✍ صفدرامام قادری
________________
حکومتِ ہند کی جانب سے پیش کر دہ تمام اعزازات جو یومِ جمہوریہ اور کبھی کبھی کسی دوسرے مواقع سے قوم کے نام وَر افراد کو دیے جاتے ہیں؛ اُن پر شروع کے زمانے سے ہی اعتراضات اور تنازعات بھی قائم ہوتے رہے ہیں۔ پدم شری، پدم بھوشن، بدم وی بھوشن اور بھارت رتن جیسے اعزازات پر کبھی کھُلی زبان میں اور اکثر دَبی زبان میں معترضانہ گفتگو ہوتی رہی ہیں۔ دو طرح کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ پہلا کہ حکومتِ وقت نے اپنے لوگوں کو نوازنے کی کوشش کی۔ دوسرا اعتراض اِس سے بھی سنگین ہوتا ہے کہ بہت سارے نا اہلوں کو ایسے ایوارڈس دیے گئے جب کہ اُن کے مقابلے میں زیادہ اہل افراد سماج میں موجود تھے۔ بہت سارے اعزازات کے بارے میں اِس طرح کی باتیں بھی سننے کو ملیں کہ کسی کو وقت سے پہلے ایسے اعزازات دے دیے گئے اور کسی کو اتنا لمبا انتظار کرنا پڑا کہ وہ موت کے قریب پہنچ گیا۔ کبھی کبھی تو ایسے لوگوں کو بھی ایوارڈ مل جاتا ہے جن کے بارے میں اکثر لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اُنھوں نے زندگی اور سماج میں کون سے کارِ ہاے نمایاں انجام دیے ہیں۔
اب سے دو ہفتہ پہلے بہار کے سابق وزیرِ اعلا کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کا اعلان ہوا تھا۔ یہ انعام اُن کی وفات کے ۳۵؍ برسوں کے بعد دیا جا رہا ہے۔ اِن برسوں میں کرپوری ٹھاکر کا نہ کوئی نیا کام سامنے آ سکتاتھا اور نہ ہی اُن کی خدمات کی کوئی نئی شِق پیدا ہو سکتی تھی۔ نریندر مودی اور اَٹل بہاری واجپئی کے ادوار کو جوڑ لیا جائے تو آدھی مدّت تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی حکومت تھی مگر پتا نہیں کیوں اِس سے پہلے کرپوری ٹھاکر کی عظیم خدمات کا اعتراف کیوں نہیں کیا گیا؟ جیتے جی تو کانگریس کو یا بھارتیہ جنتا پارٹی یا کوئی اور سیاسی جماعت، بھلا اُس گودڑی کے لعل کی قدر و قیمت کا اندازہ کیوں کر ہو سکتا تھا۔ دو بار وزیرِ اعلا اور ایک بار نائب وزیرِ اعلا اور بھی حزبِ اختلاف کے قائد کی حیثیت سے ایک طویل مدّت تک اُن کی خدمات رہیں۔
قومی تحریک کے ایسے فرزندان جنھوں نے سیاست اور سیاسی منصب کو عوامی خدمت کا ذریعہ سمجھا تھا اور تمام تر پاک دامنی کے ساتھ اپنے کام کو کرکے رختِ سفر باندھنے میں کامیاب ہوئے، اُن میں خطۂ بہار سے کرپوری ٹھاکر ایک مثالی رہ نما کے طور پر سامنے آتے ہیں۔اُن کو بھارت رتن موت کے ۳۵؍ برس بعد بھی دیا جانا ’جب جاگے تب ہی سویرا‘ کے مصداق نا درست نہیں کہا جا سکتا مگر سیاسی حلقوں میں ایسے سوالات اُٹھنے لگے ہیں کہ بہار کی حکومت کو توڑنے اور نئی حکومت کی تشکیل کے درمیان کرپوری ٹھاکر کو نوازنے کا فیصلہ در اصل ایک موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ اِس فیصلے کے بہانے نیتش کمار وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تعریف کریں اور شکریہ ادا کریں تاکہ عوامی سطح پر بند مکالمے کی گانٹھ ڈھیلی ہو اور پھر وفا داریوں کی ادلا بدلی کے لیے نئی بساط بچھائی جائے۔سیاسی مبصّرین کا یہ کہنا بجا ہے کہ اِس مقصد کے لیے بھارت رتن کے اعزازات کی بَلی چڑھانا ٹھیک نہیں ہے۔
دو ہفتوں کے بعد پھر تین افراد کو بھارت رتن دیے جانے کا اعلان ہوا۔ سابق وزیرِ اعظم نرسمہا راؤ، سابق نائب وزیرِ اعظم چودھری چرن سنگھ اور ممتاز سائنس داں ڈاکٹر ایم۔ایس۔ سوامی ناتھن کو بھارت رتن دیے جانے کا اعلان ہوا۔ اِس بیچ سابق نائب وزیرِ اعظم لال کرشن اڈوانی کے لیے بھی بھارت رتن کے اعلانات ہو گئے تھے۔ اِدھر چودھری چرن سنگھ کے نام کا اعلان ہوا، دوسری طرف اُن کے پوتے جینت چودھری نے اِس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ این ڈی اے کا حصّہ ہیں اور سیاسی طور پر اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخاب میں اُن کی پارٹی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ سر گرم رہے گی۔ سیاسی مشاہدین کا کہنا ہے کہ اتر پردیش اور ہریانہ میں سیاسی حلقہ بندی میں چودھری چرن سنگھ کی وراست کے واضح مطالب ہیں اور اُن کی خدمات کا بھارت رتن ایوارڈ کے ذریعہ اعتراف آیندہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے موقعے سے متاثر کُن نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔
لال کرشن اڈوانی کی بزرگی واضح ہے مگر وہ اب بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہ نما کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اُنھیں یہ اعزاز دے کر حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اُسے اپنے سر گرم سیاسی قائدین کوبھی اُنھیں نوازنے سے بھی کوئی گریز نہیں ہے۔سوامی ناتھن کو شاید اِس لیے بھی چنا گیاہے کیوں کہ صرف سیاست دانوں کو ایوارڈ دیے جانے کی تہمت لگتی۔ بھارت رتن کے ایوارڈس میں پہلے دن سے سیاسی دخل اور اندرونی یا ظاہری کھیل تماشے شامل رہے۔ ابتدائی دَور میں اِس بات کی آسانی تھی کہ ہندستان کی قومی تحریک کے تپے تپائے سیاسی قائدین بر سرِ اقتدار تھے اور جسے لوک لاج کہتے ہیں، اُن میں شامل تھا۔ اِس لیے سیاست دانوں میں بھی اُنھیں چنا جاتا تھا جو عام طور پر سب حلقے کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے۲۰۱۵ء میں مدن موہن مالویے، اَٹل بہاری واجپئی اور۲۰۱۹ء میں نانا جی دیش مکھ کو بھارت رتن ایوارڈ دے کر یہ اعلان کر دیا تھا کہ ملک کی بدلتی ہوئی سیاست کے اثرات اِن انعامات پر بھی پڑیں گے۔ اِس بار پی وی نرسمہا راؤ کو بھارت رتن کے لیے منتخب کرنے کے پیچھے بھی وہ سبب موجود ہے کہ اُن کی مدد کے بغیر بھارتیہ جنتا پارٹی کسی بھی قیمت پر پہلی بار اَٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت نہیں بنائی ہوتی۔ بابری مسجد کی شہادت کی تاریخ بھی لوگوں کو یاد ہوگی جس موقعے سے نرسمہا راؤ کی سستی اور کہیں نہ کہیں پردے کے پیچھے سے فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے میں اُن کی خدمات رہی ہیں۔ اُنھیں بھارت رتن دے کر شاید اِن احسانات کا بدلہ دینے کی کوشش کی گئی ہو۔
پدم انعامات اور بھارت رتن کے اعزازات کی ساکھ سیاسی دانو پیچ میں اب متذلذل ہے۔ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں بل کہ دوسرے شعبہ ہاے افراد کو بھی سیاسی اسباب سے ہی ایسے ایوارڈس دیے جا رہے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں جب سچن تیندولکر کو بھارت رتن دیا گیا تو لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر میجر دھیان چند کی عظیم خدمات کا اعتراف کرنے میں کون سی جھجک حکومت کے پیشِ نظر ہے۔ کرکٹ کے میدان میں ہی سچن تیندولکر کے ساتھ کپل دیو، مہیندر سنگھ دھونی اور سنیل گواسکر کے لیے بھی اِسی معیار کے اعزازات کی توقع کی جاتی ہے۔ کچھ موسیقاروں کو بھَلے بھارت رتن کے اعزازات مِلے اور اچھّا ہوا کہ بسم اللہ خاں، لتا منگیش کر اور بھوپین ہزاری کاکو اُن کی زندگی میں ہی اِس طرح یاد کر لیا گیا مگر اب جو اصول بنتے جا رہے ہیں، اُن میں کسی حق دار کو اور خاص طور پر سیاست سے دُور رہنے والے افراد کو تو ایسی توقیر کی اُمیّد ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اُن لوگوں کے بارے میں تو یہ سوچا ہی نہیں جائے جن کا مزاج حکومت سے ٹکرانے اور اختلاف کرنے کا رہا ہے۔ اُنھیں اِس بات کے بارے میںتو سوچنا ہی نہیں ہے کہ اُنھیں کوئی ایسا اعزاز میسّر آئے گا جو اُن کی حکومت کی طرف سے اُن کی گوں نا گوں خدمات کے اعتراف میں دیا جائے گا۔
دشواری یہ ہے کہ حکومت کی سطح پر ایسے انعامات اور اعزازت کے لیے شفّاف اُصول و ضوابط نہیں ہیں۔ مختلف صوبائی حکومتوں، طرح طرح کی تنظیموں اور بڑے اداروں کی طرف سے جو سفارشات ہوتی ہیں، اُن کے معیارات متعیّن نہیں اور شبہات کی جھِل ملی چڑھی رہتی ہے۔ حکومت کے محکموں کے افسران اِن اعزازات کی چھان بین اور اسکروٹنی کرتے ہیں، وہاں اِن گَڑ بڑیوں میں مزید اِضافہ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر سفارشی اشخاص کہاں کھو گئے یہ پتا چلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وزیرِ اعظم، وزیرِ داخلہ اور اِسی طرح کے با اثر افراد کی پسند کے لوگ اور اُن تک سفارشات پہنچانے والے افراد اِس مشق کا پھَل پانے کے حق دار ہوتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی لوگوں کا سیلاب آیا ہوا رہے تو کِسے انکار ہو سکتاہے۔ کچھ برسوں سے ادیبوں اور شاعروں کی گِنتی ہر سطح پر گھَٹتی جا رہی ہے۔ موسیقاروں کا ایک طبقہ غیر سیاسی ہوتا ہے، اِس لیے اُن کے ناموں کے بارے میں تو لوگ غور کر لیتے ہیں مگر اکثر ادیب اور دانش وَر اپنے سیاسی اور سماجی اعتقادات کا کھُلے طور پر اظہار کرتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ وہ بار بار حکومت کے اُصولوں سے ٹکرائیں گے اور نتیجے کے طور پر معتوب قرار دیے جائیں گے۔ اب اِنھیں بھارت رتن کون دے گا، پدم شری تک پر آفت آ جاتی ہے۔ ساہتیہ اکادمی کے دروازے پر دستکیں دیتے دیتے شکست خوردگی کے عالَم میں موت کو گلے لگا لینے کے لیے وہ مجبور ہوتے ہیں۔ خدا کرے اِن اعزازات کی پیش کش میں شفّافیت اور پروفیش نلیزم آئے اور کھُلے طور پر یہ فیصلہ ہو کہ سر گرم سیاست میں رہنے والے افراد کو اِس فہرست سے بہ ہر طور باہر رکھّا جائے۔ ورنہ یہ اعزازات صاحبِ اعزاز اور حکومت دونوں کے لیے کلنک کا ٹیکا ثابت ہوں گے۔