Slide
Slide
Slide

کانچ کے ڈھیر پر منجمد احساس

از قلم:شاہد عادل قاسمی، ارریہ،

سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر رینگتی اورتیز دوڑتی میری زندگی آج چالیسویں بہار کوپار کرچکی ہے،فرحتوں،وحشتوں اور اذیتوں کے سفینہ کو جلاکر ہم نے اپنی بڑی اولادکو دسویں کے امتحان کا مجاز بنادیا ہے، ننھے منھے قلقاریوں سے میرے آنگن کے پھول میرے اردگرد اٹھکھیلیاں لے رہے ہیں مگر ٹھیک تین دشک قبل سن شعور سے پہلے ایک دن اشک آلود آنکھوں سےمیرے وجود کو اپنے وجود میں مکمل سمیٹ چکا تھا،شہر شہر بوند بوند آنسو بن گیا تھا،خواب اور سپنا ہی نہیں بلکہ چراغ زندگی بھی بجھ چکے تھے،سورج ضرور طلوع ہواتھا مگر اندھیاروں کی حکومت تھی،صبح ضرور وقت پر نمودار ہوتی تھی مگر اس کی مفید کرنوں کی توانائیاں مفقود تھیں،صبح کی کمزور صباحت شام کی بے جان ملاحت میں ضرور مدغم ہوتی تھیں مگر تاریک رات کی ڈراؤنی تصویر نہایت بھیانک لگتی تھی،گھپ اندھیرا سے اپنائیت اجنبیت جیسی ہی نہیں لگتی تھی بلکہ دور دور تک انسانوں کا ہرا بھرا شہر ویراں صحرا اور بیابان جنگل دکھتا تھا،تنہائی کی وحشتیں کاٹ کھانے کو دوڑتی تھیں، مسکراتے چہروں پر بھی غموں کا قبضہ تھا،سینکڑوں آشنائی چہروں پر بندشیں تھیں،ہولناکیوں سے قلب ودل جھلس چکے تھے،نغمگی فضائیں سنسنی خیز بن چکی تھیں،حضرت انساں کے ساتھ ساتھ درخت کے پتے بھی زرداور بے جان  ہوچکے تھے،ندی کی موجیں بھی تھم سی گئیں تھیں،انسان ہی نہیں بلکہ انسانیت آج خون خون ہوچکی تھی،شہر کا پربہار تمدن یتیم ہوچکاتھا،آشنا شکل منھ موڑ چکے تھے،معتمد آنکھیں پلٹ گئیں تھیں،صاف شفاف دل نفرتوں کا آماج گاہ بن چکا تھا،جدھر دیکھیں جسے دیکھیں آنکھوں سے دھوکہ ہی دھوکہ جھلکتا تھا،اجلا ڈریش اور سفید پوشاک بھی کالی فضاء میں مندمل ہوچکا تھا،کس کی خیریت طلب کرے اور کس کی تیمار داری کرے فیصلہ مشکل ہوچکا تھا،کس سے ہمدردی کرے اور کسے غم گسار کرے والے کش مکش میں دل محبوس تھا،ہمہ وقت نیا احساس اور نئ فکر سے انسان دوچار تھا،وقت بدلتا رہا،دن کی سپیدی اور رات کی تاریکی سینہ چیر کر مسافت طے کرتی رہی،محبت کے چراغ بھی جلتے رہے،نفرت کی آندھیاں بھی پیر پسارتی رہیں،درداور کرب سے وجود لڑتا،جھوجھتا اورتڑپتا رہا،خوشی اور مسرت سے نئ دنیا بھی بستی رہی،سیاسی اتھل پتھل بھی ہوتا رہا،فلک نما عمارتوں کی تعمیر بھی ہوتی رہی تو کئ محلات کھنڈرات میں  تبدیل بھی ہوتے رہے،کئ تاریخی سمادھیوں پر رنگ وروغن چڑھے تو کئ اپنے وجود کو بچا بھی نہ سکے۔

آہ میری زندگی کا وہ ٹھنڈ دن جو عالم جمہور کو آتش فشاں بنادیا تھا، ہر آنکھ میں غم وغصہ کا سیلاب تھا،ہردل پر خنجر اور ہر جسم پر تیر کا نشان تھا،ایک تاریخی اور مقدس یادگار کے سر پر ناپاک اور شرپسندوں کا قدم جم چکا تھا،ایک تقدس پر جوتا،چپل اور جمہوریت شکن ہجوم کا قبضہ تھا،کس بے دردی اور کس ہولناکی سے کروڑوں سینوں کو چھلنی کیا گیا تھا آج بھی اس منظر کے یاد پر آنکھیں چھلک پڑتی ہیں،دل خون کے آنسو روتا ہے،بے بسی اور لاچاری کی وہ کرن آج بھی یوں ہی جواں ہے،مگر بے آواز لاٹھی کی مار بھی نہایت سبق آموز اور عبرت ناک ہوتی ہے،اُس ظلم  وزیادتی کے سربراہ آج کس ڈگر پر ہیں ہردل اور دماغ کا چہرہ بخوبی دیکھ رہا ہے، وقت کے سورماؤں کو خالق کائنات نے کب اور کس طرح ٹھکانے لگایا ہے صاحب بصیرت سمجھتے ہیں،آج زعفرانی کلر سے نقلی بھگواداریوں نے جو سماج تعمیر کیا ہے حیات رہی تو اس کے نتیجے کا بھی درشن  ہوگا،ہم اپنے فروعی مسائل سے نکلیں،ہم اپنے بے حسی،تعطل اور جمود کی آبادی سے نکلیں،ہم ایک متحدہ اور مشترکہ فکری محور پر جمیں اور صحیح ادراک پر لوٹ آئیں توہم اپنی گزشتہ تاریخ کو دہرا سکتے ہیں۔

۲۲/جنوری ۲۰۲۴کا دن بڑا دن ہوگا،کھویا یوا وقار اور مریادا نصب ہونے والادن ہوگا،دیا،جے کاروں اوربلند نعروں والادن ہوگا ایسا شور آج زوروں پر ہے،ایسی تیاریاں آج شباب پر ہیں،ایسا ماحول آج خوب سے خوب تر ہے مگر تاریخ عدالت عظمی کا وہ فیصلہ بھی سنہری حروف سے لکھے گی کہ”اس میں مورتیوں کا رکھنااوراسے شہید کرنا دونوں غلط تھے ،کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی "۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ افتتاحی تقریب کی امارت وامامت کے لیے جس طاقت سے مخاطب ہے اس کا اثر کتنا پڑسکتا ہے ہمیں اندازہ ہے مگر "شنکر آچاریہ” کی جیسی جرآت اگر کوئ دیگر کرنے کی جسارت کرلے تو "بلڈوزنگ” ہو یا نہ ہو” یو ،پی ‘اے” تو طے تھا، بھاری اکثریت سے فتح یاب مٹی”مدھیہ پردیش” کے” رتلام "سے "جگت گرو شنکر آچاریہ سوامی پشچلانند” کی بات بڑی گہری اور ذلت آمیز ہے،رسوائی کی دیوار چننے میں کسی طرح کی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے،ملک کی عظیم شخصیت کو پس ماندہ سماج کا کہنا،ملک کی بڑی طاقت سے مورتی چھونے پر ناراضگی کا اظہار کرنا، یہیں تک نہیں بلکہ آگے ایک بڑی تنظیم کے سربراہ کو کم علم  اور مسجد کو انصاف کے تقاضے سے شہید کرنا غلط جیسا کہنا یقینا خدائ ہمت اور جرات ہے۔

بڑی طاقتیں رام للا کے” پران پرتشٹھاپروگرام” دھرتی کی حدت اور خنک کو جہاں جذب کرنے کا اعلان کررہی ہے وہیں آسمان پر شول بھی بونے کی مکمل تیاری بتارہی ہے،خدشات اور احتیاطی پہلوؤں پر لمبی لمبی ہری اور گلابی تحریریں بھی خوب نظر آرہی ہیں،آج کے اس کش مکش دور میں چہرے اور چرتر تو مختلف ہیں ہی اس لیے اتنی سی ہی خواہش  ہے کہ  یہ دن بھی سکون سے گزر جائے اور ملک کی سالمیت برقرار رہ جاۓ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: