✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
_________________
مہاراشٹر نونرمان سینا ( منسے) کے سربراہ راج ٹھاکرے کی گڈی پاڈوا کے موقعے کی تقریر نے ایک ساتھ کئی حلقوں کو مایوس کیا ہے ۔ ان کی تقریر سے ’ منسے ‘ کے ورکروں کی بھاری تعداد مایوس ہوئی ہے ، پارٹی کے عہدیدار مایوس ہوے ہیں ، اس قدر مایوس کہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کرتی کمار شندے نے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ ’ منسے ‘ کے مہاراشٹرین ووٹر مایوس ہوے ہیں ، بلکہ الجھن کے شکار بنے ہیں کہ لوک سبھا کے الیکشن میں وہ کریں تو کیا کریں ! مہاراشٹر کی عام جنتا بھی مایوس ہوئی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے کئی سوال داغ کر مہاراشٹر ین عوام کی مایوسی اور غصے کو اور ہوا دی ہے ۔ شیواجی پارک کے کھچاکھچ بھرے وسیع و عریض میدان میں راج ٹھاکرے کے اس اعلان سے کہ ’ منسے لوک سبھا کا الیکشن نہیں لڑے گی ،، مگر وہ مودی کی بلاشرط حمایت کرے گی ‘، ایک سناٹا چھا گیا تھا ۔ ’ منسے ‘ کے ورکر اور عہدیدار راج ٹھاکرے کی زبان سے یہ سُننے کے لیے جمع ہوے تھے کہ ’ ایم پی کا الیکشن لڑا جاے گا اور جم کر لڑا جاے گا ، چاہے بی جے پی گٹھ جوڑ کرے یا نہ کرے ‘، وہ مودی کی بلا شرط حمایت کا اعلان سننے کے لیے نہیں جمع ہوے تھے ۔ مودی کی بلا شرط حمایت کو مراٹھی افراد کی اکثریت مہاراشٹر کی اسمتا ( عزت) سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے ، اور یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ راج ٹھاکرے نے جن مراٹھیوں کی اسمتا کے لیے سیاسی پارٹی کا قیام کیا تھا ، انہیں وہ اب کیوں بھول رہے ہیں؟ اس سوال کی بنیاد میں وہ صنعتیں اور انڈسٹریاں ہیں جنہیں مہاراشٹر سے چھین کر گجرات بھیج دیا گیا ہے اور اس طرح مراٹھی مانوس ( عوام) کی روزی روٹی پر لات ماری گئی ہے ۔ کیرتی کمار شندے نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ بی جے پی ، مودی اور شاہ کی تریمورتی نے مہاراشٹر کو کچھ نہیں دیا ہے، برباد کیا ہے ، اور بی جے پی کی حمایت کر کے ممکن ہے کہ پاؤر پالیٹکس میں ’ منسے ‘ کو فائدہ ہوجائے لیکن مہاراشٹر اور مہاراشٹر کے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔ سنجے راؤت نے چار سوال پوچھ کر راج ٹھاکرے کو مراٹھی عوام کی عدالت میں لاکر کھڑا کر دیا ہے ؛ مہاراشٹر نونرمان سینا کیوں نمو نرمان سینا بن گئی ہے؟ راج ٹھاکرے کیوں مودی کی حمایت کر رہے اور انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟ ان کی کون سی فائل کھلی ہے اور کیوں انہوں نے اس طرح ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ وہ جنتا کو جواب دیں ۔ ان سوالوں سے راج ٹھاکرے کی حیثیت مشتبہ کی سی ہو گئی ہے کہ شاید انہوں نے کوئی بڑا گھپلا کیا ہے اور مودی حکومت کے سامنے وہ ای ڈی اور سی بی آئی کے ڈر سے جھک گیے ہیں ۔ لوگوں کی مایوسی کا ایک سبب بی جے پی کی مہاراشٹر کی سیاسی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ اور پھوٹ ڈالنے کی پالیسی بھی ہے ۔ راج ٹھاکرے نے کبھی کہا تھا کہ لوگ اس سیاسی پارٹی کو ووٹ نہ ڈالیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کو توڑنے کا کام کرے ، اور اب وہ خود ایسی ہی ایک سیاسی پارٹی بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں اور اپنے ورکروں اور ووٹروں سے بھی حمایت کی اپیل کر رہے ہیں ! اگر راج ٹھاکرے کی پارٹی ایم پی کا الیکشن نہ بھی لڑتی اور کسی کی حمایت یا مخالفت کا اعلان کیے بغیر راج ٹھاکرے خاموش رہتے ، تب بھی ان کے لیے اچھا ہوتا ، لیکن مودی کی حمایت کا اعلان کرکے وہ پھنس گیے ہیں ، ان کا ’ مہاراشٹر کی اسمتا ‘ کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوگیا ہے ۔ ان کی تقریر میں تضادات ہیں ، وہ اپنی ہی کہی ہوئی پچھلی کئی باتوں سے اختلاف کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ بی جے پی یہ سمجھ رہی ہے کہ ایک ٹھاکرے کو اپنے ساتھ کر کے اس نے تیر مار لیا ہے ، لیکن راج ٹھاکرے اس کے لیے ادھو ٹھاکرے کی طرح تُرپ کا پتہ نہیں ثابت ہو سکتے ۔ بی جے پی مراٹھی ووٹروں سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہے ، اور اتربھارتیوں و جنوبی ہند کے ووٹروں سے بھی جو راج ٹھاکرے کی تشدد کی سیاست کا کئی بار نشانہ بن چکے ہیں ۔ راج ٹھاکرے اپنے ورکروں ، عہدیداروں اور مراٹھی ووٹروں کی مایوسی اور غصے سے پریشان ہیں ، اتنا ہی نہیں انہیں بی جے پی کے علاوہ کوئی سیاسی پارٹی پوچھ نہیں رہی ہے ، اس لیے سیاسی تنہائی کے شکار بھی ہیں ہیں ۔ بہرحال ان کے لیے اور بی جے پی دونوں کے لیے مہاراشٹر میں لوک سبھا کا الیکشن آسان نہیں ہے ۔