۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ

✍️ زین شمسی

_____________

مسلمانوں کے علاقہ کو عزت بخشنے کے لیے اب اسے Eateries Areaکہا جانے لگا ہے۔ کھانے پینے کے شوقین لوگ جب زبان کا مزہ بدلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو مسلم علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ انواع و اقسام کے لوازمات سے فارغ ہوکر پھر مسلمانوں کے سلوک پر باتیں کرتے ہوئے گھر لوٹ جاتے ہیں۔ مجھے بھی جب مونگیر کے گھر کے کھانے سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے تو دہلی کا رُخ کرتا ہوں۔ میرے تو دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں۔ شاہین باغ کا 40فٹاروڈ کھانے کا اڈہ ہے۔ آپ جو چاہیں کھالیں۔ نہاری، کباب، کوفتہ، بریانی، افغانی سموسے، ایرانی چائے، ہانڈی کباب، فش فرائے، آپ کی گنتی ختم ہوجائے گی لیکن کھانوں کا نام ختم نہیں ہوگا۔ سسرال پرانی دہلی میں ہے،جہاں داخلہ کے ساتھ ہی کھانے کی خوشبو استقبال کرتی ہے۔ دونوں جگہوں کے مکینوں کو کھانے پر ٹوٹتا ہوا دیکھ کر یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کروں گا کہ مسلمان کھانے کے لیے ہی جیتا ہے۔ وہ بھوک مٹانے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا ہے، وہ زبان کے ذائقہ کے لیے ہی جیتا ہے۔ جینے کے لیے کھانے کا تصور مسلمانوں میں رائج نہیں ہے۔ کل ہی جب شاہین باغ کے ’قریشی کباب‘ ہوٹل میں زبان کے چٹخارے کے لیے داخل ہوا تو لوگوں کے پسینے زدہ چہرے دیکھ کر محسوس ہوا کہ ٹیبل جلد ہی خالی نہیں ہونے والی ہے۔ تبھی ایک ٹیبل سے آواز آئی، اے کباب ختم ہوگیا کیا؟ میرے ہی جیسے کسی شخص نے اس چلاہٹ میں اپنی دھیمی آواز ملاتے ہوئے کہا، ہاں جناب فلسطین بھی ختم ہوگیا۔
الیکشن کی گہماگہمی دہلی میں کجریوال کی گرفتاری سے شروع ہوگئی۔ شمالی ہند کے کسی بھی گوشے میں ٹرین، بس یا کسی اور سواری پر آپ سوار ہوکر نکلے اور الیکشن کی بات ہوئی تو کہیں سے ایک آواز نہیں سنائی دے گی کہ بی جے پی ہارنے والی ہے۔ ڈھابہ پر بحث چل رہی تھی کہ اس بار کنہیا جیت پائے گا کہ نہیں۔ کیوں کہ اب تو وہ کانگریس میں شامل ہوگیا ہے۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے میرے ایک دوست نے کہا کہ کنہیا؟ ارے راہل جیت پائے گا کہ نہیں؟ اس پر بات کرو۔ اس بار کا لوک سبھا الیکشن بس ایک روایتی موسم کی طرح آیا محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ای وی ایم میں ووٹ پڑے ہوئے ہیں ، بس الیکشن کی خانہ پری ہونی باقی ہے۔ میڈیا کو اپنا بناکر سرکار مطمئن ہے۔ اپوزیشن ایک دوسرے کا اپوز (مخالفت) کرنے میں مصروف ہے۔ سماج کے ہر طبقے کا کچھ نہ کچھ ووٹ بی جے پی کی جھولی میں گررہا ہے۔ بہار میں یادو تال ٹھوک کر کہتے ہیں کہ بی جے پی کو ہی ووٹ کرنا ہے۔ اکھلیش یادو کی پکڑ کمزور پڑگئی ہے۔ پسماندہ یا درج فہرست ذات بھگوا رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ پران پرتشٹھا یعنی رام مندر کے افتتاح کے موقع پر سب سے زیادہ نفرت انگیز نعرے اسی جگہ سے لگائے گئے جہاں امبیڈکر کی مورتیاں نصب ہیں۔ اور جہاں گاہے بگاہے پروگرام کرکے یہ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی آئین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ریزرویشن رد کرنے جارہی ہے۔ مگر اپنے ہی بیان اور خیالات کو وہ ای وی ایم کے سامنے جاتے ہوئے بھول جاتے ہیں اور ایک بار پھر مودی سرکار بنانے کے لیے کمربستہ ہےں۔
رہے مسلمان تو وہ مار بھی کھارہے ہیں اور کباب بھی۔ مسلمانوں کی مسلمانی دیکھنی ہے تو آپ کہیں نہ جائیں، سیدھے مسلم مورچہ کے دفتر چلے جائیں۔ وہاں آپ کو مسلمانوں کی بڑی بڑی ہستیاں نظر آئیں گی۔ کوئی اے ایم یو کے وائس چانسلر کی قطار میں ہوگا، کوئی جامعہ کی۔ کوئی کسی ادارے کے ڈائریکٹر کے لے لائن میں ہوگا، کوئی کسی عہدے کو ہتھیانے کے لیے ڈنڈوت ہوگا۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا شاید کہ تمام مسلمان اپنا عقیدہ بھول گئے ہیں مگر جب بڑی بڑی شخصیات کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں تو اس کا اثر اس کی قوم پر پڑنا واجب ہوتا ہے۔ ادھر اڑتی اڑتی خبر یہ بھی ملی کہ سنگھ کا اعلیٰ سطحی دانشورانہ طبقہ بی جے پی میں شامل ہونے والے مسلمانوں سے ناراض چل رہا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں پارٹی میں ایسا مسلمان چاہےے جو مسلم شناخت کے ساتھ ہمارے ساتھ رہے نہ کہ جے شری رام کا نعرہ لگانے والے اور نہ ہی مسلمانوں کو ہی گالیاں دینے والے۔ انہیں اب ایسے مسلمان کی تلاش ہے جو بی جے پی کا آئیڈیالاگ بن سکے۔
عام مسلمانوں کے لیے رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے۔ کچھ لوگ روزہ رکھ رہے ہیں، کچھ لوگ روزہ کو بہلا رہے ہیں، یعنی کچھ لوگوں کا روزہ روزہ ہے، کچھ لوگوں کا روزہ روز جیسا ہے۔ کچھ لوگ عبادت میں مشغول ہیں اور کچھ لوگ عبادت کے بہانے کسی اور چیز میں مشغول ہیں۔ روزہ کی نیت اور اس کی اہمیت میں بھی اب بہت زیادہ فرق دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سماج کی زورزبردستی، معاشی تنگ حالی اور مستقبل کی تاریکی نے مسلمانوں کو پھر اس دور میں لاکھڑا کردیا ہے جب داستانیں لکھی جاتی تھیں اور فرصت کے اوقات میں اسے پڑھا بھی جاتا تھا۔ یہ وہی دور ہے جب میر اور مرزا نہار منھ شطرنج بچھا لیا کرتے تھے اور ان کے بادشاہ اور وزیر ملک کو فتح کرنے کا خواب دیکھتے رہتے تھے۔ مسلمانوں میں دین کے تعلق سے تمام چیزیں بس روایتی ہی رہ گئی ہےں۔ ایسے میں عالمی تناظر میں بھی مسلمانوں کی حیثیت کا خاتمہ صاف طور پر نظر آرہا ہے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: