تلنگانہ لوک سبھا انتخاب اور سروے رپورٹ کے انکشافات
✍️ سید سرفراز احمد
_____________
تلنگانہ میں بروز پیر یعنی صرف ایک دن بعد 17 لوک سبھا حلقوں کی رائے دہی ہونے جارہی ہے رائے دہندوں میں جوش و خروش بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اگر چہ تلنگانہ میں کانگریس اور بی جے پی دورخی مقابلہ متوقع ہے لیکن رائے دہی حاصل کرنے میں بی آر ایس بھی پیچھے نہیں ہے اسی انتخابی ضمن میں نیوز 18 نے ایک اوپینین پول جاری کیا ہے جسمیں رائے دہی کےکل تناسب میں سے کونسی پارٹی کتنا ووٹنگ فیصد حاصل کررہی ہے اور یہ بھی قیاس کیا گیا کہ تلنگانہ میں کونسی پارٹی کتنی نشستیں حاصل کرسکتی ہیں نیچے جو گراف کی شکل میں رائے دہی کے تناسب کے ساتھ نیوز 18 نے پیش کیا ہے اس پر ہم تھوڑا سا غور کریں گے نیوز 18 نے بتایا کہ تلنگانہ میں جملہ 17 پارلیمانی حلقے موجود ہیں ایک گراف میں یہ بتایا گیا کہ تلنگانہ کے 17 حلقوں میں سے بی جے پی 8 کانگریس 6 بی آر ایس2 اور ایک مجلس اتحادالمسلمین کو حاصل ہونے کی توقع ظاہر کی ہے دوسرے گراف میں بتایا گیا کہ رائے دہی کا تناسب کونسی پارٹی کو کتنا مل رہا ہے جو چونکا دینے والا ہے یعنی رائے دہی کے کل تناسب میں سے سب سے ذیادہ تناسب کانگریس پارٹی کو 34 فیصد مل رہا ہے بی جے پی یعنی این ڈی اے کو 28 فیصد اور بی آر ایس کو 27 فیصد تناسب مل رہا ہے یہاں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہیکہ کانگریس سب سے ذیادہ 34 فیصد ووٹنگ شیئر حاصل کرنے کے باوجود 6 نشستیں محفوظ کرنے کا قیاس لگایا جارہا ہے جبکہ بی جے پی این ڈی اے 28 فیصد ووٹنگ شیئر لیکر بھی سب سے ذیادہ8 نشستوں پر قبضہ جمانے کا قیاس لگایا جارہا ہے اسی طرح بی آر ایس 27 فیصد ووٹنگ شیئر لیکر بھی صرف دو نشستوں تک محدود رہنے کا قیاس کیا جارہا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ووٹرس کی تقسیم کہاں ہورہی ہے؟یعنی بی آر ایس رائے دہی کا اچھا تناسب حاصل کرنے کے باوجود بھی صرف دو نشستیں حاصل کررہی ہیں جبکہ بی جے پی قریب قریب وہی تناسب حاصل کرتے ہوئے 8 نشستوں تک پہنچنے کا قیاس ہے اگر ہم نیوز 18 کے اس سروے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آرہی ہیکہ گویا کہ بی آر ایس پارٹی کی جانب رائے دہندوں کے جھکاؤ کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جسکی وجہ سے کانگریس کی نشستیں کم اور بی جے پی کی نشستیں بڑھنے کے امکانات ہوسکتے ہیں خاص کر سکندرآباد،چیوڑلہ،ملکاجگری،نظام آباد،کریم نگر کے پارلیمانی حلقوں میں یہ صورتحال پیش آسکتی ہے اس ضمن میں بالخصوص ان پارلیمانی حلقہ جات میں ہماری یعنی مسلمانوں کی یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ہمارے ووٹ تقسیم نہ ہوں اور ہماری رائے دہی صد فیصد ہوں تب ہی ہم یہاں سے زعفرانی تنظیم کو آنے سے روک سکتے ہیں ورنہ جو سروے رپورٹ کے انکشافات سامنے آئے ہیں اس قیاس کو حقیقت میں بدلنے دیر نہیں لگے گی۔