رواں الیکشن کی سماجی حیثیت
✍️ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
_____________
سیاسی شعور اور فکری اعتدال ایسی صفات حسنہ ہیں جنہیں اختیار کرکے معاشرے کو پوری طرح مستحکم اور بالا دست بنایا جاسکتا ہے ۔ سیاسی شعور کی عظمت اور اس کے سماجی اثرات سے اسی وقت آگاہی ہوسکتی ہے جب معاشرے میں سیاسی امور و معاملات کی طرف توجہ مبذول کی جائے ۔ مذہبی اور دینی طبقہ عوام کو بیدار کرے ۔
جمہوریت میں عوامی رائے یا ووٹ کی کیا حیثیت ہوتی ہے اس بابت مکمل اور کھل کر گفتگو ہونی چاہیے ۔ اگر ہم سیاسی شعور و آگہی کی بات مسلم معاشرے کے حوالے سے کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آج بھی مسلم معاشرے میں سیاسی امور و مسائل میں دلچسپی کو در اندازی سمجھا جاتاہے اور یہ تصور عام ہے کہ سیاست پر بات کرنا یا سیاسی معاملات میں تدبر و تفکر کرنا مذہبی لوگوں کا کام نہیں ہے۔ یہی نہیں کئی دفعہ تو یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ اگر کوئی مذہبی شخص سیاست پر گفتگو کرتا ہے تو اسے ہمارا ایک بڑا طبقہ دنیا دار کہہ کر مطعون کرنے کی جسارت کرتاہے ۔
اسی طرح مسلم معاشرے کی یہ بھی صداقت ہے کہ ووٹ ڈالنے کے وقت بھی بڑی کسل مندی اور تساہلی کا مظاہرہ کیا جاتاہے ۔ یاد رکھنا ہوگا کہ ووٹ شہریت کا بنیادی ثبوت ہے اور یہ ہر شخص کا حق و اختیار ہے اس لیے اپنے اس حق کا استعمال ضرور کرنا چاہیے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ ہم ایک جمہوری اور سیکولر ملک کے باشندے ہیں یہاں ہر پانچ سال بعد ملک و معاشرے کی نمائندگی کرنے والوں کو منتخب کیا جاتاہے یہ جمہوریت کی ہی خوبی ہے کہ یہ انتخاب ملک کا ہر شہری کرتاہے ۔ اس لیے اگر ہم اپنے اس حق کا صحیح استعمال کرتے ہیں تو یقیناً صحیح لوگ منتخب ہوکر آئیں گے ،اور اگر ہم اپنے اس ووٹ کو مذہب ، قوم ، برادری ، رشتہ داری یا تعلقات کی بنیاد پر استعمال کریں گے تو پھر یقیناً اس کے نتائج مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوں گے ۔ اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر اور پورے ہوش و حواس میں کرنا چاہیے اور اپنے ووٹ کے ذریعے ملک و سماج اور قوم و ملت کے سچے بہی خواہوں ، اِنسانیت نواز افراد کو لانا چاہیے تاکہ ملک سے نفرت و بیزاری اور تعصب و تنگ نظری کے بادل چھٹ سکیں ۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ سیکولر نظام میں کسی کی نمائندگی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے چاہیے ۔ البتہ بہتر کارکردگی ، حسن انتظام اور سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی بنیاد پر ووٹ دیا جائے۔ اسی طرح ووٹ مانگنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں اور انتخاب کے بعد ایک سیکولر حکومت وجود میں آئے گی نہ کہ کسی مذہب سے وابستہ ۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ بعض سیاسی رہنما اپنے آپ کو ایک خاص فکر اور مذہب کا سب سے بڑا ٹھیکہ دار کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور جہاں جہاں بھی وہ جا رہے ہیں وہاں مذہب و مسلک کو ہوا دے رہے ہیں ۔ ایسے تنگ نظر لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے محدود اور ذاتی فائدے کے تئیں بھارت کی صدیوں پرانی تہذیب کو مخدوش و مجروح کررہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ اب جو حالات ہیں اور سیاسی پنڈتوں کے جس طرح کے تجزیے آرہے ہیں ان کے تناظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں نے اب تک مذہب و ملت اور دین و دھرم کے نام پر سیاست کی اور اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں اب ان کے پر فریب نعروں سے عوام پوری طرح اوب چکی ہے ۔
یہاں یہ بتانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ کرنا صرف قانونی یا دستوری ہی حق نہیں ہے بلکہ شریعت اسلامیہ میں بھی ووٹ کرنے کی اہمیت و افادیت کو بتایا گیا ہے اور ووٹ نہ ڈالنے والا معتوب ہوگا ۔ چنانچہ دار العلوم دیوبند نے اپنے ایک استفتاء کے جواب میں ووٹ ڈالنے کو دینی و شرعی فریضہ سے تعبیر کیا ہے اسی طرح تمام مسالک کے مذہبی رہنماؤں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ ووٹ کرنا شرعی اعتبار سے بالکل درست ہے البتہ نہ ڈالنے کی صورت میں گناہ گار ہوگا ۔
لہذا متذکرہ سطور سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر مسلم معاشرے میں ووٹ ڈالنے یا سیاسی شعور و آگہی پیدا کرنے کو شرعا ممنوع سمجھا جاتاہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ رائے اصحاب علم وفضل اور مذہبی گروہ کی نہیں ہے بلکہ عوام نے بعض نا اہل اور جاہلوں کی باتیں سن کر اس طرح کی رائے قائم کی ہے جو یقیناً ناقص اور غیر مستند ہے ۔ عوام کے اںدر سے اس نظریہ اور فکر کو رفع کرنے کے لیے بنیادی طور پر ایک تحریک چلانی ہوگی اور بیداری پیدا کرنی ہوگی تاکہ ان کے دل و دماغ سے یہ بات رفع ہو جائے کہ ووٹ شرعاً اور قانوناً دونوں اعتبار سے ڈالنا ضروری ہے ۔ اس وقت ہندوستانی سماج جس طرح سے نفرت اور باہمی پرخاش کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے یا گزشتہ کئی برسوں سے نفرت کی آگ ہندوستانی سماج میں لگائی گئی ہے اس وقت صرف اس نفرت و بیزاری کو ہی نہیں روکنا ہے بلکہ ہر اس اقدام کا قلع قمع کرنا ہوگا جو بھارت کی مشترکہ تہذیب ، تنوع اور تعدد پسند نظریہ کو کچل رہا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ 2024 کے عام انتخابات کئی اعتبار سے بڑے اہم ہیں ایک تو یہ کہ اس وقت ملک کے سماجی تانے بانے کو ٹوٹنے سے بچانا ہے تو وہیں ملک کے سیکولر اور جمہوری نظام کو بھی استحکام بخشنے کے لیے رواں انتخابات اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہر شہری کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال کرے۔ ۔سماجی طور پر اور انسانی رشتوں کی عظمت کو بچانے کے لیے بھی ہمیں رواں انتخابات کی اہمیت و افادیت کو سمجھنا ہو گا ۔
جس طرح سے آج انتخابی ریلیوں میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو سب وشتم کیا جارہا ہے اور اکثریت کو مسلم اقلیت کا خوف دلایا جارہاہے وہ ہندوستان جیسے سیکولر اور جمہوری معاشرے میں بالکل بھی مناسب نہیں ہے اس لیے انتخابی ریلیوں میں عوام سے اپیل کرنے سے پہلے اپنی بات پر نظر ثانی کرلینا چاہیے ۔ ایسا نہ ہو کہ اقتدار کی ہوس میں ہم کسی کی دل آزاری اور دل شکنی کرجائیں۔ اگر اس طرح کی زبان و بیان کوئی استعمال کرتا ہے جس میں اقلیت کے لیے خفت آمیز جملے کہے گئے ہیں تو پھر یہ عمل نہایت شرمناک ہے ۔ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ حیرت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی بد کلامی یا یا کسی مذہبی اقلیت کے لیے نازیبا کلمات کے استعمال پر قطعی ندامت بھی نہیں ہے ۔ اس لیے اس طرح کی تمام باتیں صرف اس لیے کی جارہی ہیں تاکہ الیکشن کو مذہب و دھرم کے نام پر موڑ دیا جائے ۔ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے رویوں اور کرداروں پر نظر رکھے ۔ عوام کو ایسے رہنماؤں کو بتانا ہوگا کہ ہندو مسلم ، مندر مسجد کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ بے روزگاری ہے ، تعلیم کا فقدان ہے ، سستے علاج کا مسئلہ ہے، مہنگائی ہے اور بنیادی حقوق سے محرومی ہے ۔ جب یہ سوچ عوام کے اندر پیدا ہو جائے گی اور وہ مذہب کے نام پر بے وقوف نہیں بنے گی تبھی اسے کچھ حاصل ہوسکتاہے ورنہ عوام کا اسی طرح سے سیاسی استحصال کیا جاتا رہے گا ۔ آخر میں یہ کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو رویے اور کردار فرقہ پرست طاقتیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنا رہی ہے ان پر بھی عوام کو گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ کسی بھی طرح سے سماج میں مذہب و مشرب کے نام پر انتشار پیدا نہ ہو ۔