Slide
Slide
Slide

مسائل ہی مسائل

✍ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھند

___________________

ملت اسلامیہ کو اس وقت بے پناہ مسائل کا سامنا ہے، یہ مسائل داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی،بہت سارے مسائل کا حل خود ہمارے پاس موجود ہے اور ہم ا ن سے نمٹ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے عزم راسخ اور اوالوالعزمی کی ضرورت ہے، جومسائل سرفہرست ہیں؛ ان میں دین بیزاری اور ہماری بے عملی اوربدعملی سب سے بڑا مسئلہ ہے، نئی نسل جس تیزی سے دوسری تحریکوں اورافکار سے متاثر ہورہی ہے یہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے اوراس کی وجہ سے ہمارے بچے بڑی تعداد میں اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں، گھروں میں نماز، قرآن کاچرچا باقی نہیں رہا، جمعہ کی نماز بھی دورکعت تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔سنتوں کا اہتمام نہیں،اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ گارجین حضرات خود بھی اسلام پر عمل کریں اوراپنے بچوں میں بھی ذوق پیدا کریں، علماء وصلحاء کی صحبت اختیار کریں، تاکہ اس کے مفید اورمثبت اثرات دل ودماغ پرپڑیں، اورشیطانی حربے ناکام ہوجائیں، اس ضمن میں اسلامی تہذیب وثقافت سے دوری کوبھی رکھا جاسکتاہے، کتنے گھروں کی آرائش وزیبائش اورسجاوٹ میںاسلامی انداز کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور ہماری  وضع قطع کس قدر اسلامی تہذیب وثقافت سے میل کھاتی ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ ہماری جہالت کا ہے، وہ امت جو تعلیم وتعلم کے نام پر اٹھائی گئی اورجس مذہب میں تعلیم کو فرض قراردیا گیا، اس امت کے بچے تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو کتنے افسو س کی بات ہے ،وہ امت جس کے نبی نے انما بعثت معلما کہہ کر اپنا تعارف کرایااس کے نونہال زری کے کارخانوں میںمزدوری، ہوٹلوں میں بیڑے کا اورکچڑے کے ڈھیر سے کچڑے چننے کاکام کریں، یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے۔ اس مسئلہ پردیہاتوں سے لے کر شہروں تک بیداری آئی ہے اورتیزی سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، لیکن اب بھی یہ ہماری تعداد کے اعتبار سے کم ہیں،جوادارے معیار ی ہیں ان کی فیس اتنی لمبی ہے کہ عام مسلمانوں کی پہنچ ہی وہاں تک نہیں ہوسکتی،لے دے کر تھوڑا بہت مدارس والے بچائے ہوئے ہیں تو وہاں کی تعلیم کو معاشی سرگرمی کے لیے مفید نہیں سمجھا جاتا ہے اس لیے پڑھنے والے بچوں میں صرف چار فی صد ہی ادھر کا رخ کرپاتے ہیں، ضرورت ہے کہ جگہ جگہ مکاتب سے لے کراعلیٰ تعلیم کے معیاری ادارے قائم کیے جائیں اورفیس وغیرہ ایسی رکھی جائے کہ اسکول کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے باقی رہے اور گارجین پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے۔
تیسرا مسئلہ ہماری معاشی واقتصادی کمزوری کا ہے، بڑی تعداد میں مسلمان مفلسی اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں اوریہ دلتوں سے بھی گئے گزرے ہیں، اس کے لیے سرکاری سطح پرنوکری کی تلاش کے ساتھ نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینی ہوگی تاکہ وہ آسانی سے اپنی معاشی پسماندگی کودورکرسکیں ، دوسری صورت تجارت سے جڑنے کی ہے خواہ وہ چھوٹی گھریلو صنعت ہی کیوں نہ ہو۔ پونجی کے لیے بہت ساری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج بنانا ہوگا، کچھ لوگوں کو اس کام کے لیے تیار ہونا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکیموں کی اطلاع عوام تک پہنچانے کاکام کریں، اور لوگوں کی مددکے لیے آگے آئیں۔
چوتھا بڑا مسئلہ جمہوری اداروں میں نمائندگی کا ہے، آزادی کے بعد سے مسلسل پارلیمنٹ ، اسمبلی اورمقامی جمہوری اداروں میں ہماری نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے ، اس کی بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کارویہ ہے۔ وہ مسلمانوں کوووٹ بینک کی طرح استعمال کرتے ہیں اوربعد میں وہ اس مظلوم اقلیت کو بھول جاتے ہیں ،پارٹیوں میںجو ہمارے لیڈران ہیں وہ بھی پارٹی کے وفادار زیادہ اورملت کے وفادار کم ہوتے ہیں ،انھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ انھیں کوئی کومنل (Communal)نہ کہہ دے، اس ڈرسے وہ بہت سارے جائز کام بھی مسلمانوں کاکرنے سے گریز کرتے ہیں، ہمیںاس صورت حال کو بدلناہوگا، پارٹی نظریات سے اوپر اٹھ کر ملت کے مفاد کے لیے سوچنا ہوگا۔مسلم رائے عامہ کواس کے لیے بیدار کرنا ہوگا تاکہ مسلم ووٹوں کو منتشر ہونے سے بچایا جاسکے،اس کے لیے ملّی تنظیمیں جولائحۂ عمل بنائیں اور جن بنیادوں پروو ٹ دینے کی تجویز رکھیں ان پراعتماد کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اکابر کی نگاہیں دوررس ہیںاور یقینا ان کی جانب سے جو تجویز آئے اس پرسنجیدگی سے غور کیاجائے تاکہ جمہوری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
پانچواں مسئلہ زبان کی حفاظت کا ہے، یقینا زبان کسی مذہب کی خاص نہیں ہوتی ،اردو بھی یقینی طورپر مشترکہ زبان ہے؛ لیکن مسلمانوں کابڑا علمی سرمایہ اس میں محفوظ ہے، اس معاملہ میں سرکاری سطح پر بھی توجہ کی ضرورت ہے اور داخلی سطح پر بھی ہمیں اس بات کویقینی بنانا ہوگاکہ ہمارے بچے اردوپڑھیں ،ہمارے گھروں میں دوسری زبانوں کے اخبارات ورسائل کے ساتھ اردو کے اخبارات ورسائل بھی خرید کر پڑھے جائیں، ہمار ی خط وکتابت کی زبان اردو ہو، میںنے کہیں پہلے بھی لکھا ہے کہ اردو کی لڑائی ہم اپنے گھروںمیںہار گئے ہیں،ہمیں اس طرف خصوصیت سے توجہ دینی ہوگی۔
ایک بڑا مسئلہ بلکہ داخلی مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ آپسی اختلافات کا ہے، چھوٹے چھوٹے اور فروعی مسائل میںمسلمان شدید اختلافات کا شکارہیں، نمازنہیں پڑھتا لیکن آمین بالجہر والسر پر لڑے گا، درود شریف کا ورد نہیں کرے گا؛ لیکن کھڑے ہوکر اوربیٹھ کرپڑھنے پر لاٹھیاں نکل آئیںگی، ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا،کلمہ کی بنیاد پراتحاد پیداکرنا ہوگا، اسی طرح ذات پات کی لعنت سے بھی ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا، نہ انفرادیت اورنہ فرقہ بندی، ایک امت اورایک جماعت بن کر زندگی گزارنا، اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد ، ہماری طاقت کامحور ومرکز ہے۔ ہمیںہرحال میں اس ہدف کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہئے اورہرقیمت پر کرناچاہئے۔ ان کے علاوہ مختلف موقعوں سے ہونے والے فسادات، محکمہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش، بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں میںڈالا جانا، عدالت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں باربار مداخلت ،سرکاری ملازمتوں سے انھیں دور رکھنے کی منظم کوششیں، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل یہ ملت کو درپیش چند مسائل ہیں،جنہیں اشاروں کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: