Slide
Slide
Slide

2/مارچ کو ہونے والا اجلاس: امارت شرعیہ کا جرأت مندانہ فیصلہ

از: مفتی عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

______________

امارت شرعیہ جن اعلی مقاصد کے پیش نظر سو برس قبل قائم ہو ئی تھی،تب سے آج تک وہ اپنےمنصوبوں پر مضبوطی سے نہ صرف قائم ہے؛ بلکہ الگ الگ رخ میں اس کا دائرہ عمل دن بہ دن پھیلتابھی جارہا ہے، امارت شرعیہ نے گذرے سو سال سے مسلم معاشرے کو نظام شرعی سے جوڑنے اوران میں دینی وملی حمیت پیدا کرنے میں بے مثال خدمت کی ہے ، عائلی قوانین سمیت بلا اختلاف مسلک ومشرب، کلمہ واحدہ کی بنیاد پر ایک امیر کے تحت انہیں اجتماعی زندگی گذارنے کی دعوت دی ۔امارت شرعیہ نے ملک کی سالمیت ،بین مذاہب امن و بھائی چارہ کے فروغ اور تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح وآشتی اور حقوق کے احترام کا عملاً درس دےکرہمدردی کی راہ میں حائل دشواریوں کو بھی ہمیشہ مل جل کر حل کرنے کا راستہ دکھایا۔ امارت شرعیہ کے مقاصد میں لکھا ہے کہ ”امارت شرعیہ مسلمانوں کے حقوق ، شریعت کے احکام اور اسلام کے وقار کو پوری طرح قائم اور محفوظ رکھتے ہوئے مقاصد شرع اسلام کی تکمیل کی خاطر اسلامی تعلیم کی روشنی میں ہندستان میں بسنے والے تمام مذہبی فرقوں کے ساتھ صلح وآشتی کا برتاو کرنا ضروری سمجھتی ہے، ملک میں امن پسند قوتوں کو فروغ دینا اور تعلیم اسلامی لاضرر ولاضرار فی الاسلام کی روشنی میں ملک کے مختلف مذہبی فرقوں میں ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا اور ہر ایسے طریق کارو تحریک کی ہمت شکنی کرناذمہ داری سمجھتی ہےجس کا مقصد ہندستان میں بسنے والے مختلف طبقات میں سے کسی ایک کی جان ومال ، عزت وآبرو تصورات ومعتقدات پرکسی دوسرے کی طرف سے حملہ ہو اورایسی تمام تحریکات کو قوت پہونچانا لازم سمجھتی ہےجن کا مقصد ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے کی جان و مال ، عزت و آبرو کا احترام پیدا کر ناہواور فرقہ وارانہ تعصب ومنافرت کو دور کرنا ہو”
   امارت شرعیہ کے قیام اور اس کے مقاصد و اہداف سے متاثر ہوکر علامہ سید سلیمان ندوی ؒنے فرمایا تھا کہ بہار میں تنظیم امارت شرعیہ قائم کرنے کا مطلب شوخ اور شور زمین میں سنبل اگاناہے (حیات سجاد)۔

مولانا آزاد نے نہ صرف امارت شرعیہ کی حمایت کی ؛بلکہ اس کے قیام کو اپنی بارہ سالہ جد وجہد کا نتیجہ اور تمام اصلاحی اعمال وتحریکات کے لئے اصل الاصول اور اساس قرار دیاتھا۔ (حیات ابوالمحاسن ،س:۴۵۴ )اسی طرح علامہ سید ابوالحسن علی میاں ندوی نے فرمایا تھاکہ مولانا محمد سجاد کے ذریعے سے ہندستان کی ایک اہم مردم خیز ریاست صوبہ بہار واڑیسہ، امارت شرعیہ کے برکات سے متعارف ومستفید ہوئی ( مستفادامارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب )۔قطب عالم مولانا محمد علی مونگیر ی جو مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ بانی امارت شرعیہ کے مرشد گرامی تھے نے ارشاد فرمایا تھا کہ” امارت شرعیہ کا خاص مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کو شریعت اسلامیہ سے آگاہ کریں،اور اسلام کی عملی زندگی میں روح پھوکیں اس لئے میری دلی خواہش ہے کہ تمام مسلمان خصوصاً ہمارے متوسلین امارت شرعیہ کے مقاصد کی تکمیل میں مستعدی سے حصہ لیں اور اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرین۔( حیات ابوالمحاسن ،ص:۵۰۰ ) مولانا محمد علی مونگیری امارت کے قیام سے بہت خوش تھے مولانا عبدالصمد رحمانی کا بیان ہے کہ مولانا سجاد علیہ الرحمہ کا خط جب مونگیر پہنچا اور آپ کو پڑھ کر سنایا گیا تو آپ بے تاب ہوگئےاور فوراً اپنے نواسہ کے ذریعے حوصلہ بخش اور ممنون آفریں جواب لکھوایا (حیات ابوالمحاسن ،ص:۴۸۸)

احساس کو جگہ دیجئے کہ روز اول سے امارت شرعیہ کو اپنے اصولوں پر گامزن رکھ کر بافیض بنانے کی محنتیں تمام امراءشریعت اور خدام وکارکنان نے اپنے اپنے دور میں غیر معمولی خلوص ووفا کے ساتھ کی ہیں۔امیر اول بدر الکامل مولنا سید شاہ بدرالدین قادری ،امیر ثانی مولانا سید شاہ محی الدین قادری ،امیر ثالث مولانا سید شاہ قمرالدین قادری ،امیر رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ،امیر خامس مولانا عبدالرحمان نقشبندی۔امیر سادس مولانا سید نظام الدین قاسمی ،امیر سابع مفکر اسلام مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہم اللہ ،اسی طرح نائبین امراءشریعت میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ،مولانا عبدالصمد رحمانی اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی وغیرہم نے امارت شرعیہ کو ملت کی صلاح وفلاح کے لئے جس راہ پر گامزن کیا تھا اور اس کی جڑوں کو جس درجہ مضبوط کیا تھا ،آج بھی ا س کے دور رس اثرات کوملت صاف صاف محسوس کررہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امارت شرعیہ نے اپنی بلند پایہ خدمات وکردار سے ملت کے بیچ جو بھر وسہ قائم کیا ہواہے ،اس سے صرف اپنے ہی متاثر نہیں ہیں ،بلکہ غیر بھی اس کے معترف ہیں ،اسی لئے امارت شرعیہ کے بانی مولانا محمد سجاد غیر مسلم ہندستان میں امارت شرعیہ کو بہت سے ملی اور اجتماعی مسائل کا حل تصور فرماتے تھےاور تمام دینی تحریکات کی اصل قرار دیتے تھے۔
   امارت شرعیہ کی تاریخ میں ایسے کئی موڑ آئے جب امارت نے تن تنہا مورچہ سنبھالا ،ملت کی ناخدائی کی اور خیر سے کامیابی بھی ملتی رہی ہے ،یہاں کے پاک نفس بزرگوں کی محنتیں اور آہ سحر گاہی ہمیشہ رنگ لاتی رہی ہیں،ملک بھر میں دارالقضا کا قیام ،جہاں سے عائلی نطام کو راست طریقے پر انجام دیا جاتا ہے،شعبہ دعوت وتبلیغ جس کی منکرات اور فتنوں کے تعاقب میں گراں قدر خدمات ہیں۔شعبہ تنظیم جس سے ریاست بھر کے مسلمان ،نقباء امارت  کے رابطے میں رہتے ہیں۔شعبہ تعلیم ،یہ وہ شعبہ ہے جس کا خاص مقصد ہی مسلمانوں میں تعلیمی شعور کو بیدا رکرنا اور پورے حلقہ اثر میں مکاتب دینیہ اورعصری اسکولس قائم کرنا ،ضرورت مند طلباو اساتذہ کے لئے وظائف کا انتظام کرنا۔اسی طرح شعبہ تحفظ مسلمین امارت شرعیہ کا انتہائی اہم اور حساس شعبہ ہے جہاں سے مسلمانوں کی جان ومال ،عزت وآبرو اور دین وایمان کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت بیدار رہ کر مسلسل کوششیں جاری رہتی ہیں۔اس کے علاوہ قومی وملی سطح پر آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام ،آل انڈیا ملی کونسل اور فقہ اکیڈمی سمیت دین بچاودیش بچاو مہم، این آر سی اور سی اے اے کی تحریک میں شمولیت اور نئی تعلیمی پالیسی 2020کا جا ئزہ جیسی فکری وسماجی کوششیں امارت کے پلیٹ فارم سے ہوتی رہی ہیں۔
  آج ایک بار پھر جب ملک میں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ تعصب وبربریت ،عبادتگاہوں، مدارس اور مذہبی تعلیم پر شب خوں مار ی جارہی ہے، مدارس کوکمزور کرنے کی شرارت عروج پرہے ،ہندوستان میں مسلمانوں کی سنہری خدمات کو کھلے عام نظر انداز کیا جارہا ہے، مسلمانوں کو ہندوستان میں مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کا ماحول بنایا جارہا ہے ،ان میں عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دینے اور ہراساں کرنے کے آئے دن واقعات ہورہے ہیں ،ان کی شہریت ختم کرنے کی پوری پلاننگ کی جارہی ہے ۔تب امارت شرعیہ نے  آنے والے 2/مارچ 2024 کو ماضی کی طرح ایک بار پھر پوزیشن سنبھال لینے کا عزم کیا ہے اور پوری جرئت وحوصلے کے ساتھ آٹھویں امیر شریعت بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی صدارت وسربراہی میں دن کے 9/ بجے سے امارت شرعیہ پٹنہ کے اندر اپنا ایک روزہ عظیم الشان اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،جس میں بہار ،بنگال ،اڑیسہ اور جھارکھنڈ سے بڑی تعداد میں مدارس کے ذمہ داران ،دانشوران اور اہل علم وخواص شریک ہورہے ہیں ۔
امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانا حکیم محمد شبلی القاسمی صاحب نے جاری اپنے مکتوب میں اجلاس کی اہمیت اور اس میں خواص کی شرکت کو یقینی بتاتے ہوئے لکھاہے :


محترم و مکرم صدور و سکریٹریز حضرات ضلع, بلاک و پنچایت کمینی تنظیم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے مزاج گرامی بعافیت ہوں
ملک کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے ملکی اور ملی مسائل و مشکلات میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں، دستور ہند سمیت اسلامی تشخص اور دینی شعائر سخت خطرے میں ہیں، بعض صوبے میں یو نیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے لئے عملی اقدام ہو چکا ہے، حکومت کے طرز عمل سے عصبیت اور فرقہ پرستی صاف دکھتی ہے، خود ہمارے کئی داخلی مسائل ہیں جن کا فوری حل ضروری ہے۔ انہی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ کے زیر اہتمام بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال کے خواص کا ایک اہم اجلاس مورخہ 2مارچ 2024، بروز سنیچر بوقت ۹ بجے دن تا ظهر بعنوان ” موجودہ حالات ہماری ذمہ داریاں” زیر صدارت مفکرملت امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مد ظلہ العالی، المعہد العالی گراؤنڈ پھلواری شریف پنٹہ میں رکھا گیا ہے، جس میں مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے حل کی طرف خصوصی رہنمائی کی جائے گی ، آپ کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، امید کہ حالات کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اپنی شرکت کو لازمی بنائیں گے، آپ حضرات تنظیم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے معزز ذمہ داران وارکان ہیں، مذکورہ اجلاس کئی معنوں میں غیر معمولی اہمیت وافادیت کا حامل ہے، لہذا آپ حضرات اپنے اپنے حلقوں کے اہم علماء کرام ،ائمہ مساجد اور دانشوران کی شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش فرمائیں "۔

امید ہے کہ یہ اجلاس ملک کے مسلمانوں کے اندرسے عدم تحفظ کے احساس کو دور کرنے اور داخلی وخارجی مسائل کو خصوصیت سے حل کرنے کی سمت میں سنگ میل ثابت ہوگا اور ملک کے35/ کروڑمسلمانون  کے تعلق سے جو کائی بٹھا نے کی ناپاک کوششیں ہورہی ہیں انہیں کھرچ کر یہ ضرور واضح کیا جائے گا کہ ملک کے 35/کروڑ مسلمان کرایہ دار نہیں ،حقدار ہیں ،ان کا وجود ملک کی ترقی کا ضامن ہے ،انہیں ہراساں کرنا بند کیا جائے ،مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ہورہے سوتیلا رویئے کو روکا جائے ، ہندی مسلمانوں کے ساتھ ایک معزز شہری کی حیثیت سے برتاؤ کیا جائے،غنڈے موالی جو ملک کے امن وامان کو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ باز آجائیں ورنہ جس طرح ہم نے کل ملک کی آزادی کے لئے سر سے کفن باندھا تھا،ملک کو ایک سیکولر دستور فراہم کرنے میں قربانیاں دی تھیں ، اب اگر آزادی کے تحفظ،گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور بابا صاحب امبیڈکر کےذریعے لائے گئے ملکی دستور کی حفاظت کے لئےبھی سینے پر  گولیاں کھانے کی ضرورت پڑے گی تو اس جہت سے بھی ملک کی خدمت کے لئے ہم بخوشی تیار ہیں ۔اس موقع پر امیر شریعت ،نائب امیر شریعت ،قائم مقام ناظم اعلی سمیت امارت شرعیہ کے تمام خدام وکارکنان کی کوششوں کو سراہاجانا چاہئے اور انہیں اس جرئت پر پیش گی مبارک باد پیش کرتے ہو ئےبروقت اجلاس کے انعقاد کے تعلق سے  بخیر وخوبی کامیابیوں کے لئے ہم سبھوں کواللہ تعالی سے خوب دعا بھی کرتے رہنا چاہئے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: