✍️ مسعودجاوید
_______________
اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں اولڈ ایج ہوم کلچر فروغ نہیں پایا ہے ۔ یہ اپنے ضعیف والدین یا ان میں سے ایک جو با حیات ہیں ان کو اولڈ ایج ہوم نہیں پہنچاتے ہیں خوشدلی سے یا بادل ناخواستہ اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں ۔
والدین کا ایک ہی ارمان ہوتا کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں جس سے ان کا مستقبل اور کیریئر سنور جائے ۔ انہیں اچھی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے وہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور خواہشات کی قربانیاں دیتے ہیں تاکہ مالی قلت ان کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ۔
کیریئر ، ملازمت اور پیشہ:
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ان بچوں کا کیریئر کا دور شروع ہوتا ہے اور جتنا اچھی تعلیم ہوتی ہے ملازمت انہیں اتنی ہی دور لے جاتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنے کے لئے انہیں ملک میں میٹروپولیٹن شہروں بالخصوص آئی ٹی ھب کہے جانے والے شہر بنگلور ، حیدرآباد ، گروگرام( گڑگاوں)
اور بیرون ملک (دبئی)، امارات ، قطر، سعودیہ کویت، عمان یا امریکہ اور یورپی ممالک کا رخ کرنا ہوتا ہے۔
اور یہیں سے #نیوکلیرفیملی ؛ ‘ ہم دو ہمارے دو’ کا کلچر کی شروعات ہوتی ہے۔
والدین کے لئے یہ سخت امتحان کا دور شروع ہوتا ہے اور اگر ان دو میں سے کسی ایک کی وفات ہو جائے تو زندگی اور بھی مشکل ترین ہو جاتی ہے۔
ایسے والدین فخریہ طور پر اپنے بچوں کی زبردست مادی ترقی کا تذکرہ خاندان، دوست احباب اور ملنے جلنے والوں سے کرتے ہیں لیکن بچوں کے ساتھ نہ رہنے سے جو خلا اور اکیلا پن وہ محسوس کرتے ہیں اسے کسی کے ساتھ شیئر بھی نہیں کرسکتے.
اب بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے قویٰ جواب دینے لگتے ہیں وہ اپنا ہر کام اب خود کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اب انہیں گھر کا سناٹا کاٹنے کو دوڑتا ہے کام والی مقررہ اوقات میں آکر گھر کی صفائی اور کھانا پکا جاتی ہے لیکن باقی اوقات میں بھی اب ان کو دیکھ ریکھ کرنے اور بات چیت کرنے کے لئے کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ اس گھر کے چوکیدار ہیں!
اس پیچیدہ صورتحال کا حل کیا ہے ؟
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے والدین اپنی ساری کمائی بچوں کو تعلیم یافتہ literate بنانے پر صرف کیا کاش وہ ان کی تربیت پر بھی توجہ دیتے ۔ ان کو تربیت یافتہ educated بناتے ۔ والدین اور بڑوں کا احترام کرنا ، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خیال رکھنا، اور ماں باپ پر بیوی کو ترجیح دینے کی بجائے سب کے مناسب حقوق ادا کرنے میں توازن برقرار رکھنا وغیرہ کی تعلیم و تربیت بھی دلاتے ۔
ایسی صورتحال میں کیا مسلم اولڈ ایج ہوم کی ضرورت ہے جہاں مفت میں نہیں ماہانہ رقم کے عوض صاف ستھرے ماحول میں آرام دہ رہائش گاہیں ہوں میل فیمیل نرس ہوں ، کھیل اور تفریح کے سامان اور ساتھی ہوں ، روٹین ہیلتھ چیک آپ ہو پسندیدہ کھانے غذائیت سے بھر پور صحت کے مطابق ماکولات و مشروبات ہوں ۔
تاہم اس میں ایک خدشہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے ضعیف والدین سے جان چھڑا چاہتے ہیں ان کی بن مانگی مراد پوری ہو جائے گی !
لیکن جو بھی ہو ضعیف العمر لوگ اولڈ ایج ہوم میں خوش رہیں گے ۔ وہاں ان سے بات کرنے کے لئے ہم عمر دوست بن جائیں گے ساتھی مل جائیں گے ۔ تفریحی پروگرام کے ساتھ ساتھ دینی پروگرام بھی منعقد کرائے جائیں گے ۔ جہاں ان کو وضو کرانے کے لئے ہیلپ موجود ہو قرآن کی تلاوت ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کے لئے کتب مہیا ہوں ۔