اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

صلاحیت کا غلط استعمال

✍️ انس مسرورانصاری

______________

قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس دنیامیں بے شمارقومیں پیداہوئیں۔عروج وارتقاء کی منزلوں سے ہم کنارہوئیں۔ رفعت وسربلندی نے اُن کے قدم چومے، لیکن طاقت واقتدارکانشہ طاری ہواتو غرور ونخوت میں مبتلا ہوئیں، خودپرستی اور خدا فراموشی کواپناشعاربنالیا،خداکی قائم کرد ہ حدوں سے اجتناب کیا۔ہراُس برائی کواختیارکیا، رواج دیاجوقو مو ں کے زوال کاسبب ہوتی ہیں۔آرام طلبی و عیش کوشی اور غفلت وبے خبر ی میں ایسے کھوگئیں کہ اُنھیں اپنی ذات اوراپنی طاقت کے سِواکچھ بھی نظرنہ آتاتھا۔اُن کے علماء اور دانشور بھول گئے کہ انسان کامقصودِ حیات کیاہے۔ انھوں نے اپنے فرائض ِمنصبی سے غفلت کا گناہ کیا۔دربارگیری، حاشیہ برداری اورجاہ طلبی اُن کی زندگی کامقصدومشن بن گئے۔وہ بھو ل گئے کہ خدانے اُنھیں دینی ودنیاوی منفعت بخش علوم سے سرفرازکیا ہے۔ دینی و دنیاوی سعادتیں عطا فرمائیں توقوم کی صحیح رہنمائی کاذمّہ دار بھی ٹھہرایا۔ مگروہ اپنی رہنمایانہ حیثیت کوفراموش کربیٹھے۔ طرح طرح کی لغویات اورخرافات کے اسیرہوگئے۔اس کے بعدبھی خدانے اُنھیں سنبھلنےکی مہلت اور پھر سے راہِ راست پرچلنے کے مواقع باربارعطاکیے۔لیکن جب اُن کی نادانیاں اورنافرمانیاں قدرت کے آئین سے متصادم ومتجاوز ہونے لگیں ،ٹکرانے لگیں تو زوال کواُن کامقدرکردیاگیا۔پھروہ تباہ وبرباد ہوگئیں۔اُن کانام ونشان تک مٹ گیا۔بعض قومو ں کوتاریخ کے صفحات میں بھی پناہ نہ مل سکی اور نیست ونابود ہوگئیں۔
مصرکی فاطمی خلافت،بغدادکی خلافتِ عباسیہ ،خلفائے اسپین اورخلافتِ عثما نیہ کے جاہ وجلال اور سربلند ی و سرفرازی کی مثال نہ تھی۔اُن کے خلفاء یورپ کے بڑے حصے پرقابض ہوگئے تھے۔دنیاکے نصف سے زیادہ حصوں پراُن کاتسلّط تھا۔ وہ دینی ودنیاوی سعادتوں کے امام تھے۔یورپ کے کسی حکمراں کواُن سے آنکھیں چارکرنے کی مجال نہ تھی۔اُن میں ہمت تھی،بہادری اورشجاعت تھی،اُن کے بازوتواناتھے، نہ وہ خود چین سے بیٹھتے اورنہ اپنے عسکریوں کوآرام کا موقع دیتے،وہ خودبھی متحرک رہتے اوراپنی عسکری طاقت کوبھی متحرک رکھتے۔ خشکی پربھی وہ مقتدر تھے اور سمندروں پربھی حکمراں۔ عدل وانصاف،امن ومساوات،خداترسی،اتحادواتفاق اوراسلامی تہذیب وتمدّن کے وہ نگراں و محافظ تھے۔ انھوں نے علوم وفنون کوبہت فروغ دیا۔زندگی کے ہرشعبہ میں کارہائے نمایاں کیے۔پھراُن کے بعداُن کے جانشین آئے اورمحل سراؤں میں اسیرہوکرعیش پرستی میں مبتلاہوگئے۔اُن کے بازوکمزور ہوگئے۔اُن کی طاقت گھٹتی گئی۔وہ مخلوقِ خداسے غافل ہوکر شراب وشباب کے ہوش ربا طلسم میں کھوگئے۔یہ اُن کاآخری گناہ تھا۔پھراُنھیں قدرت نے معاف نہیں کیا۔صلاح الدین ایوبی نے اُس نام نہاد خلافت کو ختم کردیااورایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ملّتِ اسلامیہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوکنارامل گیا۔قوموں کے زوال کے اسباب مختلف ہیں لیکن عیش پرستی اورمخلوقِ خداسے بے نیازی مشترک ہے ۔بلاشبہ عہدِ عباسیہ میں علوم وفنون کوبڑی ترقی ملی۔بہت بڑے بڑے فلاسفراورسائنس داں پیدا ہوئے جن کے کارنامے تاریخ میں محفوظ ہیں۔خلیفہ مامون رشید کے زمانے میں علمِ کلام کوعروج حاصل ہوااورخلقِ قرآن کافتنہ کھڑاہوا۔بہت سے حق پسندوحق پرست علماء وصالحین شہیدکردیے گئے۔مامون رشیدنے اُنھیں حق بیانی کے جرم میں سزائیں دیں۔امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآپ کے ہمنواؤں کوقیدو بندکی صعوبتیں جھیلنی پڑیں،یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہوگئے۔مامون رشیدکے بعدبھی یہ فتنہ پُرجوش طریقے سے جاری رہا۔یہ خلفاء قرآن کومخلوق مانتے تھے ۔اُن کے حامی مصلحت پسند علماء کی تعدادکثیرتھی۔پھر ایک انقلاب پسند اورحق بیان پیداہوا۔ اس نے کہا۔‘‘جس بات میں رسولِ خداخاموش رہے۔ان کے اصحاب چپ رہے۔تابعین کی جماعت خاموش رہی’اس بات پرتم لوگ بحث کررہے ہو‘جراح وتعدیل اورتاویلات سے کام لے رہے ہو‘یہ بڑی جسارت کی بات ہے۔’’ اس کے بعد یہ فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔ جس علم الکلام کی بنیادپریہ فتنہ کھڑاہوتھا،وہ علم مسلمانوں کوبہت مرغوب ومحبوب تھا۔خلافتِ عباسیہ کے آخری عہد میں علم کلام نے ایک نئی کروٹ بدلی۔اُس کی بنیاد پرمناظروں کی گرم بازار ی شروع ہوئی۔مسجدوں میں مناظرے۔شاہراہوں اور بازاروں میں مناظرے۔مسلکی مناظرے۔ نسلی مناظرے۔ارضی و سماوی مناظرے۔ قسم قسم کے مناظرے ومباحثے ۔ طرح طرح کے موضوعات پر اِن مناظروں نے دیگرعلوم کی اہمیت کوکم کردیا۔پوری قوم مناظرہ بازی کے مرض میں مبتلا ہوگئی۔ لیکن علم الکلام ہویا کوئی دوسراعلم، اپنے آپ میں اچھایابرانہیں ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ کسی کم ظرف آدمی کوعلم حاصل ہوجائے تووہ اُس کواپنے مزاج ومذاق کے مطابق استعمال کرتا ہے۔اگرمزاج صالح نہ ہوتوعالم کاعلم بھی شیطانی خرافات کاسرچشمہ ہو جاتاہے۔شہرت اورمعیشت کی طلب علمی سچائی کوکھاجاتی ہے۔علم کاغلط استعمال بہت برے نتائج سامنے لاتاہے۔چنانچہ اُس دور کے شہرت طلب علمائے سُؤ نے اپنے اصل کام دعوت وتبلیغ اورفروغِ دین وملّت کوپسِ پشت ڈال دیا۔ اپنی عسکری طاقت سے غافل آخری دَورکے خلفاء اپنی حرم سراؤں میں شراب وکباب کی لذتوں اورحسن وجمال کی رعنائیوں میں ایساگرفتارہوئے کہ پھررہائی نصیب نہ ہوسکی۔اپنی تباہی اور بربادی کے جس تابوت میں یہ کیلیں ٹھونکتے آئے تھے،چنگیزخاں نے اُس میں آخری کیل ٹھونک دی اورخلافتِ عباسیہ کانام ونشان مٹ گیا۔مسلمان چُن چُن کر قتل کیے گئے۔معصوم بچوں کونیزوں پر اُچھالاگیا۔چنگیزخاں خداکاقہربن کرنازل ہوا۔زمین اپنی تمام تر فراخیوں کے باوجود مسلمانوں پرتنگ ہوگئی۔
خلافتِ اسپین کے زوال کے اسباب بھی مذکورہ دونوں خلافتوں سے مختلف نہ تھے۔قریب آٹھ سوسالہ اس خلافت کونااہل اورنا لائق بادشاہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے کفن پہنادیا۔مسلمانوں کاقتلِ عام ہوا۔وہ ذلّت کے ساتھ اسپین سے نکال دیے گئے۔عورتیں باندیاں بنالی گئیں اوراسپین میں بچے کھچے مسلمان غلام ہوگئے۔ عیسائیوں نے اُن کے عبادت خانوں کوگر جا گھروں میں تبدیل کرلیااورباقی مساجد کو گھوڑوں کااصطبل بنادیا۔یہ اُس قوم کاانجام ہے جس کے بزرگوں کی بخشی ہوئی علم کی روشنی سے سارایورپ جگمگارہاہے۔
ہندوستان میں مغل سلطنت کاعروج تاریخ کاایک زرّیں باب ہے۔اور نگ زیب عالمگیر تک اس سلطنت کی حدودمیں اضافہ ہوتارہا۔کوئی طاقت مغلوں کاسامناکرنے کی جرأت نہیں رکھتی تھی۔ اورنگ زیب نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت کے ساتھ حکومت کی۔ اس کے بعد حکمراں طبقہ آپسی اختلافات کاشکارہوگیا۔کشمیرسے کنّیاکماری اور رنگون سے کابل تک پھیلی ہوئی اس عظیم الشان سلطنت کے زوال کے اسباب بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ اورنگ زیب کے بعد کئی بادشاہوں نے تخت وتاج کوسنبھالا مگراُن کابوجھ اُٹھانے کی طاقت کسی میں بھی نہ تھی۔ ہمیشہ کی طرح عیش پرستی،بزدلی،خو ابِ غفلت اورعلمی انحطاط کی وجہ سے عظیم مغل سلطنت سمٹتے سمٹتے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرکے عہدمیں صرف دہلی تک محدودہوگئی۔بس لمبے لمبے القاب باقی رہ گئے۔جب کلکتہ سے انگریزی فوج دہلی کی طرف بڑھ رہی تھی اورمنزلوں پرمنزلیں سرکرتی ہوئی دہلی کی طرف چلی آرہی تھی اُس وقت بوڑھااورکمزوربادشاہ اپنی عسکری طاقت کاجائزہ اور اسلحوں کی درستی اورفراہمی کے بجائے شطرنج کھیلنے اورغزلیں کہنے میں مصروف تھا۔اُس کے حاشیہ نشین شعراء ومصاحبین اُس کی شان میں قصیدے کہہ کہہ کراُسے گمراہ کررہے تھے۔اُس مجبوراوربے بس دعاگوبادشاہ کو ظلِّ الٰہی اورسلطانِ عالم کے القاب سے پکارتے تھے۔ دشمن منزل بہ منزل بڑھتاچلاآرہاتھا اوربادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے اورقسم قسم کے جانورپالنے اوران سے دل بہلانے میں مست تھا۔بچی کھچی فوج کوتنخواہیں نہیں مل پاتی تھیں۔اسلحے زنگ آلودہو گئے تھے۔بادشاہ شاعرانہ ومتصوفانہ تخیّلات کی دنیا میں فر ارہوگیا۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کی حالت اُس شترمرغ جیسی ہوگئی تھی جوخطرہ محسوس کرتے ہی ریت میں گڑھاکھودکر اپنے سر کو چھپالیتاہے اورخیال کرتاہے کہ وہ دشمن کی نگاہوں سے محفوظ ہے۔
مغلیہ سلطنت کے زوال پذ یر عہد کی دہلی میں عوام اورخواص کی خصوصی تفریحات کے دوبڑے ذرائع تھے۔ایک تومشاعرے اوردوسرے طوائفوں کے مجرے۔خاقانیِ ہندذوقؔ دہلوی اپنی بلاغت۔ مرزاغالبؔ اپنی فکری اورفلسفیانہ بصیرت۔مومنؔ اپنی معاملہ بندی ورومان پسندی اورداغؔ اپنی سادگی وفصاحت میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے۔مشاعروں کی محفلیں بڑے پیمانے پربرپاہوتیں۔طوئفوں سے مجرے سننا،ان کے بالاخانوں پرجانا،رسم وراہ رکھناتہذیب وشرافت میں داخل تھے۔اپنے بچوں کی تہذیبی تربیت کے لیے طوائفوں کی خدمات حاصل کرنااس زمانے کے شرفاء کی خاص امتیازی شان تھی۔اُس زمانہ میں ‘‘اودھ اورشاہانِ اودھ’’ کابھی یہی عالم تھا۔نزاکت ایسی کہ سامنے کھیرایاککڑی کاٹ دو تو زکام ہوجائے۔اپنے اقتدارکے لیے قوم کاسودا کرنے والے ان عیش پرستوں نے قوم کوبیچ دیا۔
ایسٹ انڈیاکمپنی شہروں پرشہر اورقصبوں پرقصبے فتح کرتی ہوئی تیزی سے دہلی کی جانب بڑھ رہی تھی مگردہلی والے طوائفوں سے مجرے سننے اورمشاعروں میں شعرأ کودادوتحسین سے نوازنے میں مصروف تھے۔مشہورہے کہ مرزاداغؔ نے دہلی میں شاعری کاوہ جادوجگارکھاتھاکہ سامعین اُن کی غزلیں سن کر مسحورہوجاتے۔کہتے ہیں کہ جب داغؔ مشاعروں میں اپناکلام سناتے تو دادوتحسین کے شور سے مشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑ جاتیں۔ذوقؔ وغالبؔ،مومنؔ وداغؔ کے علاوہ اردواورفارسی کے بہت سے اہلِ کمال وفن جوذہانت وذکاوت اورلیاقت وصلاحیت کے اعتبارسے اعلاترین معیارپرتھے،زندگی بھر شعرکہتے اور داد وتحسین وصول کرتے رہے۔اسی پروہ خوش تھے،قانع و مطمئن تھے۔جن کے شعروں پرمشاعرہ گاہ کی چھتیں اُڑجایاکرتی تھیں اورجوبہترین دماغ اوراعلا صلاحیتوں کے مالک تھے۔اپنی قوم کے لیے کوئی ایساعلمی وتعمیری کارنامہ نہ کرسکے جس پر آج ان کی قوم فخرکرسکتی۔ سودوسوغزلوں کے بجائے انسانیت کی ترقی اور تحفظ کے لیے صرف ایک تھیوری اور سائنٹفک نظریہ دے جاتے توآج پوری انسانیت ممنونِ احسان ہوتی۔حدتویہ ہے کہ جولوگ اپنی شاعری کے ذریعے قوم کوافیون دے کرسُلارہے تھے،جب 1857ء میں قوم پر سامراجی مظالم کی جابرانہ افتادپڑی تو یہی لوگ قوم کوغنودگی کی حالت میں چھوڑکرحصولِ عیش و معاش کے لیے دوسری ریاستوں کی طرٖف بھاگ کھڑے ہوئے۔قدرت نے انھیں اعلادماغ اور بہترین صلاحیتوں سے نو از ا تھا۔زمانہ شناسی کی لیاقت عطاکی تھی۔یہ لوگ چاہتے تو قوم کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے مگرانھوں نے کچھ نہ کیا۔ زندگی بھراپنی خدادادصلاحیتیں غیرضروری سمتوں میں صرف کرتے رہے۔وہ ایسے محاذ وں پراپنی ذہانت کامظاہرہ کرتے رہے جہاں سے اُن کی زوال پزیرقوم کو کو ئی بھی فائدہ پہنچنے والانہ تھا۔
     اسی طرح منصورحلّاج کی زندہ کھال کھینچی گئی ۔کیونکہ انھوں نے اپنے اندرخداکوپایاتھا۔باب کو1850ء میں ایران میں اس لیے گولی ماردی گئی کہ وہ اپنے آپ کوامام موعودسمجھتے تھے۔مرزاغلام احمدقادیانی نے انکشاف کیا کہ مسیح وکرشن کی روح اُن کے اندرحلول کرگئی ہے۔مگریہ لوگ جومابعدالطبیعاتی دنیامیں اتنی بلندپروازیاں دکھارہے تھے،اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں پیداہواجوانسانیت کوسائنٹک علوم میں کوئی نیاطریقہ یانئی دریافت دے جاتا۔
       ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برصغیرمیں مسلم قوم کے زوال کی رفتاربڑھتی ہی گئی۔ایسالگتاہے کہ اس قوم کے زوال کی کوئی حدہی نہیں کہ جس پر نشاۃ ثانیہ کی بنیادقائم ہو۔یہ قوم ابھی زوال پزیرہے اورزوال یا فتگی کے آثارتک نظرنہیں آرہے ہیں۔اس قوم نے ایسے علماء اوردانشورنہیں پیداکیے جواس کارخ اس کے اصلی مرکزومحوراورمرجع کی طرف موڑدیتے۔اس کامقدربدل دیتے۔قوم فرقوں،طبقوں اوربرادریوں میں بٹ گئی۔منتشرہوگئی۔اس کی ساری قوت بکھرگئی۔      زندگی کے ہرمحاذپرنا کام ونامرادہوگئی۔قانونِ قدرت ہے کہ اس کائنات میں جوچیز اپنی نفع بخشی کھودے،اسے برباد کردیاجائے،ہٹادیاجائے۔مٹادیاجائے۔اس کائنات کوغیرضروری اورغیرمنفعت بخش چیزوں کی ضرورت نہیں۔دوسروں کے لیے نفع بخشی ہمیشہ ایثاروقربانی،بھلائی وخیرخواہی، بھائی چارگی اوراحساسِ ذمّہ داری کی بنیادپرممکن ہے لیکن اس قوم نے اس جذبہ واحساس کوبھی کھودیا اوربھول گئی کہ وہ جن کی محبت کادم بھرتی ہے۔جن کادامن نہ چھوڑنے کی باربار قسمیں کھاتی ہے۔  اللہ کے اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے باربارفرمایاہے کہ مسلمان،مسلمان کابھائی ہے،اس کے لیے وہی کچھ پسندکرے جووہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔’’ اس قوم نے اجتماعیت اوروحدت کے اس بنیادی سبق کو فراموش کردیا۔ یہ بھی بھول گئی کہ خداکاوعدہ ہے کہ وہ نافرمان قوموں کو مٹادیتاہے اورایسی قوم کواسلام کی توفیق عطافرماتاہے جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔اپنی انفرادیت کوکھوکرمسلم قوم نے غیرقوموں کے شعارکواپنالیا۔ان کی مماثلت ومتابعت اختیارکی۔ عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن اتوار کو مقررکررکھاہے توعام مسلمانانِ برصغیرنے خداکی عبادت کے لیے ہفتہ میں ایک دن ‘‘جمعہ’’ کومخصوص کرلیاہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی ایک دن خداکی عبادت کرتی ہے۔اس قوم نے یہودیوں سے ‘‘سودخوری ،عیسائیوں سے ‘‘لباس’’اوراہلِ ہنودسے ذات اورشخصیت پرستی کے علاوہ ان کی سماجی برائیوں کوبھی رضاورغبت کے ساتھ قبول کرلیاہے۔اب اس قوم کے پاس اس کااپناکیابچا۔؟یہ سوال خود ہی اپناجواب ہے۔
زندگی کی ہرسطح پر قوم کے علماء اوردنشور اس کے نگراں ومحاظ ہوتے ہیں۔ان کی حیثیت رہنمایانہ ہوتی ہے۔وہی قوم کوصحیح راستوں کی طرف لے جاتے ہیں۔صحیح خطوط پرچلاتے ہیں۔ یہ ان کی ذمّہ داری ہے۔لیکن کیاخیرِ اُمّت کی صورت میں یہ ذ مّہ داری پوری کی جاری ہے۔؟یہ ایک بڑااور اہم سوال ہے۔
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ فرقوں، طبقوں،برادریوں اورمزید گروہوں میں بٹی ہوئی منتشر قوم نے اپنے تہذیبی وتمدّنی اورمعاشرتی نظام کے تاروپودبکھیرلیے ہیں۔اپنی ساری اچھائیاں دوسری قوموں کوبخش کراُن کی ساری برائیاں ،خرافات اورمذموم رسوم ورواجات کواپنے معاشرہ میں رائج کر لیا ۔ نصرانیوں،یہودیوں اورہندؤں کے بہت سے طریقے اپنالیے۔اس قوم کااپناکیابچا۔؟
          قرآن بھی خدابھی رسولِ کریم بھی
         کُل کائنات اس کی ہے لیکن فقیرہے
اس کی ایک مثال ‘‘جہیز’’جیسی جابرانہ بدعملی ہے۔اسلام سے جس کاکوئی تعلق نہیں۔یہ خالص ہنودی رسم ہے جوسناتن دھرم سے جڑی ہوئی ہے اورجوکسی بھی معاشرہ کے لیے کینسرجیسی مہلک بیماری ہے ،مسلمانوں نے بڑے فخرکے ساتھ اپنے معاشرتی نظام کالازمی حصّہ بنیالیااوراُن کے علماء ودانشورخاموش ہیں۔ دیمک کی طرح چاٹ جانے والی جہیزکی رسم نے مسلم سماج کوناخواندہ وپسماندہ بنادیا۔ جہیزکی اسی لعنت کی وجہ سے آج مسلم بچیاں غیرمسلموں کواپنی زندگی کاہم سفر بنانے پرمجبورہیں۔ ان کے والدین کے پاس ‘‘جہیز’’کی استطاعت نہیں ہوتی۔ زندگی میں ہم سفر کی ضرورت بھی ناگزیر ہے۔یاپوری زندگی تنہائیوں کی نذر ہوجاتی ہے۔سیاہ بالوں میں چاندی کے تارآجاتے ہیں اور آنکھوں میں سارے سہانے خوب مرجاتے ہیں۔جہیزکی اسی لعنت کے سبب بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ بچیوں کوخداکی رحمت کہاگیاہے۔لیکن جب یہ رحمت نازل ہوتی ہے تو لوگوں کے چہرے فق ہو جاتے ہیں۔ اُترجاتے ہیں۔ ایسانہیں کہ انھیں بچیوں سے پیارنہیں۔کبھی کبھی توبچوں سے زیادہ اپنی بچیوں کوپیار کرتے ہیں۔مگر کیاکریں کہ جہیزکابوجھ ان کی کمروں کودہراکردیتاہے۔اسی بوجھ کوہلکاکرنے کے لیے وہ بچوں کو تعلیم کے بجائے کام پرلگالیتے ہیں تاکہ اپنی بچیوں کے لیے جہیز کی رقم جمع کرسکیں۔زمانۂ جاہلیت میں وحشی عرب اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیاکرتے تھے۔مگرہمارے زمانے میں انھیں پیداہی نہیں ہونے دیاجاتااورماں کے شکم ہی میں دفن کردیاجاتاہے۔کچن میں زندہ جلادیاجاتاہے۔ جہیزکی اس رسم اوردیگرخرافات نے پورے مسلم معاشرہ کی دھجیاں بکھیررکھی ہیں۔ ساراکرپشن اسی سے پھیلاہواہے۔جہیزکابوجھ نہ ہوتوہرباپ چاہے گاکہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں۔آگے بڑھیں،ترقی کریں۔
بھارت کی ‘‘سچرکمیٹی’’ کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے۔ وہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔مگران کے مصلحین کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔تباہیوں اوربربادیوں کاایک سیلاب ہے جس میں یہ قوم بہی چلی جارہی ہے۔جولوگ اس بہاؤ کوروک لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،وہ بھی اسی میں بہے چلے جارہے ہیں۔ غیر ضروری محاذوں پر سرگرم ہیں۔اقبالؔ نے@ کہاتھا۔ ‘‘توشاہیں ہے بسیراکرپہاڑوں کی چٹانوں پر۔’’لیکن اس قوم کا حال یہ ہے کہ اس کے زوال اورپستیوں کاسلسلہ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہاہے۔براہیمی صداقت کوجانتی ہے مگرشعلوں سے ڈرتی ہے۔عصائے موسوی ہاتھوں میں ہے اورسانپوں سے خوفزدہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں کے لیے نمونے کاا یک مثالی معاشرہ قائم کیاتھاجو کا میابیوں اور کامرانیوں کاضامن تھا۔اس معاشرہ نے بڑے بڑے ریفارمراورہیروزپیداکیے جوپوری دنیاپر اثراندازہوئے۔جس میں جہیز اوربارات جیسی خرافات کی کوئی گنجائش نہ تھی۔کوئی تصور نہ تھا۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالا عنہاکانکاح حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایاتوانھیں جہیزنام کی کوئی چیزنہیں دی۔جوکچھ دیاوہ حضرت علی کودیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اُن کے کفیل اورسرپرست تھے۔نکاح کے سارے ا خراجات حضرت علی نے اپنی زرہ بیچ کر اداکیے تھے۔ بعدکے زمانے میں اس فلاحی معاشرہ کومسلمانوں نے مستردکردیااوروہی کچھ کیاجویہودیوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیاتھاکہ نبی ورسول کوتومانیں گے لیکن اُن کے فرمودات پرعمل نہیں کریں گے۔اس نافرمانی پر اللہ تعالانے یہودیوں پرلعنت بھیجی۔یہودیت اس کے سواکچھ او ر نہیں کہ اپنے نبی ورسول کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جائیں اور خداکاشریک تک ٹھہرادیاجائے مگر اُن کی ہدایات پرعمل نہ کیاجائے۔کیامسلمان لعنت زدہ یہودی قوم کی راہ پرچل نکلے ہیں۔؟نافرمانی،خود غرضی،خودفریبی ،ناانصافی، بے ایمانی، لالچ،ہوس،ریاکاری،شراب نوشی،قماربازی، عشرت پسندی،سود خوری،وعدہ خلا فی، عدم مساوا ت،عدم صلہ رحمی، دھوکہ، مکر، فریب،تن آسانی،قتل وخون اورغارت گری۔!وہ کون سی برائی ہے جس کی لعنت میں مسلم قوم گرفتارنہیں۔پھربھی محبتِ رسول کادعویٰ ہے اوراس کے لیے جھوٹی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔نتیجہ یہ کہ اللہ ورسول کے تمام ترواسطوں کے باوجود جب دعائیں نامقبول ہوجاتی ہیں توقوم شکایت پرآمادہ ہے کہ‘‘برق گرتی ہے توبے چارے مسلمانوں پر’’۔اپنی ذات کے خول میں بندناجائزمفادپرستی میں مبتلااس قوم کونہ جانے کب اپنے محاسبے کی توفیق عطاہوگی۔ہوگی بھی یانہیں۔کیاپتا۔
              ہیں دل محروم ضربِ لاالہ سے
            صد ف تو ہے گہر با قی نہیں ہے
            نمازیں ہیں مگربے ذوق سجدے
             اذاں ہے پر ا ثر  با قی نہیں ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: