✍شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
______________
یہ خاموشی کیوں ہے بھئی ! الیکٹورل بانڈ کی صورت میں بقول کانگریس ’ چندہ دو ، دھندہ لو ‘ کا جو پِٹارہ سپریم کورٹ نے ڈانٹ پھٹکار کر کھلوایا ہے ، وہ کوئی معمولی پِٹارہ نہیں ہے ، بلکہ الزام ہے کہ کئی ارب روپیے ’ چندہ ‘ کے نام پر ہڑپ لیے گیے ہیں ، اور ہڑپنے والے وہ سیاست داں یا وہ سیاسی پارٹی ہے جو خود کو دودھ کا دھلا کہتی چلی آئی ہے ، اور جس کی ’ واشنگ مشین ‘ میں جاکر کرپٹ اور بدعنوان سیاست داں اور سرکاری افسران بھی ’ دودھ کے دھلے ہو جاتے ہیں ۔‘ بات بی جے پی کی چل رہی ہے ، جِسے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کہا جاتا ہے ۔ سب سے بڑی کا مطلب یہ کہ اس کے جتنے ممبران ہیں دنیا میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے نہیں ہیں ۔ لیکن بڑی کا مطلب صرف یہی نہیں ہے ، بڑی کا مطلب ’ سب سے بڑا چندہ ‘ بھی ہے ۔ ایک عرصے سے الیکٹورل بانڈ کے ذریعے بڑے بڑے صنعت کاروں اور دھنّا سیٹھوں سے ’ چندہ ‘ لیا جاتا رہا ہے ، اتنا ’ چندہ ‘ کہ بی جے پی دولت کے معاملہ میں بھی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن گئی ہے ۔ یہ ’ بڑا ‘ بننے کا سارا کھیل گزشتہ دس برسوں کے دوران کھیلا گیا ہے ۔ اس عرصے میں ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں ہاتھ ملتی رہی ہیں کیونکہ انہیں ’ چندہ ‘ میں بس اِکنّیاں ملتی رہی ہیں ۔ کیا یہ جو اربوں روپیے کا کھیل ہوا ہے اس پر آواز نہیں اٹھنی چاہیے ؟ ایک چند کروڑ روپیے کا بوفورس گھوٹالہ تھا جس نے کانگریس اور راجیو گاندھی بلکہ پورے گاندھی پریوار کے سیاسی کیریئر پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا ، یہ تو اربوں روپیے کا معاملہ ہے ! یہ معاملہ سامنے آتا بھی نہیں اگر سپریم کورٹ نے سختی نہ دکھائی ہوتی ۔ سپریم کورٹ کی سختی کا نتیجہ ہے کہ ؔ’ چندہ ‘ دینے والوں کے نام سامنے آ رہے ہیں ، اور روزانہ نت نئے انکشاف ہو رہے ہیں ۔ لیکن اسٹیت بینک آف انڈیا ( ایس بی آئی ) کی ڈھٹائی ملاحظہ کریں کہ سپریم کورٹ کی سختی کے باوجود اس نے مکمل معلومات نہیں دی ہے ۔ سپریم کورٹ نے ایس بی آئی کو بری طرح سے پھٹکار لگائی ہے ، اور یہ حکم دیا ہے کہ مزید معلومات ۱۸ ، مارچ تک ، یعنی پیر کے روز تک دے دی جائے ۔ سپریم کورٹ کی سختی بجا ہے کیونکہ جو انکشافات ہو رہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جن کمپنیوں نے الیکٹورل بانڈ خرید کر بی جے پی کو ’ چندہ ‘ دیا ہے انہیں مرکزی اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی طرف سے ’ دھندہ ‘ دیا گیا ہے ، یعنی فائدہ پہنچایا گیا ہے ! یہ انکشاف ہوا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے جن کمپنیوں اور صنعت کاروں کے خلاف ای ڈی ، سی بی آئی اور محکمۂ انکم ٹیکس کا استعمال کیا تھا ، یعنی جن پر چھاپے پڑے تھے ، ان کمپنیوں نے چھاپوں کے چند دن بعد ہی الیکٹورل بانڈ خرید کر بی جے پی کو ’ چندہ ‘ دیا تھا ۔ کانفریس نے اسی کو ’ چندہ دو ، دھندہ لو ‘ قرار دیا ہے ۔ اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ انتہائی تشویش ناک ہے ۔ کانگریس کے الزام کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی نے کمپنیوں اور صنعت کاروں کو ایجنسیوں کے ذریعے بلیک میل کیا اور ان سے ’ چندے ‘ لیے ۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کو آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ، اس کا کہنا ہے کہ ہر کمپنی کا نام سامنے آنا چاہیے ، اور یہ پتا لگنا چاہیے کہ کتنی رقم ’ چندے ‘ میں وصولی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس اقدام کی ستائش ضروری ہے کیونکہ یہ اقدام سیاست سے کرپشن اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔