سلام بن رزاق : سوئے عدم ہوئے
اردو افسانے کا ایک چراغ اور بجھا
✍️ احمد سہیل
__________________
میرے درینہ دوست سلام بن رزاق کی رحلت سے بھی تکلیف ہوئی ، اللہ پاک انھیں غریق رحمت کرے ۔ وہ ایک عمدہ فکشن نگار ، مترجم تھے، ادبی اور علمی اسٹیج پر ان کی نظامت بہت اعلی ہوتی تھی۔ وہ ادیبوں کی تخلیقات اور ان انکے سراپے کا تعارف بہت دلچسپ اورتخلیقی پیرایے میں بیان کرنےکا بہت اچھا ہنر جانتے تھے۔ وہ یہ سب کچھ منچ یا اسٹیج پر دروان پروگرام ہی لکھا کرتے تھے۔ سلام بن رزاق شیخ عبدالسلام عبدالرزاق کا قلمی نام تھا، جو 1941 میں مہاراشٹر،میں پنول میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1960 میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی جبکہ دو سال بعد ان کی پہلی مختصر کہانی ادبی میگزین شاعر میں شائع ہوئی تھی۔
معروف اردو افسانہ نگار اور استاذ سلام بن رزاق کا نوی ممبئی میں7 مئی 2024 کو انتقال ہوگیا، ان کی عمر 83برس تھی مرحوم طبعیت کافی عرصے ناساز چلی آرہی تھی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ،ایک بیٹی ،ایک بیٹا ،پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں ان کی تدفین بعد نماز مغرب بڑے قبرستان مرین لائنز میں پابند زمیں ہوئے ۔ اردو کے نابغہ روز گار قلم کار سلام بن رزاق کا تعلق شہر ممبئی سے تھا۔حالانکہ ان کا آبائی وطن خطہ کونکن تھا۔ ایک عرصہ تک ممبئی میونسپل کارپوریشن کے اسکولوں میں بطور معلم فرائض انجام دیتے رہے۔ ممبئی معروف محلے کرلا، قریش نگر میں زندگ یبسر کی اور پھروہاں سے میراروڈ کو اپنا مسکن بنایا۔
سلام بن رزاق نے ہندی مراٹھی اور اردو سے معکوس ترجمہ نگاری کی ۔ بال بھارتی کی لسانی و نصابی کمیٹی کے اہم رکن رہے۔ ان کی کل 22 کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جن چار افسانوی مجموعے ‘ننگی دوپہر کا سپاہی’، ‘معبر ‘، ‘شکستہ بتوں کے درمیاں ‘ اور ‘زندگی افسانہ نہیں ‘ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح ‘ ننھے کھلاڑی’ (بچوں کا ناول) ‘ماہم کی کھاڑی’ (مراٹھی ناویل کا ترجمہ )، ‘جی اے کلکرنی کی کہانیاں ‘ (مراٹھی سے ترجمہ شدہ کہانیاں ) اور ‘عصری ہندی کہانیاں’ (ہندی سے ترجمہ شدہ کہانیاں ) جیسی کتابیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔ وہ منصب درس و تدریس سے وابستہ تھے اور سبکدوش ہو کرپہلے میراروڈ ،تھانے اور پھرنوی ممبئی میں منتقل ہوگئے اور وہیں اپنی بیٹی کے مکان میں راہی ملک عدم ہوئے۔
ان ک افسانوی آفاق 70 کی دہائی کے بعد ابھرنی والی ممبئی کے ان کہانی کاروں کی نسل سے تھا۔ جس میں ترقی پسندی اور جدیدیت کا حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ حاشیائی مزاج کے تحت کہانیاں لکھتے تھے۔ جو کی ثقافتی بشریات اور عمرانیات کا ایک نادر تصور ہے۔ ان کے افسانوں میں معاشرتی فرد کی دہشت، لاچارگی، تناو اور منافقت کے موضوعات بکھرے ہوئے ہیں۔ سلام بن رزاق نے ایک فرد کے لیے پورے معاشرتی حسیّت کی کہانیاں لکھی تو پورے سماج اس میں سمٹ آتا تھا۔ ۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہر طور، ہر صورت انسانیت ہی کی کہانی سنائی ـ ان کے افسانوں کے عام کرداروں نے انہیں عام آدمی کا خاص کہانی کار بنا دیا ہے۔ان کے اہم افسانوں میں: زندگی افسانہ نہیں ۔۔۔ دہشت ۔۔ ایکلویہ کا انگھوٹھا۔۔ باہم ۔۔۔ ندی ۔۔۔ انجام کار ۔۔۔ مسیحا ۔۔۔ لزت گریہ ۔۔۔ آخری کنگورا ۔۔۔ حلالہ۔۔۔ آدمی اور آدمی ۔۔ کام دھینو ۔۔۔۔ منقار۔۔۔ سگنل ۔۔۔ دردندہ ۔۔۔ استخرغ ۔۔۔۔ کلہاڑی ۔۔۔ گیت ۔۔۔ بڑے آدمی کا قد ۔۔۔ نادر نے کہا ۔۔ بٹوارہ ۔۔۔ سبق ۔۔۔ لافٹر شو۔ دی پراڈ گل سن ۔ ۔دھرماتا ۔۔۔۔۔۔ یہ دھوں سا ۔۔۔ اور ایک جھوٹی۔ سچی کہانی شامل ہیں۔ سلام بن رزاق ایک اچھے افسانہ نگار ہونے کے علاوہ ایک بہتریں ڈرامہ نویس بھی تھے۔ انھون نے اپنی ایک کہانی * کام دھینو* پر ایک ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ انھوں نے پانچ ٹیلی فلمیں اور تین فیچر فلمیں بھی تحریرکی ۔ میری سلام بن رزاق کے ہمراہ یہ تصویر23 فروری2013 کی ہے جب ممبئی میں سعادت حسن منٹو کی 100 وین سالگرہ پر ایک سیمنار میں سلام بھائی نے میرے ایک مضمون* منٹو اور نئی نئی نو آبادیات* پر اپنا تجزیہ پیش کیا تھا۔
مثل انور سحر مرقد فروزان ہو تیرا
نورسے معمور یہ خاکی بشبتان ہو تیرا