارٹی (VIP)،لوک جن شکتی پارٹی ،(پشوپتی کمار پارس ) اور جھارکنڈ مکتی مورچہ میں تقسیم ہوں گی۔ تیواری نے کہا، "یہ فارمولہ یہ واضح کرتا ہے کہ تیجسوی یادو اتحاد کا غیر متنازعہ وزیر اعلیٰ کا چہرہ ہیں۔ یہ تیجسوی کا ماسٹر اسٹروک ہے کہ آر جے ڈی کی شبیہ کو یادو مرکوز سیاست سے بدل کر دلتوں، او بی سی اور اقلیتوں کو اقتدار میں حصہ داری دی جائے۔” کانگریس لیڈر پروین سنگھ کشواہا نے کہا کہ تین نائب وزیر اعلیٰ کی تجویز راہل گاندھی کی سماجی انصاف کی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔انہوں نے اسے تمام برادریوں کو اکٹھا کرتے ہوئے سماجی انصاف کے بیانیے کو آگے بڑھانے کی ایک بہتر کوشش قرار دیا۔ دریں اثنا، وی آئی پی کے ترجمان دیو جیوتی نے کہا کہ تیجسوی کو جمعرات کی شام تک اتحاد کا وزیر اعلیٰ امیدوار قرار دیا جائے گا، جس میں مکیش سہنی ان کے نائب وزیر اعلیٰ میں سے ایک ہوں گے۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسوقت بہار میں کئی فیکٹر کام کر رہے ہیں،ایک تو پرشانت کشور ہیں وہ بی جے پی یا دیگر پارٹیوں کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں،دوسرا تجیسوی وہ ٹکٹ کی تقسیم میں کہاں تک انصاف کرتے ہیں،تیسرا کانگریس وہ کتنی سیٹ نکال پاتی ہے، کیونکہ کانگریس لڑتی تو ہے مگر سیٹ نکال‌ نہیں‌ پاتی،یا تو وہ کم سیٹوں پر لڑے اور تجیسوی کو طاقت دے یا پھر وہ اپنی سیٹ نکالے،ورنہ بھاجپا نے تمام مخالفتوں اور آندولنوں کے باوجود اپنا کام کرلیا ہے، پھر شاید رزلٹ آنے کے بعد اپوزیشن ہمیشہ کی طرح بے بس ہوگا۔رہی بات مجلس کی تو اس کا حال انڈیا اتحاد کو معلوم ہے اگر وہ جیتی تو اتحاد کے ساتھ ہی ہوگی اگرچہ اتحاد الیکشن‌ کے‌ دوران مجلس کو کوئی اہمیت نہ دے۔ان حالات میں بحیثیت مسلمان آپ کی ذمہ داری کیا ہے،آپ کا ووٹ نہ برباد ہو نہ بکھرے متحد ہوکر اپنے ووٹ کا استعمال کیجئے،اسکے لئے اپنے گھر میں اپنے،محلے میں،اپنے اپنے علاقے میں فضاء بنائیے،ذہن سازی کیجئے،منتھن کیجئے اورپھر اپنے ووٹ کا درست استعمال کیجئے کیونکہ ابھی آپ کے پاس وقت ہے کل شاید یہ سوچنے کےلئے آپ کے پاس وقت نہ ہو اور نہ ووٹنگ کا اختیار ہو کیونکہ تقریبا 70 لاکھ ناموں کو ووٹرلسٹ سے حذف کیا جاچکا ہے اور اسکی کوئی وجہ نہیں بتائی جارہی ہے۔

*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔