Slide
Slide
Slide

یہ بات کہنا چاہیں گے سارے جہاں سے ہم

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

__________________

سماج کو عربی زبان میں معاشرہ اور انگریزی میں Society کہتے ہیں ، جس کے معنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے اور ایک ساتھ رہنے کے آتے ہیں ، ابن خلدون نے معاشرے کوحیوانی جسم کی طرح اور ارسطو نے انسان کو سماجی جاندارسے تعبیر کیا ہے ، علامہ جمال الدین افغانی کا خیال ہے کہ زندگی کی اجتماعی صورت کا ظہور سماج اور معاشرہ ہے اور معاشرہ کی حیثیت ایک جسم کی ہے ، رالف لنٹن  Ralif Lenton)) کے مطابق طویل عرصہ تک ایک جگہ رہنے والے افرا د کا گروہ معاشرہ بن جاتا ہے ، ان کے مابین اشتراک عمل ہوتاہے؛ جس کی وجہ سے وہ سب خود کو ایک جسم کی مانند سمجھتے ہیں۔ انگریزمفکر پروفیسر پیڑک نے لکھا ہے کہ Civics is  A Science Dealing only With Lfie and Prolelems of cites  ان تعریفات کی روشنی میں سماج کا دائرہ افراد کے ہرقسم کے تعلقات تمدنی ، تہذیبی اور ثقافتی احوال وکوائف اور ا ن کے اوصاف حمیدہ اوراخلاق رذیلہ کومحیط ہے ، اس میں نہ تو شعوری غیر شعوری کی تفریق ہے اور نہ ہی انضباط اورغیر انضباط کی ۔سماج کے ساتھ انصاف کو جوڑیں تو مطلب ہوگا کہ سماج کے ہر طبقے کو  ہر سطح پر پھلنے پھولنے اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں ، ذات برادری ، علاقہ کی تفریق کے بغیر ان کے حقوق کا تحفظ اور نگہداشت کیا جارہا ہو اس لئے اللہ رب العزت نے انصاف پرزوردیا اور فرمایا کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ،توانصاف کے ساتھ کرو ،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی انصاف کے راستے میں مزاحم نہ ہو،معاملہ چاہے اپنی ذات، اپنے اعزو اقربااور والدین ہی کا کیوں نہ ہو، کسی بھی حال میں انصاف کا دامن نہ چھوڑا جائے، اس معاملہ میں اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی نبوت کا اعلان نہیں کیا ہے ، کعبہ کی تعمیر چل رہی ہے ، بات اس پرآکر رکتی ہے کہ حجراسود کو اس کی جگہ پر کون نصب کریگا ، ہرقبیلہ کے سردار اس کام پر اپنا حق جتا رہے تھے اور اپنے دعوی پر اٹل تھے ،قریب تھا کہ کشت و خوں کا بازا ر گرم ہوجائے، حرم پاک میںتلواریں نکل آئیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے، آپ کے اخلاق و کردار کے مکہ کے لوگ قائل تھے اور عرب کے نوجوانوں میں آپ کوسب سے اچھا، امین وصادق سمجھتے تھے ، چنانچہ تمام سردا روں نے آپ کو َحکَم مان لیا ، آپ نے فرمایا ، ابھی سب لوگ اپنے اپنے گھرچلے جائیں ، کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے حرم شریف  میںآئے گا، اس کے فیصلے کو سب مان لیں گے ، سب مان گئے ، صبح کے وقت سردار ان قریش حرم پہونچے تو دیکھا کہ امین صادق محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے وہاں تشریف فرما ہیں ، سب نے مسرت کا اظہار کیا آپ نے فیصلہ کیا کہ حجراسود کو ایک چادر پر رکھا جائے ، اورہر قبیلہ کا سردار اس چادر کو پکڑ کر کعبہ کی دیوارتک لے جائے ، وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کی طرف سے حجرا سود کودیوار میںنصب کردیا ، جھگڑا بھی ٹل گیا ، اور سب کے حصے میں حجرا سود کو مقام تک پہونچانے کی سعادت بھی حاصل ہوگئی ، ایک اور موقع ہے، اسلام میں حدود وقصاص کے احکام نازل ہوچکے ہیں ، فاطمہ نام کی ایک لڑکی ہے چوری کا ارتکاب کرتی ہے ، جرم شدید ہے ، اسلام میں ہاتھ کاٹنا اس کی سزا ہے ، سفارش میں حضرت زید بن حارثہ ؓ کو لوگ بھیجتے ہیں آپ انہیں بہت چاہتے تھے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی بات پر فیصلہ بدلا جاسکے ، حضرت زید ؓ نے جیسے ہی ہاتھ کاٹنے کے عوض کچھ رقم لے کر معاملہ ختم کرنے کی بات کہی ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ٔ مبارک سرخ ہوگیا اور فرمایا؛ تم سے پہلے کے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے کہ کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور چوری کرتے تو اس پر سزا جار ی کرتا ، اللہ کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا ، ان ہدایات کی روشنی میںحضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے ، ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچ نیچ ، کالے ، گورے عربی عجمی کی تفریق ختم کرکے صاف صاف اعلان کیا کہ تمام انسان بنی آدم کی اولاد ہیں ، اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ، فرمایا ؛ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کا محبوب وہ ہے جو اللہ کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دنیا نے عظمت کے جو خود ساختہ پیمانے بنا رکھے ہیں وہ سماجی انصاف کے پیمانے نہیں ہیں ، سماجی انصاف یہ ہے کہ حکومت کی نظر میں سب برابر ہوں ، اور نسلی ، لسانی اورعلاقائی بنیادوں پر تفریق نہ کی جائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے غیر مسلم کے بارے میں جو امن و امان سے رہتا ہے اور اسلامی ملک میں مقرر کردہ ٹیکس دیتا ہے ، قتل کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ جو کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبونہیں پائیگا ؛حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے ، سماجی انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کے بند ڈھیلے کرائے ، اور ثمامہ بن اثال کو قید سے آزاد کردیا ،آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر وہ مسلمان ہوگئے ؛ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں ، غلاموں ، پڑوسیوں،معذوروں ، بیوائوں ، مسکینوں ، یتیموں ، عورتوں ، بچوں ، والدین کے حقوق پرانتہائی منصفانہ احکام جاری کئے اورانسانی بنیادوں پرہرایک کی ضرورت کی تکمیل اور ان کی اعانت ، وخبرگیری کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ،حدودوقصاص میں آقا اور غلام کے فرق کو مٹادیا ، اور فتنہ فساد کوروکنے کے لئے سخت ہدایات جاری کیں ، ان ہدایات کے علاوہ انسانی خیر کو بیدار کرنے اور ظلم وسرکشی سے اجتناب کرنے کے لئے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا کہ مظلوموں کی بدعائوں سے بچو؛ کیوں کہ اس کی آہ سیدھے عرش تک پہنچتی ہے ۔
سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کی وجہ سے ہی مملکت اسلامی میں امن وامان کی فضا قائم ہوتی اور دوردراز کے علاقوں میں سفر اطمینان کے ساتھ ہونے لگا؛ آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفرکرے گا اوراسے اللہ کے علاوہ کسی کاڈر نہیں ہوگا ، واقعہ یہ ہے بے امنی کا ایک خا ص سبب سماجی انصاف سے ر وگردانی ہے ، بدامنی ، احتجاج، مظاہروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں محرومی کارفرما ہوتی ہے، محرومی ہی بغاوت کو جنم دیتی ہے ،آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی مساوات اور انصاف کا جو تصوردنیا کو دیا، وہ اپنے آپ میں بے نظیر ہے۔خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  نے انہیں بے بنیادوں پر سماجی انصاف کے ساتھ حکومت کے کام کو آگے بڑھایا ، چنانچہ اسی انصاف کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کے بعد جو امان نامہ دیا اس میں لکھا کہ یہ امان نامہ ان کی جان ومان ، گرجا ، صلیب ، تندرست ،بیمار اور ان کے تمام مذاہب والوں کے لئے ہے، ان کے گرجائوں میںنہ سکونت کی جائیگی نہ ڈھائے جائیں گے ، نہ اس کو اور نہ اس کے احاطے کو کچھ نقصان پہونچایا جائے گا نہ ان کی صلیبوں اور نہ ان کے ما ل میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہیںکیا جائے گا ، اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہونچایا جائے گا ، ہر دور میں اس پر عمل کیا جاتا رہا ، یہ سماجی انصاف کا ہی تقاضہ تھا کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ پر مقدمہ چلا ،عدالت میں ان کی حاضری ہوئی ، اور مقدمہ یہودی کے حق میں فیصل ہوگیا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیںملتی ، آج کے دور میں ا سکی اہمیت و معنویت بعض خارجی وداخلی احوال کی وجہ سے دوچند ہوگئی ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: