از: سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور ،راجستھان، انڈیا
___________
ہندو مذہبی روایات کے مطابق سوریہ سپتمی کے دن سورج دیوتا کی پرستش کی جاتی ہے اس کی پرستش کا ایک خاص طریقہ سوریہ نمسکار ہے-
راجستھان میں نئی صوبائی حکومت وجود پزیر ہونے کے بعد سے کئی متنازع احکام صادر کئے گئے ہیں ان میں سے سوریہ نمسکار کو تمام طلبہ اور اساتذہ کے لئے لازمی قرار دینا بھی ہے
رقبے کے اعتبار سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ راجستھان اپنی مذہبی رواداری کے لئے معروف رہا ہے قدیم راجپوتانہ کی جےپور ریاست کا راج گھرانہ ہو یا جودھپور کا مسلمانوں کے لئے ان کی وسیع القلبی معروف رہی ہے تاریخی اعتبار سے بھی راجستھان کے راجپوت راجاوں کا مسلمانوں سے خاص تعلق رہا ہے مغلوں کے فوجی قائدین میں آمیر (موجودہ جےپور) کے راجہ مان سنگھ کا نام بہت مشہور ہے جب نیا جےپور تعمیر کیا گیا تو راجہ نے اس کی ذمہ داری بھی اپنے بھروسے مند سردار مرزا اسماعیل کے سپرد کی جن کے نام سے جےپور کی سب سے معروف سڑک ایم آئی روڈ(مرزا اسماعیل روڈ) آج بھی موجود ہے
جےپور ایک قلعہ بند شہر ہے شہر پناہ کے اندر جن ہنرمند قوموں کو جگہ دی گئی تھی اس میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے گولہ اندازان، چابک سواران، خراطیان، ندافان، بسایطیان، پنی گران، مہاوتان ، سلاوٹان یہ تمام محلے آج بھی پرکوٹے کے اندر مسلمانوں کی پہچان ہیں ۔
1947میں جب کہ میوات اور ہریانہ میں مسلمانوں کو اجاڑا جارہاتھا۔ جےپور ریاست فرقہ وارانہ کشیدگی سے محفوظ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دو بھاجپائی وزیر اعلی بھیرو سنگھ شیخاوت اور وسندھرا راجے کے وقت میں بھی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی ہمت نہیں ہوئی۔
مگر اس بار صوبائی انتخابات میں فتح کے بعد وزراء اور سرکار کے جو تیور ہیں وہ تشویش ناک بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی
انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی ایک ممبر اسمبلی کا جس نے ابھی حلف بھی نہیں لیا تھا مسلم محلوں میں پہونچ کر گوشت کی دکانوں کو بزور بند کروانے کی کوشش کرنا، اس کے بعد پشتینی گوشت فروشوں کے لئے بھی لائسنس لازمی کردیا جانا کھلے میں گوشت یا گوشت سے بنی خوردنی اشیاء فروخت پر پابندی لگانے کی بات کرنا ،سڑک کنارے ٹھیلوں پر گوشت سے بنی اشیاء خوردونوش اور انڈے جیسی چیزیں بیچنے کے لئےبھی لائسنس کی بات کرنا اور لائسنس بنانا عملا ایک ناممکن طویل عمل بنادیا جانا سب اسی کے مظاہر ہیں ۔
ایک مسلم اکثریتی علاقے کے سرکاری گرلس اسکول میں مسلم طالبات سے ایک ممبر اسمبلی کے ذریعہ جے شری رام اور سرسوتی ماں کے جےکارے لگوانا اور پھر حجاب میں آنے والی بچیوں کو ایم ایل اے کے ذریعے حجاب میں نہ آنے کا حکم دیا جانا اور اس کام کے لئے پرنسپل کو پابند کرنا۔
یہ سب کسی بڑی تبدیلی کا مظہر ضرورمعلوم ہورہا ہے، مسلم سرکاری ملازمین کو نماز جمعہ کے لئے ایک گھنٹے کی رخصت کا بیسیوں برس قبل سے چلا آرہا حکم منسوخ کرنے کی بات ایک وزیر کے ذریعے کیجارہی ہے۔
مسلم اقلیت کے سامنے اس وقت ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگئ جب محکمہء تعلیم کے وزیر کی جانب سے سوریہ سپتمی کے دن سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے تمام طلبہ اور اساتذہ کے لئے سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دے دیا گیا اس حکم کی تعمیل نہ کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کے خلاف تادیبی کاروائی کی بات بھی کہی گئی ہے ۔
ہندو مذہبی روایات کے مطابق سوریہ سپتمی کے دن سورج دیوتا کی پرستش کیجاتی ہے اس عبادت کا خاص طریقہ سوریہ نمسکار ہے جو یوگا کے آسنوں (مختلف ہیئتوں )میں سے ایک ہے۔
15فروری کو صبح اسکول پرئیر کا آغاز سوریہ نمسکار سے کرنے اور اس کی تفصیلات مع تصاویر اعلی افسران کو ارسال کرنے کے احکامات سرکار کی طرف سے دئے گئے ہیں اس پورے عمل کی نگرانی کے لئے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے آبزرور متعین کئے گئے ہیں اس عمل میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے اس کے لئے محکمہءپولس نے خصوصی احکام جاری کئے ہیں۔
یہ سب اہتمام کیا روٹین کا عمل ہے یا کسی خصوصی ایجنڈے کے نفاذ کا آغاز یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ان تمام غیر معمولی احکامات اور سختی سے ان کے نفاذ کی کوششوں سے راجستھان کا مسلمان تشویش میں مبتلا ضرور ہوا ہے
راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا 12فیصد بتایا جاتا ہے کئ بڑے شہروں اور علاقوں میں ان کا تناسب 40۔ فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر سرکاری ملازمتوں میں یہ تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے ۔
خوش آئند پہلو یہ ہےکہ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان پچھلے کچھ سالوں میں کافی بڑھا ہے اور تعلیم نسواں میں بھی کافی اضافہ دیکھا جارہا ہے مگر اس اضافے پر سرکار کے ان احکامات کا منفی اثر پڑنا لازمی ہے۔
مسلم طلبہ کو دیجانے والی اکثر پریمیٹرک اسکالر شپس مرکزی اور صوبائی سرکاروں کی طرف سے موقوف کردی گئیں ہیں
سرکاری اسکولوں میں اردو زبان کی تدریس کے لئے معلمین کی متعین سیٹس بھی مختلف بہانوں سے کم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
مگر ان سب کے باوجود مسلمانوں کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے وہ ہمت حوصلے اور دانشمندی کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔
راجستھان میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملی معاملات میں تمام جماعتیں ایک ساتھ رہتی ہیں، راجستھان مسلم فورم کے نام سے تمام جماعتوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم کئ برسوں سے متحرک ہے جو اس طرح کے معاملات میں آگے بڑھ کر ملت کی رہنمائی کرتا ہے یہاں جماعت اسلامی ہند آل انڈیا ملی کونسل جمیعۃ العلماء ہند اور دیگر جماعتیں جماعتی پہچان کے بغیر مشترکہ پلیٹ فارم سے ملی معاملات میں ایکٹو ہوجاتی ہیں
اللہ اس اتحاد کو سلامت رکھے۔
سوریہ نمسکار کے حکمنامے کے خلاف راجستھان مسلم فورم کی جانب سے رٹ داخل کی گئ ہے اس پر 12۔ اور 14فروری کو سماعت بھی ہوئی مگر فاضل جج نے بغیر کوئی مضبوط بنیاد بتائے مسلم فورم کی درخواست کو خارج کردیا ہے اسی سلسلے میں کاشف زبیری کی ایک اور رٹ زیر سماعت ہے فیصلہ آنا ابھی باقی ہے ۔
ممکن ہے یہ فیصلہ 15 فروری کے سوریہ نمسکار پروگرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا ہو ۔
خیال رہے اس سے قبل بھی 2020میں یوگا کے سرکاری حکم کے خلاف مسلم فورم نے عدالت کی پناہ لی تھی جس میں سرکار نے عدالت کی ڈبل بینچ کے سامنے یوگا کے اختیاری کردئے جانے کی وضاحت دی تھی یہ وضاحت بھی عدالت کے سامنے پیش کی گئی۔
جو بھی ہو ہندوستان کے روایتی طور سے اس پرامن صوبے میں مسلمانوں کے خلاف ہورہی یہ حرکتیں اس صوبے کی تہذیبی روایات کے انہدام کی تیاری ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ عوام حکومت کے اس اقدام کو سراہ رہی ہو رام مندر افتتاح کے بعد بنائے گئے اس ہیجان انگیز مذہبی ماحول میں بھی کئی انصاف پسند غیر مسلم اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ہیں اور ببانگ دہل ان کی مخالفت کررہے ہیں ان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں کے ساتھ ساتھ پرامن بقائے باہمی کی حامی شخصیات بھی ہیں ۔
ان تمام حالات کے باوجود صوبے کے مسلمان حتمی فیصلہ کئے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے عقیدے اور تہذیب کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اسی وجہ سے 15فروری کے دن مسلم طلبہ کی بڑی اکثریت نے مسلم تنظیموں کی اپیل پر اسکول کا بایکاٹ کیا۔