۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مدارس سے طلبہ کی بے رغبتی کیوں بڑھ رہی ہے

✍️محمد قمر الزماں ندوی

__________________

شوال المکرم یوں تو عربی سال و تقویم کا دسواں مہینہ ہے، لیکن برصغیر ہندوپاک کے مدارس عربیہ کے لئے یہ نیا تعلیمی سال ہوتا ہے ،اس مہینے میں مدارسِ اسلامیہ لمبی تعطیل کے بعد کھلتے ہیں اور نئے اور پرانے داخلے شروع ہوجاتے ہیں اور وسط شوال یا اخیر شوال کے اخیر عشرہ میں اکثر مدارسِ میں تعلیم کا آغاز ہوجاتا ہے۔جن مدارس کا تعلیمی معیار بلند ہوتا ہے اور جہاں نظم و نسق اور سہولیات بہتر ہوتے ہیں یا جو شہری علاقوں میں ہوتے ہیں وہاں ہفتہ عشرہ میں داخلے کی کارروائی مکمل ہوجاتی ہے۔لیکن جو مدارس دیہات اور انٹییر علاقے میں ہوتے ہیں وہاں شوال کے بعد تک داخلے ہوتے رہتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے بعد صورت حال کافی بدل گئی ہے ،مدارس میں طلبہ کا قحط ہے ،ہر طرف سے شور ہے اور آواز آرہی ہے کہ مدارس کی طرف طلبہ کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے،ذمہ داران مدارس بہت ہی فکر مند ہیں ۔ اس کی وجوہات پر غور کررہے ہیں ۔
    میری نظر میں اس کی بہت سی وجوہات ہیں ،جن میں سے چند یہ ہیں:
    لاک ڈاؤن میں مدارس اسلامیہ میں تقریباً تعلیمی انقطاع رہا ،صرف پانچ چھ فیصد مدارس میں آن لائن تعلیم کا نظم رہا ۔مدارس سے طلبہ کا ربط ٹوٹ گیا۔
اس لیے طلبہ نے اپنا رخ اور اپنی لائن بدل لی وہ کام کاج میں مشغول ہوگئے یا اسکول کی طرف رخ کرلیا جس کی وجہ سے اس درمیان کے جو طلبہ مدارس میں زیر تعلیم تھے، وہ تقریباً مدارس سے علیحدہ ہوگئے ۔
  لاک ڈاؤن میں اکثر مدارس کے اساتذہ کے ساتھ جو سلوک ہوا اور معاشی اعتبار سے جو ان کی حالت رہی اور جس طرح ایک بڑی تعداد کو در بدر بھتکنا پڑا اس سے بھی طلبہ میں منفی اثرات پڑے ہیں ،میں نے خود ایک بڑی تعداد اساتذہ کی دیکھی جنہوں نے اپنا میدان بدل دیا اور وہ تجارت میں لگ گئے ،بعض تو تھیلے پر سبزی فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے ،۔
  مدارس کی سندیں اور ان کی ڈگریاں حکومت کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے اور نہ اس کی اہمیت کو منوانے کی طرف کبھی توجہ دی گئی ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ مدارس سے عالم اور فاضل کرنے کے بعد بھی حکومت کی نظر میں ناخواندہ ہیں اگر آپ پاسپورٹ بنواتے ہیں تو ان اسناد اور ڈگریوں کے بعد بھی آپ کا شمار مزدوروں اور ناخواندہ لوگوں میں ہوتا ہے۔
      جب مدارس اسلامیہ کی طرف سے یہ اعلان آنے لگا کہ طلبہ ہائی اسکول کرکے ہی مدارس میں آئیں اور خود مدارس میں ہائی اسکول کے نصاب کی بات ہونے لگی تو طلبہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ جب ہائی اسکول کرنا ہی ہے تو گارمنٹ اسکول میں کیوں نہ کریں ۔ اس وجہ سے بھی طلبہ کا رجحان اسکول کی طرف بڑھ گیا۔
       یوپی میں ہی اکثر بڑے مدارس ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ پڑھنے آتے ہیں ،پچھلے کچھ سالوں سے یہاں کی جو صورت۔ حال ہے اور خصوصاً امن عامہ کی جو صورت حال ہے بہار بنگال جھارکھنڈ اور آسام کے لوگ اپنے بچوں کو یہاں تعلیم کے لئے بھیجنے سے گھبرا رہے ہیں ۔
      حفظ کرنے کے بعد طلبہ کا رجحان عالم بننے سے ختم ہوتا جارہاہے ،جگہ جگہ شاہین گروپ کی شاخیں قائم ہورہی ہیں اور انہیں حفظ پلس کا سبز باغ دکھایا جارہا ہے تو اب بھلا وہ مدارس کی طرف کہاں آئیں گے ۔۔۔؟
    مدارس اسلامیہ میں اکثر جگہ نظم و نسق اور خورد و نوش میں افرا تفری کا ماحول ہے ،اعتدال و توازن کی کمی ہے جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کی فکر نہیں ہوتی، اس لیے امیر گھرانے کے طلبہ ادھر کا رخ بہت کم کرتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مدارس صرف غریب بچوں  کے لیے ہے ۔۔
    رمضان المبارک کے مہینے میں جب نئی نسل مدارس کے اساتذہ کو چندہ کرتے دیکھتے ہیں اور ان کی پریشانی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے ایک بھاینک تصویر نظر آتی ہے کہ اگر مدارس میں تعلیم حاصل کرینگے تو انجام یہی ہوگا کہ سال بھر پڑھاؤ اور رمضان المبارک میں اپنی تنخواہوں کا انتظام خود کرو اور اب تو بچوں کا بھی چندہ کرو۔اس کی وجہ سے بچے ہمت ہار رہے ہیں اور مدارس سے ان کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے،۔
      مدارس کا داخلی انتشار ،اساتذہ کا بار بار جگہ کی تبدیلی اور اساتذہ کرام کا خود اپنے بچوں اور اپنی اولاد کو مدارس میں نہ پڑھانے کا رجحان سے بھی غلط پیغام لوگوں میں جارہا ہے کہ اساتذہ جب خود ان مدارس سے مطمئن نہیں ہیں تو ہم کیسے مطمئن ہوں گے ۔۔۔۔
  قدیم نصاب تعلیم پر ضد اور اصرار اور اس کے اندر مناسب اور مفید  تبدیلی نہ کرنا بھی اس کی ایک وجہ ہے ،منطق و فلسفہ کو نصاب میں اب بھی پہلے کی طرح  شامل رکھنا اور اس کی جگہ پر نئے مضامین کو شامل نہ کرنا بھی اس کی ایک وجہ ہے ،ہم نے دنیا کے تمام شعبوں میں جدید سہولیات اور اسباب و وسائل کو اختیار کر لیا چاہے وہ طب کا میدان ہو خورد و نوش اوردیگر میدان ہو ، لیکن ہم نے مدارس میں نئے اور مفید اسباب و وسائل اور ذرائع کو استعمال نہیں کیا نیز نصاب تعلیم کو اپڈیٹ نہیں کیا ۔قرآن و حدیث کے مضامین تو وہی رہیں گے قیامت تک اس میں تبدیلی نہیں آئے گی لین ان علوم کی تدریس میں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کا استعمال از حد ضروری ہے جو خلاف شریعت بھی نہیں ہے ۔
   فقہ اسلامی میں میں بھی ہم تبدیلی کی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن جو قدیم کتابیں اس فن کی پڑھائی جاتی ہیں ان میں بعض تو آج کے طلبہ کے لئے بہت ہی مشکل ہیں ،مثلا بعض مدارس میں ابھی کنز الدقائق جیسی گنجلک عبارت والی کتاب داخل نصاب ہیں حسامی اور نور الانوار ،نخبہ  جیسی کتابیں بھی،، جب کہ اس فن کی بہترین جدید کتابیں آچکی ہیں ۔ اسی طرح نور الایضاح کی جگہ الفقہ المیسر کو داخل نصاب نہ کرنا سمجھ سے پرے ہے ،جبکہ یہ کتاب موجوددہ دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر تیار کی گئی ہے ۔

  (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: