اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تجزیہ و تنقید

بابری مسجد؛ جہاں انصاف کو دفن کر دیا گیا

چھ دسمبر1992کی رات، بی بی سی نے اپنی نشریات روک کر اعلان کیاکہ اتر پردیش کے شہر فیض آباد سے...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار !

بابری مسجد کی شہادت کے قصوروار ! از: شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز) ___________________ آج 6 دسمبر...
Read More
تجزیہ و تنقید

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات

بابری مسجد کا انہدام اور رام مندر کی تعمیر: چند مضمرات از: محمد شہباز عالم مصباحی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ آف...
Read More
دین و شریعت

دور حاضر میں مساجد کی حفاظت اور ہماری ذمہ داریاں

اسلام میں مساجد کو ہمیشہ ایک مقدس مقام اور روحانی مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ یہ محض عبادت کا...
Read More
دین و شریعت

انسان کا سب سے بڑا دشمن خود اس کا نفس ہے!

انسانی نفس میں اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت ،زہد و تقویٰ اور خیر و بھلائی بھی رکھا ہے اور...
Read More

ایک شام تعلیمی بیداری کے نام

✍️انور آفاقی دربھنگہ

__________________

بیس اپریل 2024 کو شام پونے سات بجے موبائل کی گھنٹی نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا، جب اسکرین پر نگاہ پڑی تو ایک انجان نمبر دیکھ کر اگنور کرنا چاہا مگر پھر فورا ہی کال رسیو کرنا مناسب سمجھا۔۔۔” ہلو” کی آواز سماعت سے ٹکرائی پھر سلام کے بعد وہ کہنے لگے ” میں عظمت اللہ مخاطب ہوں ، پہلے بھی آپ کو کال کیا تھا مگر شاید آپ مغرب کی نماز کو گئے تھے اس لئے کال نہیں اٹھایا۔ دراصل ہم 24 اپریل 2024 کو ایک” تعلیمی بیداری کانفرنس” اور” مشاعرہ ” بھپورہ کرونی دربھنگہ میں کرنے جا رہے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ آپ مشاعرہ میں ضرور شریک ہوں اور اپنے کلام سے نوازیں ۔ گزشتہ سال بھی آپ سے شرکت کی اپیل کی تھی مگر آپ  نے معذرت کرلی تھی۔ ڈاکٹر اظہار احمد اور رسول ساقی صاحبان بھی خاص طور سے آپ کی شرکت کے خواہاں ہیں ۔ پھر میں نے حامی بھر لی اور شرکت کا یقین دلایا تو انہوں نے بینر کے لئے ایک تصویر بھیجنے کو کہا جو میں نے ان کو بذریعہ واٹس اپ  بھیج دیا۔
انجینیئر شاہ عظمت اللہ ابو سعید ایک امنگوں اور جذبوں سے بھرے تازہ دم نوجوان ہیں جو اپنے گاؤں بھپورہ کرونی بھروارہ میں تعلیمی ادارہ یعنی ایک اسکول کے قیام اور علاقے کے نو نہالوں  کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔
لہذا اسی سلسلے میں وہ  کانفرنس اور مشاعرہ  کرنے جا رہے ہیں ۔
کرونی بھپورہ دربھنگہ شہر کے قلعہ گھاٹ  سے اتر پچھم سمت میں کوئی 25،26 کیلو میٹر کی مسافت پر واقع جڑواں بستی ہے ۔ اس بستی کی   زمانے سے اپنی ایک ادبی، تاریخی و علمی حثیت رہی ہے ۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں کئی معروف و مقبول ادبا و شعراء اور مقتدر علما پیدا ہوئے ۔ ان میں صاحب دیوان شعراء اور قابلِ احترام ادیب و عالم دین بھی ہوئے ۔ جنہیں  وقت اور مرور زمانہ نے دبیز پردوں میں چھپا دیا ہے اور جن سے آج کی  نئی نسل نا واقف ہے ۔ ان میں شمس الدین عاجؔز ، فیض الرحمن فؔیض ابن ملا شمس الدین، جو نعت کے بہت عمدہ شاعر تھے اور جن کا نعتیہ مجموعہ کلام "گلزار نعت”  اور ایک دیوان "گنجنہءِ فیض” کے نام سے شائع ہوا تھا ۔ ان کے علاوہ بیؔدل کرونیوی جن کا اصل نام عبدالہادی  اور تخلص بیؔدل تھا۔
مولانا سید دیانت حسین جو شمس العلوم بدایوں میں مدرس کے عہدے پر فائض تھے بعد میں مدرسہ شمس الہدی پٹنہ چلے آئے اور استاد مقرر ہوئے وہ اس ادارے کے ایکٹنگ پرنسپل بھی رہے۔  مولانا سید صدر الحق ابن مولانا سید دیانت حسین تعلیم کے بعد مدرسہ شمس الہدی پٹنہ میں استاد ہوئے اور پھر ترقی پاکر اس کے پرنسپل کے عہدہ کو بھی زینت بخشا۔  ان کو صدر جمہوریہ ہند کے ہاتھوں سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا ۔ سید ظفر الحق ظؔفر بمعروف ظفر ہاشمی جو ٹاٹا کے ٹسکو میں ملازمت کرتے تھے ۔ وہ شعر و شاعری کی وجہ سے ادبی دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ "شب شکن” شائع  ہو کر مقبول عام ہوا تھا ۔ اسی بستی کرونی بھپورہ میں  ڈاکٹر محمد اسد اللہ اور انظار الحسنین برؔق پیدا ہوئے۔حسنین سید جامعی کی بھی  اسی بستی میں  ولادت ہوئی تھی۔ ان کا جماعت اسلامی کے بڑے اہم اکابرین میں شمار ہوتا ہے ۔ جماعت اسلامی کا کل ہند پہلا اجتماع بھی ان ہی کی کاوشوں کی وجہ سے 1943 میں رسول پور خرد ، اسلام نگر اللپٹی دربھنگہ  میں منعقد ہوا تھا جس میں مولانا مودودی، مولانا اصلاحی اور کئی جید علماء نے شرکت کی تھی۔ موصوف کی ایک مشہور کتاب "میرے تین محسنین” بھی شائع ہوئی تھی ۔ اتفاق سے یہ کتاب مجھے خود حسنین سید صاحب نے عطا کی تھی ۔
تحقیق کے مطابق ایک خاتون شاعرہ شہناز مسرت بھی یہی پیدا ہوئیں  جن کا مجموعہ کلام” حصار شام و سحر "کے نام سے شائع ہوا تھا۔
ان کے علاوہ ایک بڑی اہم شخصیت جن کا نام ضمان اللہ تھا اور جو نؔدیم تخلص کرتے تھے اسی بستی بھپورہ کے رہنے والے تھے ۔ بہت قابل اور ذی فہم شخص تھے ۔ وہ شکر پور مدرسہ کے بانیوں میں تھے۔ وہ ایک کامیاب معلم اور اعلی منتظم کے عہدہ پر فائز تھے ۔ تقریبا نو سال تک مدرسہ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ وہ کامیاب ادیب ، انشاء پرداز اور عمدہ تاریخ گو بھی تھے۔ ان کی ملاقات قاضی مجاہد الاسلام صاحب سے ہوئی ۔ قاضی صاحب کی دوربین نگاہ ان پر کیا پڑی سمجھئےجوہری نے ہیرے کو پہچان لیا اور ضمان اللہ صاحب کو امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ لے گئے۔ جہاں وہ ایک مدت تک بہ حسن و خوبی خدمات انجام دیتے رہے۔ انجینیئر عظمت اللہ انہی کے صاحبزادہ ہیں اور انہوں نے اپنے والد ہی کی نگرانی میں تربیت پائی اور اپنے تعلیمی مراحل طے کئے۔ عظمت اللہ کی اخلاقی تربیت ان کے والد نے بہت خلوص و محبت سے کی تھی ۔ جس کی تصدیق کوئی بھی شخص عظمت اللہ  سے ایک بار مل کر ضرور  کرے گا۔جن لوگوں نے مرحوم و مغفور ضمان اللہ کو دیکھا ہے ان سے ملے ہیں ان کو  عظمت اللہ  کی شخصیت میں ان کے مرحوم والد کا پرتو نظر آئے گا ۔
ان کے علاوہ بھی کئی اور علمی و ادبی شخصیتوں کا مولود مسکن یہ کرونی بھپورہ رہا ہے۔
          جس بستی کو ایسے ایسے باکمال شخصیتوں نے سنوارا ہو اس کا مستقبل یقینا تابناک ہونا ہی چاہئے ۔ان شاء اللہ ۔
عظمت اللہ کی آنکھوں میں انکے والد کا وہ خواب پل رہا ہے جو ان کے والد نے ایک تعلیمی ادارے کے قیام کے لئے کبھی دیکھا تھا ۔ اسی خواب  کی تعبیر کے لئے عظمت اللہ ، ان کے رفقاء اور حامی و مددگار بڑے عزم و خلوص کے ساتھ نکل پڑے ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں  خواب ہے اور ہاتھوں میں شمع ، جس سے علاقے
میں تعلیم و تربیت کا ان شاء اللہ، ایک ایسا روشن  مینارہ قائم  ہو گا جس کی روشنی مستقبل میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت بنے گی۔
گفتگو کے دوران انجینیئر  عظمت اللہ ابو سعید نے مجھے بتایا کہ یہ سارا کام( کانفرنس اور مشاعرہ کا)   میرے بس کا نہ تھا آگر میرے قدم سے قدم ملا کر ، میرے دست و بازو بن کر محمد ولی اللہ تنویر  ، محمد وصی اللہ تمکین اور محمد حبیب اللہ ہمایوں کھڑے نہ ہوتے۔اسی طرح ہماری اس تعلیمی بیداری تنظیم
میں میرے احباب و کرم فرماؤں میں محمد حافظ شاہد ، محمد اسرافیل، فخر عالم، سمبھو شاہ ،  عظیم چاند، حافظ عتیق، مولانا منت اللہ ،توقیر احمد، حیدر علی، افتاب احمد، حسن نواز، محمد رضوان اللہ التمش ، عبدالقدیر، کیف الحسن، شاہد قمر وصی احمد ، اشتیاق انور ، عالم ، اورنگزیب فہد، نورین،  گلنواز ذیشان، عرفان، شاہ رخ، افتخار، اخلاق، شاہنواز عالم، انتخاب  فیض، نظیر ، اسد اللہ شمسی، نازش ،اشفاق، اسماعیل نیاز ، رنجن کمار ،سچن کمار، اشرف ،انتخاب عالم، عتیق اللہ، نبی حسن راجو ،رضا الحق، شہاب الدین منا  اور جمال الدین ببلو کا تعاون بھی مجھے میسر ہے ۔ میں ان کے بے لوث خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا۔ جناب اسلم علی ڈی۔ ڈبلیو۔ او کی محبتیں بھی مجھے حاصل  ہیں۔
اب نہ صرف کرونی بھپورہ بلکہ اطراف کی دوسری بستیوں کے باشندگان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس شمع کو روشن رکھنے میں معاون و مددگار بنیں تاکہ علاقے کی بچیاں اور بچے علم کی دولت سے مالا مال ہو سکیں ۔
حسب پروگرام مشاعرہ میں شرکت کےلئے  ہم ( عطا عابدی،  منظر صدیقی،  عرفان احمد پیدل اور انور آفاقی)  24 اپریل 2024 کو  بھپورہ کرونی میں حاضر ہوئے ۔ نوجوان انجنیئر عظمت اللہ ابو سعید نے اور ان کے احباب نے” ایک شام تعلیم کے نام” کے عنوان سے تعلیمی بیداری کانفرنس اور مشاعرہ کا انعقاد بڑے تزک و احتشام سے کیا وہ بے حد کامیاب رہا۔ اس کانفرنس میں ایک درجن سے زیادہ  معتبر علمی، ادبی و دینی شخصیتوں نے شرکت فرمائی اور تعلیم کی اہمیت،  ضرورت و افادیت پر اپنی تقریروں کے ذریعہ روشنی ڈالی۔
اس تعلیمی بیداری کانفرنس کی مسند صدارت پر ایس۔ ایم۔ اشرف فرید براجمان تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری یعقوب اشرفی نے خوبصورتی سے ادا کی۔
کانفرنس کی ابتدا حافظ اعجاز کی تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوئی۔ اس کے بعد رب کریم کی بارگاہ میں شنکر کیموری نے حمد اور حافظ فرید نے بحضور سرور کائنات نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔ دربھنگہ کے اقراء اکیڈمی اسکول کی بچیوں نے قومی ترانہ اور گیت سے سامعین کا دل جیت لیا۔ان بچوں نے ایک ڈرامہ بھی پیش کیا۔جسے ناظرین نے پسند کیا ۔
   اس کانفرنس میں ڈاکٹر ریحان غنی،  ڈاکٹر اظہار احمد ( روزنامہ پیاری اردو پٹنہ کے چیف ایڈیٹر اور سابق ایم۔ ایل۔ اے)، انوارالہدی، مولانا شبلی قاسمی ناظم  امارت شرعیہ پٹنہ ، مفتی آفتاب غازی، ناظم معہد الطیبات دربھنگہ، ڈاکٹر فراز فاطمی سابق ایم ۔ایل۔ اے وغیرہ نے شرکت فرمائی اور انجینئر عظمت اللہ کے حوصلے کی داد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔
اپنی تقریر میں جناب ایس۔ایم۔اشرف فرید نے بہت واضح طور پر کہا کہ ” تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی” ، سینئر اور معتبر صحافی ڈاکٹر ریحان غی نے  امہات المومنین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا "
مردوں کی کردار سازی میں خواتین کا بڑا اہم کردار ہوتا
ہے ” ۔ جبکہ انوارالہدی نے ” پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم کو بے حد ضروری قرار دیا”۔ ڈاکٹر اظہار احمد نے” بچیوں کی تعلیم کے لئے گرلس اسکول و کالج کے قیام ” پر زور دیا ۔ اس افتتاحی جشن کے موقع پر "پیس انٹرنیشنل اسکول ” کے لئےکانپور کی شاعرہ محترمہ نازیہ رفعت کے کہے گئے ان اشعار ؂
افتتاحی  جشن  پاک معمول ہے
با ادب  انساں کو  یہ مقبول ہے
ارضِ دربھنگہ کی زینت کے لئے
پیس  انٹرنیشنل   اسکول   ہے
کی بھی خوب پذیرائی ہوئی اور سامعین نے دادسے نوازا۔
اجتماعی طور پر تمام مقررین نے عظمت اللہ کے تعلیمی مشن اور "پیس انٹرنیشنل اسکول” کے قیام کو بہت پسند کیا اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے دلی خوشی کا اظہار کیا۔
خاص طور پر اس پروگرام میں  روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ کے مدیر اعلی ایس۔ایم۔ اشرف فرید،  ڈاکٹر ریحان غنی، روزنامہ پیاری اردو پٹنہ کے چیف ایڈیٹر اور سابق ایم۔ ایل۔ اے ڈاکٹر اظہار احمد اور مولانا آفتاب غازی وغیرہ کی موجودگی نے کانفرنس میں چار چاند لگائے۔  تعلیمی بیداری کانفرنس دیر رات تک چلتی رہی جسے اطراف و اکناف کےذی شعور سامعین دل چسپی سے سنتے رہے ۔تقریبا ساڑھے گیارہ بجے شب میں کانفرنس ختم ہوئی ۔کانفرنس کے اختتام کے بعد مشاعرہ شروع ہوا جس میں پندرہ سے زیادہ شعراء نے اپنے خوبصورت کلام سے نوازا ۔ اس مشاعرہ میں جن شعراء و شاعرات  نے  شریک ہو کر مشاعرہ کو کامیاب بنایا ان میں فلک سلطان پوری، نازیہ رفعت ، نینا ساہو ، انجم اورنگ آبادی، معین گریڈیھوی ، آصف ہندوستانی، شنکر کیموری ذیشان بھاگلپور ، اور شہر دربھنگہ سے عطا عابدی ، انور آفاقی ، منظر صدیقی، رسول ساقی،  مزاحیہ شاعر عرفان احمد پیدل ،ڈاکٹر منوج کمار شریک مشاعرہ  رہے۔ان کے علاوہ بھی چند ایک شاعر جن کا نام میں بھول رہا ہوں  نے بھی اپنا کلام سنایا۔
مشاعرہ کی صدارت مشترکہ طور پر  ڈاکٹر عطا عابدی اور رسول ساقی نے اور نظامت کی ذمہ داری شنکر کیموری نے ادا کی۔
قارئین کرام ! مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراء و شاعرات کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں امید ہے کہ محظوظ ہونگے۔
ڈاکٹر عطا عابدی:
صبح بھی ہوگی کالی رات کے بعد
صبح   کا      انتظار   کر    پیارے
رسول ساقی :
آئینے  میں رات  دن  تصویر  تم  دیکھا  کرو
خواب میں دیکھا کروں تعبیر تم دیکھا کرو
انور افاقی:
تمہارے شہر میں جینا ہے مشکل
دھواں  ہے شور  ہے  تنہائیاں ہیں
ہمارے گاؤں میں آ کر تو  دیکھو
ہوا  ہے  کھیت  ہے  ہریالیاں  ہیں
شنکر کیموری :
عشقِ  حسین  حاصل  ایمان   بن گیا
اے مومنو ! تمہاری یہ پہچان بن گیا
معین گری ڈیھوی :
کون  پھول کیسا  ہے تتلیوں کو  ہے   معلوم
باتیں اپنے مطلب کی لڑکیاں سمجھتی ہیں
فلک سلطان پوری :
حیا کی وادیوں میں شرم  کے  آنگن میں رہتی ہوں
میں اردو ہوں  سدا تہذیب کے دامن میں رہتی ہوں

انجمن آرا اورنگ ابادی :
تیرے  ہمراہ  جو  گزرے  زمانے  ہم  نہیں  بھولے
وہ موسم پیار کے اب تک سہانے ہم نہیں بھولے
منظر صدیقی :
جب کسی سے کوئی کلام کرو
احتراما     اسے   سلام    کرو
منظر  منظر حسین  ہے   منظر
اپنی نظروں میں انضمام  کرو
نینا ساہو :
کبھی بے تابیوں میں عشق کا اظہار مت کرنا
بنا سوچے بنا سمجھے کسی سے پیار مت کرنا
مزاحیہ شاعر عرفان احمد پیدل:
پکا ہوا کار وائیڈ سے  پھل اچھا  نہیں  لگتا
مجھے اس دور کا بچہ کوئی اچھا نہیں لگتا
میرا  بیٹا   سکھاتا  ہے  موبائل کا   چلانا  اب
مجھے ہرگز یہ اس کا چونچلا اچھا نہیں لگتا
نوری پروین ۔کانپوری:
شہر وفا میں مصر کا بازار  ہو  نہ ہو
بکنے کو ہم چلے ہیں خریدار ہو نہ ہو
ڈاکٹر منوج کمار:
کسی  دربار  میں الفاظ  تھرکایا  نہیں  کرتے
ہم اپنی شاعری کو گھنگرو پہنایا نہیں کرتے
نازیہ رفعت کانپوری :
رب سے مانگا تجھ کو نمازیں پڑھ پڑھ کر
میں تجھ کو   بد نام  نہیں  ہونے دوں گی
مشاعرہ کے نوجوان کنوینر انجینیئر عظمت اللہ کے لیے نازیہ رفعت نے چار مصرے کچھ یوں کہے ؂
وہ اپنی ذات سدا بے  مثال  رکھتا ہے
خلوص   پیار   وفا  باکمال  رکھتا  ہے
زمانہ کہتا ہے جس کو عظمت اللہ سعید
سبھی ادیبوں کا وہ تو خیال رکھتا ہے
مشاعرہ صبح کوآذانِ فجر کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
کانفرنس اور مشاعرہ کو کامیاب بنانے میں انجنیئر عظمت اللہ اور انکے رفقاء نے بڑی لگن اور مستعدی کا ثبوت دیا ۔منیجمنٹ کی داد نہ دوں تو بے ایمانی ہوگی۔
میں ذاتی طور پر عزیزی انجنیئر عظمت اللہ کو دعا دیتا ہوں کہ اللہ ان کے تعلیمی جذبوں اور سعی کو شرفِ قبولیت عطا کرے اور اسکول کی تعمیر اور اس سلسلے کے ہر خواب کو پورا فرمائے اور "پیس انٹرنیشنل اسکول ” ایک دن بڑا تعلیمی مرکز بن کر ابھرے اور پورے علاقے کو علم کی دولت سے مالا مال کرے آمین ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: