✍️ سید شعیب حسینی ندوی
_________________
ایران نے اپنے اسلامی انقلاب کے بعد پوری تاریخ میں پہلی دفعہ براہ راست اسرائیل پر کل کی شب حملہ کیا ہے، بلکہ وہ مجبور ہوگیا یہ حملہ کرنے کے لیے، اس کے پاس دوسرا راستہ نہیں بچا تھا، سیکڑوں بم، ڈرون اور میزائل اس نے داغے ہیں، اسرائیل کے بیان کے مطابق نوے فیصد وہ ناکام رہے، ایک مقام پر جو عسکری اڈہ ہے اس میں کچھ معمولی سا نقصان ہوا، لیکن کسی جانی نقصان کی خبر نہیں آئی، کئی میزائل تو عراق اور اردن کی فضا میں اسرائیل پہنچنے سے پہلے ہی گرا دیے گئے۔
اس حیثیت سے اس حملہ کی اہمیت بہت ہے کہ شرق اوسط میں اسرائیل سے جنگ کی آگ فلسطین سے نکل کر لبنان کے سوا دوسرے ملکوں تک منتقل ہو گئی ہے اور یہ علاقائی بڑی جنگ کی صورت میں بدل سکتی ہے، کیونکہ اگر براہ راست اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو دو طرفہ بھاری اسلحوں کی جنگ ہوگی اور اسرائیل داخلی جنگ حماس سے مزید نہیں لڑ سکے گا اور اگر امریکہ فوجی کاروائی کرتا ہے تو وہ کسی عرب ملک کو استعمال کر کے ہی ایسا کرے گا جس سے مزید آگ عرب ملکوں میں بھڑک اٹھے گی، لیکن دوسری طرف حملہ کی نوعیت اور مقابلہ کی قوت کی حیثیت سے یہ کوئی بہت بڑی کاروائی ثابت نہیں ہوئی، اور جبکہ ایران نے یہ کاروائی کر کے ہاتھ روک لیے ہیں اس دھمکی کے ساتھ کہ اگر اس پر پھر سے حملہ ہوا تو وہ اور سخت رد عمل دکھائے گا اور اس قدر حملے کو کافی سمجھ لیا ہے دمشق میں اپنے قونصلیٹ پر حملے کا بدلہ لینے کے لیے۔
امریکہ نے سکون کی سانس لی ہے کہ اسرائیل میں کچھ خاص نقصان نہیں ہوئی اور اس کی ڈپلومیسی عرب ملکوں کے ساتھ کامیاب رہی، اسی لیے وہ اسرائیل کو ایران پر کسی بھی فوجی حملہ سے روک رہا ہے اور یقین دلا رہا ہے دیگر ذرائع سے ایران کو جواب دیا جائے گا اور دباؤ بنایا جائے گا، اسرائیل بھی غزہ کی لمبی جنگ کے دوران امریکہ کو منا کر رکھنا چاہتا ہے اور اسے ایسا لگ رہا ہے کہ جو ہمدردی اس سے غزہ میں وحشیانہ جنگ کے بعد مغربی ملکوں کی ختم ہو گئی تھی وہ دوبارہ ایران کے حملے کے عنوان سے حاصل کی جاسکتی ہے اور پھر سے وسیع اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے اور اپنی گری ہوئی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے اور تجربات بھی اسی کے گواہ ہیں کہ ایران امریکہ و اسرائیل سے فلسطین کی خاطر بڑی جنگ مول نہیں لے گا، وہ اپنے معاشی مفادات کے لیے اور مشرق وسطی میں اپنے اثر کو بڑھانے کے لیے روس کا سہارا لے کر شام و عراق میں لمبے پیر پسار چکا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ بات آگے بڑھی تو عرب ملک امریکہ کو ایران کے خلاف اپنی زمین دینے میں دریغ نہیں کریں گے، دوسری طرف امریکہ بھی اتنے محاذوں پر پھنسا ہوا ہے کہ راست ایران سے جنگ نہیں چھیڑنا چاہتا، وہ تائیوان وغیرہ کی طرف اپنی فوجی طاقت لگائے ہوئے ہے، چین کے لیے میدان خالی کر کے خود مشرق وسطی میں گھر جانے سے ڈرتا ہے، اگر اسے کچھ کرنا ہی ہوتا تو شام میں روس کی جڑیں مضبوط ہونے نہیں دیتا اور ایران کو نظام کے ساتھ مل کر دندنانے کا موقعہ دیے بغیر عراق میں اپنے فوجی اڈہ کا استعمال کر کے ان کی کمر توڑ سکتا تھا۔
ایسا لگتا ہے ایران کو بہت زیادہ دلچسپی اس میں نہیں ہے کہ اسرائیل سے جاری فیصلہ کن جنگ میں کوئی بڑا رول ادا کرے اور کھلی عسکری معاونت حماس کو دے۔ وہ شام میں اپنے اثر ورسوخ کو کم نہیں ہونے دینا چاہتا اور عالم اسلام میں اپنی وہ ساکھ برقرار رکھنا چاہتا ہے جو فلسطین کی حمایت اور مسجد اقصی کی آزادی کی جد و جہد کے نام پر اس نے بنائی ہے۔
اب آئندہ کے حالات مزید غبار ہٹائیں گے اور پردہ اٹھائیں گے کہ یہ جنگ کیا نتائج برآمد کرتی ہے اور حماس کی حالیہ جنگ میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔