۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ملی تنظیموں کے ترجمان!

کون اس شہر میں سنتا ہے فغان درویش

از قلم: مسعود جاوید

کم و بیش پچھلے دس سالوں سے لکھ رہا ہوں اور سابق سکریٹری جنرل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ محمد ولی رحمانی صاحب مرحوم سے ملاقات کے دوران درخواست بھی کر چکا ہوں کہ ملی تنظیمیں اپنے اپنے ایسے اہل ترجمان کی تقرری کریں جو حالات حاضرہ سے اچھی واقفیت اور مختلف موضوعات پر ڈیجیٹل مناظرہ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

لیکن افسوس اب تک ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کا نتیجہ ہے کہ ٹی چینل کے ڈیبیٹ (ڈیجیٹل مناظرہ) میں مسلمانوں کی طرف سے ایسے لوگ حصہ لیتے ہیں جو گرچہ وضع قطع سے اور ٹی وی اینکر کی جانب سے دیئے گئے القاب سے مولوی مولانا دھرم گرو اور اسلامی اسکالر تو ہوتے ہیں لیکن نفس موضوع کی گیرائی اور گہرائی سے کوسوں دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلم ناظرین بھی یہی تاثر لیتے ہیں کہ مسلمانوں کا موقف کمزور ہے۔ ایسا ہی کچھ بابری مسجد ، تین طلاق ، یکساں سول کوڈ اور اب جامع مسجد محلہ گیان واپی کی بحث میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ان مسائل پر سیر حاصل بحث کرنے کے لئے مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب بہت مناسب ترجمان ہو سکتے ہیں لیکن افسوس ان کی خدمات لینے کے لئے شاید کوئی تنظیم تیار نہیں ہے ۔
معلوم ہو کہ مولانا نعمانی صاحب مذاہب کے تقابلی مطالعہ بالخصوص اسلام اور ہندوازم پر اچھی دسترس رکھتے ہیں اور ان موضوعات پر ان کی تصںیف و تالیف کردہ متعدد مستند کتابیں بھی ہیں۔

دنیا بھر میں میڈیا کو مخاطب کرنے کے لئے مقرر کردہ اشخاص و شعبے ہوتے ہیں ۔ ویسے تو ہر شعبے کے لئے مختص شخص کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ شعبہ بہت حساس ہے اور اس کے لئے نہ صرف اختصاص بلکہ حاضر جوابی اور مشتعل ہوئے بغیر مسکت جواب دینے والے اشخاص کی ضرورت ہوتی ہے ۔
افسوس ہماری ملی تنظیموں کو اس کا احساس نہیں ہے یا میڈیا ذرائع ابلاغ ان کے لئے قابل اعتناء نہیں ہے !
ویسے
"ہر بار ہم ہی ہیں ہدف سنگ ملامت
الزام کسی اور کے سر کیوں نہیں جاتے”


کے تناظر میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ

ہمارے سابق جج صاحبان ، فاضل وکلاء قانون دان حضرات اور پروفیسر صاحبان جو اس میدان میں يد طولى رکھتے ہیں وہ کم از کم ایسے مواقع پر سامنے کیوں نہیں آتے !

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: