وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
✍️ سید سرفراز احمد
________________
لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کی رائے دہی کے بعد جسطرح کے رجحانات سامنے آئے ہیں شائد اس سے بھاجپا کے سیاسی گلیاروں میں ایک طرح کی کھلبلی مچ گئی ہے اور جسطرح کی بوکھلاہٹ بھاجپا میں نظر آرہی ہے اس سے یہ قیاس لگایا جاسکتا ہیکہ بھاجپا کا مذہبی سیاسی کارڈ کچھ حد تک پھیکا پڑچکا ہے تب ہی انکے پیروں تلے زمین کھسک گئی جسکی وجہ سے مودی کو غیر محسوس انداز میں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ نہ تو سب کا ساتھ نہ وکاس اور نہ ہی وشواس جیتنا چاہتے ہیں جسکا مطلب صاف ہیکہ یہ نعرہ صرف ایک فرضی تھا جو دنیا کو یہ بتانے کیلئے دیا گیا تھا کہ مودی حکومت بھارت میں تمام طبقات کو ساتھ لیکر چل رہی ہے لیکن کبھی بھی مودی حکومت اس نعرے پر کھرا نہیں اتر سکی بلکہ اسکے برعکس عملی کاموں کو انجام تک پہنچایا گیا مودی بار بار یہ کہتے نہیں تھکے کہ بھارت کی ایک سو چالیس کروڑ عوام میرا ایک پریوار ہے جبکہ انکا یہ رویہ ہمیشہ سے متضاد ہی رہا یہ منافقت کا اعلی درجہ انکے دور اقتدار میں ہمیشہ سے قائم رہا ہے ہمیشہ صرف یہ ہوتا تھا کہ بھاجپا کے قائدین فرقہ پرستی کو پھیلانے میں ملوث ہوتے تھے جبکہ مودی مگر مچھ کے آنسو بہانے کا ڈرامہ کرتے تھے تاکہ پورے بھارت اور دنیا کو یہ پیغام جائے کہ مودی حکومت تمام طبقات کو لیکر چلتی ہے اسکے علاوہ مودی وزیراعظم کی کرسی پر براجمان جو تھے لیکن جس طرح ڈھلتا سورج آگ بگولہ ہوجاتا ہے بالکل مودی بھی اپنے زوال کے آثار کو شائد قریب سے دیکھ رہے ہوں تب ہی نہ وزیراعظم کی کرسی کا لحاظ کیا گیا نہ اس عہدے کی ساکھ باقی رکھی گئی۔
راجستھان میں نریندر مودی نے جھوٹ کی للکار اور ملک کے مسلمانوں کے خلاف کھل کر زہر افشانی کرتے ہوئے مسلمانوں کو دراندازی یعنی گھسپیٹی اور ذیادہ بچے پیدا کرنے والے جیسے دلسوز منفی القاب کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی توہین کی منگل کے روز مودی راجستھان کے بانسواڑہ میں کانگریس پارٹی کے منشور کا جھوٹا حوالہ دے کر کہا کہ کانگریس پارٹی سازش کر رہی ہے کہ وہ ہندوؤں کی جائیداد لے کر اسے اپنے "خاص لوگوں” یعنی مسلمانوں میں تقسیم کردے گی انھوں نے مزید کہا کہ کانگریس کا منشور یہ کہہ رہا ہیکہ وہ ماؤں اور بہنوں کے سونے کا بھی حساب کریں گے اور اسکی جانکاری لیتے ہوئے مسلمانوں میں تقسیم کریں گے اور کہا کہ سابق میں منموہن سنگھ کی حکومت نے کہا تھا کہ جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے بھائیوں اور بہنوں یہ اربن نکسل سوچ آپ کا منگل سوتر بھی بچنے نہیں دے گی جبکہ سیاسی مبصرین نے منموہن سنگھ کی باتوں کا سچ سوشیل میڈیا پر منظر عام پر لایا جسمیں کوئی بھی ایسے الفاظ نہیں ملتے بلکہ تمام طبقات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کے اقلیتوں کو بھی ترقی کی اول صف میں کھڑا کرنے کا تذکرہ ملتا ہے یعنی ایک سیکولر ملک کے وزیر اعظم نے تمام طبقات کو ایک صف میں کھڑا کرنے کا عزم کیا تھا جسکا مودی نے دروغ گوئی سے کام لیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہیکہ مودی نے اب کی بار چار سو پار کی آس میں جھوٹ کا آسمان کھڑا کرنے کی پوری پوری تیاری کر رکھی ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہیکہ مودی نے اس بار اپنا گہری منافقت سے بھراچہرہ بھی پیش کرکے بتایا جسطرح سے راجستھان میں جھوٹ کے حدوود کو پار اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے اگلے ہی دن علی گڑھ میں مسلمانوں کیلئے جھوٹی ہمدردی کے گل نچھاور کیئے مودی نے کہا کہ انڈیا اتحاد اور کانگریس مسلمانوں کیلئے صرف منہ بھرائی کی سیاست کرتی ہے انڈیا اتحاد کی پارٹیوں نے مسلمانوں کے سماجی معاشی سیاسی بہبود کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا جب ہم پسماندہ مسلمانوں کا ذکر کرتے ہیں تو اپوزیشن کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں مودی کا یہ دو رخی چہرہ ملک کی عوام اور بالخصوص مسلمانوں کے سامنے کھل کر آگیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ مودی حکومت نے اپنے دور حکومت میں جتنے بھی فیصلے لیئے ہیں وہ صرف اور صرف مسلمانوں کو روندنے مسلم خواتین کے حقوق سلب کرنے اور شریعت میں مداخلت کرنے کیلئے لیئے ہیں ایک سوال یہ بھی ہیکہ مودی کو اب مسلمانوں کا کھل کر نام لینے کی ضرورت کیوں پڑگئی؟کیوں وہ جھوٹ کے حدود کو پھلانگ رہے ہیں؟چنانچہ اس سے متعلق ماہر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہیکہ پہلے مرحلے کی رائے دہی کے بعد مودی اور بھاجپا کا سیاسی حلقہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے کیونکہ بی جے پی رام مندر کا افتتاح کرکے چار سو پار کرنے کا قیاس لگاچکی تھی لیکن وہ اپنے اس منصوبے میں ناکام نظر آرہی ہے اسی لیئے اب بھاجپا کے پاس سیاست کرنے کیلئے کوئی اہم ایجنڈہ نہیں بچا ہے سوائے واپس ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کے،تب ہی اپنی اس بوکھلاہٹ کو کم کرنے اور مودی کے حق میں رائے دہی بڑھانے کیلئے مودی نے مسلمانوں کا سہارا لیا اور20 کروڑ مسلمانوں کے حق میں تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا اور کانگریس پر الزامات کی بونچھار لگادی لیکن اس جھوٹ کو کون سچ مانے گا سوائے ان اند بھکتوں کے جو فرقہ پرستی کو ملک کی ترقی سمجھتے ہوں مودی کی بوکھلاہٹ کی دوسری وجہ کانگریس کی پانچ گیارنٹی ہے جسکے سامنے مودی گیارنٹی پر عوام کو اعتماد نہیں ہے کیونکہ کانگریس نے کرناٹک اور تلنگانہ میں اپنی دی گئی ضمانتوں کو پورا کیا جسکا ایک مثبت پیغام پورے ملک میں پہنچ گیا چونکہ پچھلے دس سالوں میں مودی حکومت نے سوائے تنازعات کو چھیڑنے کے علاوہ کوئی بھی عوامی مفادات کیلئے کام نہیں کیا جس سے بے روزگاری مہنگائی غریبی میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلاگیا اب چونکہ کانگریس کی پانچ ضمانتیں جو بالکل غریب و متوسط طبقہ کے ہر گھر کو فائدہ پہنچانے والی ہے جس سے عوام میں ایک جوش اورولولہ بھی نظر آرہا ہے یہ اچھی بات ہیکہ کانگریس مودی حکومت کی ناکامیوں اور اپنے عزائم کو عوام کے سامنے رکھ رہی ہے جبکہ بھاجپا اور مودی صرف 80 بنام 20 ,ہندو مسلم ,مندر مسجد,کی سیاست میں سرگرم عمل ہے۔
مودی نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا بھدا مذاق بناکر بھارت میں سرخرو ہونا چاہتے تھے لیکن پانسہ الٹا پڑھ گیا کیونکہ مودی کی اس جارحانہ تقریر کی گونج کو عالمی میڈیا نے بھی پیش کیا اور دنیا کے سامنے مودی کا اصلی چہرہ لانے کی پوری کوشش کی عالمی میڈیا کے وہ بڑے بڑے ادارے جنکا مقام پورپ امریکہ لندن اور عرب میں نمایاں رہا ہے جنمیں وال اسٹریٹ جنرل،نیویارک ٹائمز،الجزیرہ،سی این این،بی بی سی،دی واشنگٹن کے علاوہ دیگر میڈیائی اداروں نے کھرا اور کھوٹا میں فرق واضح کرتے ہوئے مودی کے لب ولہجہ اور ہیٹ اسپیچ پر تشویش کا اظہار کیاجس سے شائد ملک کی گودی میڈیا کو کچھ فرق تو نہیں پڑا ہوگا لیکن کم از کم خود فریبی کو اپنے اندر محسوس تو کیا ہوگا الجزیرہ نے لکھا، "ہندوستانی وزیر اعظم نے ایک انتخابی ریالی میں مسلم مخالف زبان کا رخ کیا، جو ممکنہ طور پر اپنی انتخابی مہم کی حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے” سی این این نے لکھا کہ "پچھلی دہائی کے دوران مودی اور ان کی بی جے پی پارٹی اپنی ہندو قوم پرست پالیسیوں سے مذہبی پولرائزیشن کو آگے بڑھا رہے ہیں جس سے دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت میں اسلاموفوبیا کی لہر اور مہلک فرقہ وارانہ جھڑپوں کو جنم دیا گیا ہے” نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ "وزیر اعظم مودی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان اور خود کوعالمی سطح پر پیش کی جانے والی تصویر کے بالکل برعکس تھی”کیا ان عالمی میڈیا کا کچھ اثر مودی اور بھاجپا پر پڑےگا؟کیا بھارتی گودی میڈیا میں کچھ تبدیلی آئے گی؟ہمکو تو لگتا ہےایسی تبدیلی کی امید بھی کرنا خود کو صرف خوش کرنے کے مترادف ہے۔
لیکن مودی کی اس کذب بیانی نے بھاجپا کے ان قائدین کو بھر پور موقع اور تقویت پہنچائی ہے جو پہلے سے ہی ہیٹ اسپیچ کے کام پر لگے ہوئے ہیں ٹھاکر راجہ سنگھ جو حیدرآباد گوشہ محل کے رکن اسمبلی ہیں سریش چوہانکے جو نفرت کا زہر اگلنے میں سب سے آگے ہے وہ بھی صحافت جیسے مقدس پیشہ کی روح کو ہر روز جھلسانے کا کام کرتا ہے پرگیہ سنگھ ہندوتوا کے یتی نرسمہانند کے علاوہ دیگر بھی ہیں جو شائد انتخابات کے اختتام تک کبھی بھی نفرت کا سہارا لے سکتے ہیں اہم سوال یہ ہیکہ اگر ان ہیٹ اسپیچس کے بعد اگر کہیں پر امن ماحول میں بگاڑ پیدا ہوگا تو اسکا زمہ دار اور مجرم کون ہوگا؟اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کو بھی خوف کے سایہ میں دیکھا جارہا ہے کیا مودی کی دروغ گوئی اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟لیکن الیکشن کمیشن نے از خود یہ کاروائی نہیں کی سوشیل میڈیا پر بڑی تعداد میں عوام کی جانب سے الیکشن کمیشن پر بھی سوالات کی بونچھار لگی ہوئی ہے بلکہ اس جانب درخواستوں سے توجہ دلوانے کے بعد الیکشن کمیشن نےمودی کی تقریر کی تحقیقات کروانے کا ہدایت نامہ جاری کیا ہے معلوم نہیں یہ تحقیقات ہوگی بھی یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہیکہ وزیر اعظم مودی نے دروغ گوئی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے میں اپنے عہدے کا بھی پاس و لحاظ تک نہ رکھا ایسی ہیٹ اسپیچ ایک وزیراعظم کو زیب نہیں دیتی جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات مرحلہ وار آتے جائیں گے ویسے ویسے مودی کی کذب بیانی اور ہیٹ اسپیچ و ہندو مسلم کارڈ میں اضافہ ہونے کے امکانات ہے لیکن اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کو بھی چوکنہ رہنا ہوگا چونکہ سیاسی مبصرین کے مطابق انڈیا اتحاد و کانگریس کے حق میں خاموش لہر چل رہی ہے جس سے بھاجپا تذبذب کا شکار ہے اور یہ بات بھی سچ ہیکہ اس بار زمینی سطح پر نہ کوئی مودی لہر نظر آرہی ہے اور نہ رام مندر کا کچھ مثبت اثر، ہاں جمعہ کے روز عدالت اعظمی نے ان تمام دائر کردہ عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ تمام وی وی پیاٹ پرچیوں کی ای وی ایم ووٹوں سے مطابقت نہیں کی جائے گی انتخابات کوبیالٹ پیپر سے کروانے کی عرضیوں کو بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ جمہوریت کے کسی بھی نظام پر شک و شبہات کی گنجائش نہیں رہنا چاہیئے جس پر مودی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اتحاد اور کانگریس کیلئے یہ زور دار طمانچہ ہے اب تو ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات شفاف طریقے سے ہوں یا نہ ہوں لیکن نتائج آپکو سب کچھ سمجھادیں گے بس انتظار کیجئے گانامور شاعر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا