✍️ ظفر امام قاسمی، دارالعلوم بہادرگنج
______________
. یوں تو جامعہ لطیفیہ للبنات گوپالپور کے مہتمم حضرت قاری آزاد حسین صاحب مدظلہ سے قریبی قُربت ہونے کی بنا پر میرا آپ کے ادارے میں آنا جانا لگا رہتا ہے،مگر 24/فروری 2024ء بروز اتوار میرا ادارے میں جانا ایک الگ ہی نوعیت کا حامل تھا،عرصے سے مہتمم صاحب اپنے یہاں کی بچیوں کا امتحان لینے کے لئے بلا رہے تھے،اور میری بھی یہ دیرینہ تمنا تھی،مگر موقع کی تنگ دامنی اور عدیم الفرصتی کی وجہ سے ہم دونوں کی یہ مشترکہ تمنا مذکورہ تاریخ میں بارآور ہو پائی۔
مجھ ناچیز کو ادارہ کے اندر تعلیم پا رہی چند طالبات پر مشتمل عربی اول کی جماعت کا امتحان لینا تھا،اور اس درسگاہ کی ساری ممتحنہ کتابیں مجھ سے ہی متعلق تھیں،صبح کے چائے ناشتہ کے بعد میں مذکورہ درسگاہ میں داخل ہوا،چند طالبات تپائیوں سے لگی بیٹھی تھیں، میرے داخل ہوتے ہی انہوں نے کافی سلیقے سے سلام کیا،بعدہ ان کا میں نے تحریری اور تقریری امتحان لینا شروع کیا،پہلے دوکتابوں کا تحریری امتحان لیا،پھر یکے بعد دیگرے کئی کتابوں کا تقریری امتحان لیا،جن میں نحو،صرف،فقہ و ادب اور فارسی و اردو کی کتابیں شامل تھیں، آغازِ امتحان میرے دل میں بار بار یہ خیال کروٹیں لے رہا تھا کہ محض چند سالوں پہلے شروع ہونے والے اس مدرسہ _کہ جس کی کل کائنات دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت اور کچھ خس پوش حجروں پر مشتمل ہے_ کی طالبات کیا خاک امتحان دیں گی،یہاں کے مہتمم کو پہاڑ جیسی ضروریات (جیسے درسگاہوں کی تعمیر،مزید پختہ دار الاقامہ کی تعمیر،چہار دیواری کا اعلی نظم،معلمات کی معقول تنخواہ کا بند و بست اور کھانے پینے کا عمدہ انتظام) اور ذمہ داریوں کے سامنے تعلیم کی طرف توجہ دینے کی کہاں فرصت رہےگی؟مگر میرے اس خیال کو چند طالبات پر مشتمل صفِ اول کی اس جماعت نے اوندھا کردیا،اپنے جوابات سے طالبات نے مجھے لاجواب کردیا،ابھی سوال پورا ہو نہیں پاتا کہ جواب حاضر کا منظر رونما ہوجاتا،جوابات میں ان کی خود اعتمادی،بھروسہ مندی اور تیقن نے مجھے مزید ورطۂ حیرت میں ڈال دیا،ان میں ایک طالبہ (جو غالبا مہتمم صاحب کی بھتیجی تھی) ایسی ذہین اور فطین تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی ذہین بچی بہت ہی کم دیکھی ہے،اس کے تقریری امتحان کے ساتھ اس کا تحریری امتحان بھی اس کی بیدار مغزی،حاضر دماغی اور فطانت کا منہ بولتا تصویر تھا، ویسے تو تمام ہی طالبات نے عمدہ انداز میں جوابات لکھے اور بتائے تھے مگر اس بچی کا انداز ہی جداگانہ تھا،اس کی کاپی پر اس کی عمر اور تجربہ کے لحاظ سے اس کے جوابات کی صورت گری دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا،اس بچی کو نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے کسی کتاب میں 101 نمبر دینے پڑے،یہ اب تک میرا دیا ہوا سب سے اعلی نمبر ہے،غرض یہ کہ مجھے اس چھوٹی سی چہار دیواری کی خاک میں لعل و گہر کے ایسے خزانے مدفون ملے کہ اگر ان خزانوں کی صحیح طور سے نگرانی کی جائے تو آگے چل کر یہ خزانے بےرہ رو قوم کا دھارا بدل سکتے ہیں اورقوم کی ماں اور بیٹی کی منجدھار میں ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارا لگا سکتے ہیں،معلوم چلا کہ ان کو پڑھانے والوں میں ان کے مہتمم صاحب کا بھی بڑا حصہ ہے،کئی کتابیں انہی سے متعلق ہیں،یہ بات میرے لئے اور بھی تعجب خیز تھی کہ ایک اکیلا بندہ اتنی ساری ذمہ داریوں کو انجام دینے کے بعد بھی کیسے اپنے آپ کو درسیات کے لئے وقف کر رکھا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں، شجرِ اسلام کی شادابی اور اس کی رخشندگی انہی مدارس کی مرہونِ احسان ہے،اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو اس جہانِ خراب میں اسلام کا نام و نشان کب کا مٹ چکا ہوتا،آج باطل کی پرزور آندھیوں اور فسطائی طاقتوں کے سایے میں اسلام کا درخت جو پوری شان و سطوت کے ساتھ جھوم رہا ہے وہ انہی مدارس کی دین ہے،تاریخ کے ہر دور میں مدارس نے ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح لڑکوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرانا ضروری ہے اسی طرح لڑکیوں کو بھی اس سے سنوارنا ناگزیر ہے،اور آج جب کہ ارتداد کی لہریں ہماری بہن بیٹیوں کو اپنے بہاؤ میں سمو رہی ہیں،مغربی تہذیب و کلچر اور مختلط تعلیمی نظام نے ان سے حیا اور شرم کی ردا اتار لی ہے،ایسے میں بہن بیٹیوں کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانا اور بھی ضروری ہوگیا ہے،اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ چیز گھر میں رہ کر حاصل نہیں ہوسکتی،اس کے لئے ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو اختلاط سے بالکلیہ پاک اور صاف ہو،ان کی چہار دیواریوں کے اندر صرف لڑکیاں ہی محصور ہوں،جہاں ان کی ماہر معلمات کی نگرانی میں پڑھنے لکھنے اور کھانے پینے کی مکمل سہولت ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے علاقہ بہادرگنج اور ٹیڑھاگاچھ میں ایسے مدارس کا اب تک فقدان ہے،جن کی ضرورت کافی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس علاقے میں دیگر علاقوں کی بہ نسبت لڑکیوں میں دینی تعلیم کا رجحان کم ہے،صبح صبح جب لڑکیاں لڑکوں کے جھنڈ میں سائیکل پر سوار ٹھٹھا مارتی ہوئی اسکولوں اور کالجوں کا رخ کرتی ہیں تو یہ دیکھ کر دل پر ایک کاری ضرب لگتی ہے،کیونکہ ایک لڑکی کا غلط راستے کی طرف یہ پہلا قدم ہوتا ہے،خدا جزائے خیر دے برادرِ بزرگوار جناب قاری آزاد حسین صاحب مدظلہ کو کہ آپ نے اس ضرورت کو شدت کے ساتھ نہ یہ کہ صرف محسوس کیا بلکہ آپ اس پر عمل در آمد ہونے کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔
15/اگست 2018ء کا وہ ایک مبارک دن تھا جب اکابرین اور بزرگانِ دین کے ہاتھوں بہادرگنج کشن گنج والے روڈ سے نصف کیلو میٹر دکھنی جانب نٹواپارہ اور شکور کے بیچ موضع گوپالپور میں مولانا کے والد کی کئی بیگھہ پر مشتمل وقف شدہ زمین پر اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی،جس جگہ یہ ادارہ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ایستاد ہے وہ جگہ شہری آلودگیوں سے دور خالص دیہات میں واقع ہے،اس کی چاروں سمت ہرے بھرے کھیت لہلہاتے نظر آتے ہیں،انہی ہریالیوں کے بیچ پودے کی شکل میں اس جامعہ کی بنیاد رکھی گئی،پھر قاری آزاد صاحب مدظلہ کی چابک دستیوں نے اس پودے کی آبیاری شروع کی،دیکھتے ہی دیکھتے بہت ہی تھوڑے عرصے میں وہ پودا ایک تناور اور سایہ دار درخت کا روپ اختیار کر گیا،آج اس درخت کے سایہ تلے سینکڑوں طالبات اپنی علمی تشنگی دور کر رہی ہیں۔
قاری آزاد صاحب کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں،آپ ایک مرنجا مرنج،بذلہ سنج،زندہ دل اور ظریف الطبع انسان ہیں،محنت و ریاضت آپ کے خاکی وجود میں گتھی ہوئی ہے،ادارے کے قیام سے اب تک آپ تنِ تنہا ہی اس کی ساری ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مصروف ہیں،آپ کے پاس وسائل کی کمی کے ساتھ افراد کی بھی کمی ہے،آپ کے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں،آپ جو بھی کرتے ہیں اپنے دم پر کرتے ہیں،اس کے باوجود ادارے کا اس تیزگامی سے ترقیاں بٹورنا آپ کے بلند جذبہ اور اور اعلی اخلاص کی طرف مشیر ہے،مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جامعہ کی ترقی میں معلمات کی محنت اور ان کی سعی پیہم بھی ہمیشہ مہتمم صاحب کے ہمرکاب رہی جب ہی جاکر ادارہ اس مختصر سے اس بام عروج پر پہونچ سکا ہے۔
جامعہ لطیفیہ للبنات کی اہمیت اس وجہ سے بھی کافی زیادہ ہے کہ اس پورے علاقے میں بنات کا ایک بھی مدرسہ نہیں ہے،ایسے میں جامعہ لطیفیہ مقدور بھر اپنا کام کرکے پورے علاقے کی طرف سے کفارہ ادا کر رہا ہے،لیکن جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا کہ جامعہ لطیفیہ کے پاس وسائل کے ساتھ افراد کی بھی کمی ہے،جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں علاقے کی بچیاں واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوتی ہیں،ادارہ کے مہتمم صاحب اس کے لئے کافی درد مند دکھائی دیتے ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ میرے پاس اتنی وسعت ہو کہ میں کسی کو واپس نہ کروں، سالِ رواں دارالاقامہ میں پچاس سے زائد طالبات مقیم تھیں،جن کی کفالت کا مکمل بند و بست جامعہ لطیفیہ نے کیا، جامعہ لطیفیہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں زیادہ فیس کی مانگ نہیں ہوتی،جس کی جتنی خوشی ہوتی ہے اتنی رکھ لی جاتی ہے باقی کا صرفہ جامعہ لطیفیہ برداشت کرتا ہے،اس لئے اہلِ ثروت حضرات سے دردمندانہ درخواست کی جاتی ہے کہ ہر موقع سے جامعہ لطیفیہ کا تعاون کریں تاکہ یہ ادارہ روز افزوں ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور اس سے پورا علاقہ خوب سے خوب سیراب ہو۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ادارے کو قبول کرے،مہتمم صاحب کو استقامت عطا کرے اور اس کی جملہ ضروریات کا اپنے خزانۂ غیب سے تکفل فرمائے۔۔ آمین