Slide
Slide
Slide

این جی اوز کا زکوۃ پر ڈاکہ

✍ محمد عباس الازہری

_______________

دہلی ممبئی اور دیگر شہروں میں ماڈرن حضرات بہت سارے ” این جی اوز ” کھولے ہوئے ہیں اور ان کا یہ  ” وصولی دھندہ منظم طریقے سے چل رہا ہے  !
یہ لوگ اپنے اپنے "این جی او” میں خوبصورت کچھ لڑکیاں رکھے ہوئے  ہیں۔یہ ہر موسم میں چندہ اکٹھا کرتے ہیں,لیکن اس کو ڈونیشن کا نام دیتے ہیں,ہاں ! رمضان شریف میں ” زکوة  ” پر دھاوا بولتے ہیں اور کچھ لوگوں کو راشن کٹ دے دیتے ہیں اور کچھ لوگوں کو افطاری کرا دیتے ہیں اس کی تصویر و ویڈیو بنوا کر سال بھر مانگتے رہتے ہیں !
تمام تصاویر و ویڈیوز پر مشتمل ریکارڈ مختلف سفارت خانوں اور بیرونی ڈونرز کو جاتا ہے کہ ہماری تنظیم کتنا اچھا کام کررہی ہے۔۔۔ پھروہاں سے سالانہ امداد ملتی ہے اور یہ لوگ مدرسہ میں چندہ دینے سے منع کرتے ہیں یا کم دینے کو کہتے ہیں اور عصری اسکول قائم کرنے کی بات کرتے ہیں ,کچھ لوگ زکوة کے پیسے سے اسکول قائم کر لیے اس میں موٹی رقم فیس کے نام پر لے کر اپنی قوم سے زیادہ دوسری قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں!
غریب مسلم بچوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتے ہیں یعنی زکوة کے پیسے اسکول یا این جی او کے اسکول میں کاروبار کرتے ہیں اور ان اسکولوں ڈانس و رقص سب کچھ کراتے ہیں غیر مسلم اسکول والا مسلم بچے و بچیوں کو کچھ رعایت بھی دیتا ہے لیکن یہ لوگ ذرا برابر نہیں دیتے!
یہ سیدھے اکاونٹ میں پیسہ منگواتے ہیں! ایک غریب اللہ تعالیٰ کے نام پہ مانگتے مانگتے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دن پیش ہوجاتا ہے، اسی غریب کے نام پہ ہی یہ NGOs والے مانگتے مانگتے امیر ہو جاتے ہیں!
مدارس اسلامیہ میں چندہ دینے کی مخالفت کرنے والے این جی اوز کے ذمہ داران کو معلوم ہونا چاہیے کہ علمائے کرام
گاؤں دیہات میں کم تنخواہ میں پڑھاتے ہیں اور ان مدارس میں داخلہ طلبہ کے رہنے ,کھانے پینے سونے اور تعلیم دینے کے نام پر کوئی فیس یا پیسہ نہیں لیا جاتا ہے۔۔۔اور مقامی طلبہ و طالبات سے فیس نہیں لی جاتی ہے ۔۔۔جن کے بچے بچیاں انگلش میڈیم اسکولز میں زیر تعلیم ہیں ان کو بخوبی معلوم ہے کہ کتنی فیس ہر مہینے لگتی ہے!
یہ تو مدارس کا احسان ہے کہ مسلم سماج کے بچے اور بچیوں کو بنیادی تعلیم دے رہے ہیں! اور روزہ رکھ کر گھر میں رہ کر باتیں بڑی بڑی کی جا سکتی ہیں لیکن وہ علما جو چندہ کے لیے شہروں اور دیہاتوں کی خاک چھانتے ہیں  ان سے پوچھیں کہ چندہ کیسے ہوتا ہے اور کیسے مدارس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: