۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

جعلی پیروں اور شعبدے بازوں سے نجات پانے کی ضرورت ہے

ازقلم: عبدالغفارصدیقی

___________

جعلی پیروں اور شعبدے بازوں سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔ جنات پر قابو رکھنے والے مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو تباہ کیوں نہیں کردیتے؟


انسان مزاجاً آرام پسند واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ یا چمتکار ہوجائے اور اس کے بگڑے کام بن جائیں۔مریض جادو کی پڑیا سے شفایابی چاہتا ہے،مقدمہ میں ماخوذ شخص دعا کے ذریعہ اپنے حق میں فیصلہ کا خواہش مند ہے چاہے وہ ناحق پر ہی ہو،غریب کسی تعویذ کے ذریعہ مال دار ہونے کے عزائم پالتا ہے،بے اولادکسی مزار پر چادر چڑھا کر صاحب اولاد ہونا چاہتا ہے،بیوی شوہر پر،بہو ساس پر کسی لال پیلے دھاگے سے قابو کرنا چاہتی ہے۔برصغیر کے تقریبا ً ہر پچاس کلومیٹر کے علاقہ میں ایک شعبدے باز بیٹھا ہے جو لوگوں کا الو بنا رہا ہے اور لوگ بن رہے ہیں،جگہ جگہ جن بھوت بھگانے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں جہاں لوگوں کی عقلوں پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔ان بے وقوف بننے والوں میں اکثریت ان پڑھ اور غریب لوگوں کی ہے،لیکن بعض ماہر شعبدہ بازوں کے جال میں تعلیم یافتہ اور مال دار لوگ بھی پھنس جاتے ہیں۔یوں تو یہ کام تمام مذاہب کے ماننے والوں میں ہورہا ہے لیکن مسلمانوں میں کچھ زیادہ ہی ہے۔اسی کے ساتھ کچھ لوگ ولایت،غوثیت اور قطبیت کے لباس میں لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں،کوئی بھارت میں رہ کر اپنی نماز کعبہ میں پڑھ رہاہے،کوئی دوسروں کی تکالیف شرعیہ اپنے ذمہ لے رہا ہے،کوئی خدا سے کلام کرنے کا مدعی ہے تو مرنے کے بعد بھی خدائی فیصلوں پر اثر انداز ہورہا ہے۔
کتنے ہی آشارام جیل بھیج دیے گئے۔کتنے ہی جعلی پیروں کی پول کھل گئی،اس کے باوجود ان کے دروازوں پر ایک جم غفیر ہے جوان سے امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔میں غیروں کی بات نہیں کرتا صرف مسلمانوں کے بارے میں عرض کرتا ہوں کہ ان پیروں،تعویذ دینے والوں اور سجادہ نشینوں کی اکثریت جاہل اور بے دین ہے۔جہالت کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنانام بھی نہیں لکھ سکتے اور بے دینی کی انتہا یہ ہے کہ انھیں سورہ فاتحہ بھی یاد نہیں ہے اور سو فیصد لوگ بے نمازی ہیں۔نماز جیسی اہم عبادت کا انکار تک کرتے ہیں،سوشل میڈیا پر ڈانس اور بھانگڑا کرتے ہوئے بھی کچھ اہل اللہ نظر آتے ہیں،اس کے باوجود اچھے خاصے بھلے باشعور لوگ ان کے ہاتھ چومتے ہیں اور ان پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ”حضرت ان کی دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی بنادیں گے۔“مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے اس یقین پر کہ میرے پیر مردوں کا زندہ کردیتے ہیں،اپنے حقیقی بیٹے کو ذبح کردیا تھا۔جب اس نے اپنے پیر سے کہا اسے زندہ کیجیے تو پیر صاحب وہاں سے بہانہ بنا کر فرار ہوگئے۔اخبارات میں آئے دن ایسے تانترکوں کے واقعات آتے رہتے ہیں جس میں ان کے کہنے پر لوگ معصوموں کی جان لیتے ہیں۔
تعجب اس بات پر ہے کہ یہ حضرات اپنی صفائی میں بہت سی جھوٹی احادیث اور فرضی واقعات پیش کرتے ہیں۔لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم قرآن کی آیات اور دعاؤں سے ہی تو یہ کام کرتے ہیں تو غلط کیسے ہوسکتا ہے؟اور بھولے بھالے لوگ ان کو سچا جان لیتے ہیں۔اسلام میں تنترمنتر،جھاڑ،پھونک،گنڈے تعویذ،کالے پیلے دھاگے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔کسی قسم کی مزار پرستی اور قبر پر چادر پوشی کی اجازت نہیں ہے۔اسلام میں مردہ تو دور کوئی زندہ شخص بھی خدائی فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔یہاں اللہ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہے،یہاں اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہ سر جھکایا جاسکتا ہے اور دست دعا دراز کیا جاسکتا ہے۔نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ”سن لو! تُم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء علیہ السلام اور اپنے صالح (نیک) لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا کرتے تھے۔ خبردار! تُم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔“ (صحیح مسلم)اس واضح تعلیم کے باوجود مسلمانوں کے تقریباً ہر بڑے قبرستان میں ایک مزار ہے جس پر گل پوشی،چادر پوشی کے ساتھ ساتھ سجدے بھی ہوتے ہیں۔جسے لوگ سجدہ تعظیمی کہہ کر دل کوجھوٹی تسلی دیتے ہیں۔افسوس اس بات پر ہے کہ جو دین بت پرستی کے خلاف تھا اسی دین میں قبر پرستی رائج ہوگئی بلکہ دین کا حصہ سمجھی جانے لگی اور بعض لوگوں کے یہاں عین دین بن گئی۔
کچھ لوگوں نے ولی،غوث،قطب،ابدال کے مناصب وضع کرلیے اور ایک دوسرے کو عطاکردیے۔جب کہ اللہ نے اس کی کوئی سند نہیں اتاری۔ہم سمجھتے تھے کہ یہ مناصب صرف اعلیٰ حضرت احمد رضابریلوی ؒ کے یہاں پائے جاتے ہیں،لیکن اس وقت حیرت سے آنکھیں پھٹی رہ گئیں جب دارالعلوم دیوبند کی سائٹ پر درج ذیل فتویٰ(Fatwa:375-49/D=4/1439) نظر آیاجو ایک سائل کے جواب میں دیا گیا ہے۔
”حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے ”التکشف“ میں مسند احمد کی ایک روایت نقل فرمائی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
شریح بن عبید سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے روبرو اہل شام کا ذکر آیا کسی نے کہا اے امیرالمومنین ان پر لعنت کیجیے، فرمایا نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے کہ ابدال (جو ایک قسم ہے اولیاء اللہ کی) شام میں رہتے ہیں اوروہ چالیس آدمی ہوتے ہیں جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا شخص بدل دیتا ہے ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان کی برکت سے اعداء (دشمنوں) پر غلبہ ہوتا ہے اور ان کی برکت سے اہل شام سے عذاب (دنیوی) ہٹ جاتا ہے۔ (رواہ احمد)آگے حضرت تھانوی علیہ الرحمن فرماتے ہیں کہ صوفیا کے ملفوظات ومکتوبات سے اقطاب، اوتاد، غوث کے الفاظ اور ان کے مدلولات کے صفات، برکات وتصرفات پائے جاتے ہیں اوپر ذکر کردہ حدیث سے جب ایک قسم کا اثبات ہے تو دوسرے اقسام بھی مستبعد نہ رہے، برکات تو اس حدیث میں مذکور ہیں اور تصرفات تکوینیہ قرآن مجید میں حضرت خضر علیہ السلام کے قصہ سے ثابت ہوتے ہیں۔دنیا میں از قبیل اصلاح معاش اور انتظام امور جو تغیرات ہوتے ہیں انھیں کو تکوین کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اولیاء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم ان حضرات کی جن سے مخلوق کے ارشاد ہدایت واصلاح قلب، تربیت نفوس اور اللہ تعالیٰ کے قرب وقبول کے طریقوں کی تعلیم سپرد ہوتی ہے وہ اہل ارشاد کہلاتے ہیں، ان میں سے جو اپنے زمانہ میں افضل واکمل ہو اور اس کا فیض اتم واعم ہو وہ قطب الارشاد کہلاتا ہے۔دوسری قسم ان ولیوں کی ہے جن سے متعلق اصلاح معاش وانتظام امور دنیویہ اور دفع بلیات ہے کہ اپنی ہمت باطنی سے باذن الٰہی ان امور کی درستی کرتے ہیں ان کے اختیار میں خود کچھ نہیں ہوتا، یہ حضرات اہل تکوین کہلاتے ہیں اور ان میں سے جو سب سے اعلی اور اقوی اور دوسروں پر حاکم ہوتا ہے اسے قطب التکوین کہتے ہیں، ان کی حالت مثل حضرات ملائکہ علیہم السلام کے ہوتی ہے جن کو مدبرات امر فرمایا گیا ہے۔قطب، ابدال، غوث وغیرہ اولیاء کی قسمیں ہوتی ہیں جسے اولیاء اللہ ہی جانتے پہنچانتے ہیں، اور یہ انھیں کی اصطلاح ہے، عام لوگوں کو ان اسرار کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔جس بات کا ہرانسان مکلف ہے یعنی رضائے الٰہی کے حاصل کرنے کے طریقے کو جاننا سیکھنا اسی کی کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند“
اس فتوے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں کچھ لوگ کائنات میں تصرف رکھتے ہیں،کچھ اہل ارشاد ہیں اور کچھ اہل تکوین،کچھ خضر ؑ کی طرح ہیں اور کچھ مثل ملائکہ،ایک ولی ہی ولی کو پہچان سکتا ہے۔اہل شام میں ان کی تعداد ہمیشہ چالیس رہتی ہے۔تعجب ہے کہ اتنے بڑی تعداد میں قطب،غوث،ابدال و اوتاد کے موجود ہوئے شام میں ظلم ہورہا ہے۔امریکہ نے اس کے 25فیصد حصے پر قبضہ کررکھا ہے۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ ان ہستیوں کی موجودگی میں عالم اسلام تباہ ہورہا ہے۔گزشتہ کئی سو سال سے مسلمان غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں،بھارت میں ان کی مسجدیں گرائی جارہی ہیں،ان کا قتل عام کیا جارہا ہے،ان پر سی اے اے اور یونیفارم سول کوڈ کی تلوار لٹک رہی ہے اور یہ سارے قطب و ابدال تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ تمام تعویذ دینے والے خاموش بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں،کوئی پھونک مسلمانوں کے دشمنوں پر بھی ماردیجیے،کوئی بدعا اسرائیل کو بھی دے دیجیے جس نے بیت المقدس پر قبضہ کررکھا ہے یا آپ کے بھی سارے تنتر منتر غریبوں پر ہی کام کرتے ہیں۔
میں نے بھی قرآن و احادیث کا معمولی علم حاصل کیا ہے اور صحابہ کرام ؓ  کی زندگیوں کو پڑھا ہے۔مجھے کہیں بھی اس طرح کی تعلیم نظر نہیں آئی،نہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کو قطب اور غوث کے خطابات و القاب مرحمت فرمائے،حالانکہ آپ نے کسی کو صدیق،کسی کو فاروق،کسی کو مدینۃ العلم،کسی کو سیف اللہ کا خطاب دیا۔کیا وجہ ہے کہ آپ ؐ نے اپنے کسی صحابی کے متعلق نہیں فرمایا کہ ان کے سپرد ”مدبرات امر“ہیں نہ یہ فرمایا کہ کیرے فلاں فلاں صحابی کے ذمہ اصلاح معاش وانتظام امور دنیویہ اور دفع بلیات کا شعبہ ہے،کیا بعد کے لوگ صحابہ اکرم ؓ سے بھی زیادہ نیک و متقی ہوئے ہیں؟آپ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ ”قطب، ابدال، غوث وغیرہ اولیاء کی قسمیں ہوتی ہیں جسے اولیاء اللہ ہی جانتے پہنچانتے ہیں، اور یہ انھیں کی اصطلاح ہے، عام لوگوں کو ان اسرار کے درپے نہیں ہونا چاہیے“تو پھر عام لوگوں کو بتا کیوں رہے ہیں۔اللہ اور اس کے رسول ؐ کی کوئی تعلیم یا ہدایت خواص کے لیے نہ تھی تو ان ولیوں کے پاس یہ تعلیم کہاں سے آئی کہ اس کے بارے میں عام لوگوں کو درپے نہیں ہونا چاہئے،اور حضرت تھانوی ؒ کو کیسے معلوم ہوا؟
آج مسلمان جن پریشانیوں میں مبتلا ء ہیں اس کی بہت سی وجوہات ہیں،ان میں ایک بڑی وجہ عقیدہ توحید کا مشتبہ ہونا ہے۔ان کا اللہ پر ایمان اس طرح نہیں ہے جس طرح کا مطالبہ اسلام کرتا ہے۔مسلمان زبان سے بھلے ہی ”اللہ اکبر اور اللہ ہو“ کی صدالگاتا ہے،لیکن وہ اللہ کو ایک لال دھاگے یا کالے تعویذ میں بیچ دیتا ہے۔اس نے ایک خدا کو چھوڑ کر ان گنت مشکل کشا اور حاجت روابنالیے ہیں،اللہ کو معبود مانتے ہوئے سینکڑوں خداؤں کی غلامی کرنے لگا ہے۔مزاروں پر اگربتیاں،قبروں پر چادریں،عرس و قوالی کی مجلسیں،بڑے پیر کی نیازیں،الائچی دانے کا تبرک،ہاتھ میں کالا دھاگا،گلے میں تعویذ،بازوؤں پر بازو بند اس غلامی کی علامات ہیں۔توحید میں شرک کی آمیزش نے ان کو خدا کی حمایت سے محروم کردیا ہے۔ کاش مسلمان ایک اللہ پر یقین رکھتے،ڈھونگی باباؤں اور جعلی پیروں کو لات ماردیتے،ایسی تمام دکانوں کو آگ لگادیتے جہاں جن بھوت اور آسیب کے نام پر انسانوں کا بے وقوف بنایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرمادیتا۔تعویذ،دھاگے،قطب و ابدال سب ڈھونگ ہے،یہ سب خرافات ہے، یہ سب پیٹ کی آگ بجھانے کا وسیلہ ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے بقول۔
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
جتنے ہیں روپ سب یہ دکھاتی ہیں روٹیاں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: