روزنامہ انقلاب میں شائع انٹرویو پر ہنگامہ کیوں!
✍️ مسعودجاوید
روزنامہ انقلاب دینک جاگرن گروپ کا اخبار ہے اور دینک جاگرن نظریاتی طور پر سنگھ سے وابستہ ہے۔ یہ جاننے کے باوجود مسلمانوں کا چیں بہ جبیں ہونے کا میرے خیال میں کوئی جواز نہیں ہے۔
اس اخبار کے شمالی ہند کے ایڈیٹر ودود ساجد صاحب ہیں۔ ان کو تنخواہ اس اخبار کی پالیسی کے مطابق کام کرنے کے عوض ملتی ہے اور دینک جاگرن گروپ کی پالیسی ظاہر ہے دائیں بازو کی ہے۔ اردو اخبار انقلاب میں گرچہ کھلے عام مسلم منافرت پر مشتمل مواد نہیں ہوتا پھر بھی دائیں بازو کی طرف رجحان کا جھلکنا غیر متوقع نہیں ہے۔
جو مسلمان آج کے انٹرویو یا اس سے قبل کی تحریروں پر غم وغصہ کا اظہار کر رہے ہیں وہ دراصل غلط جگہ پر دستک دے رہے ہیں ۔ دستک دینے کی صحیح جگہ جمعیت علماء ہند ہے جس نے روزنامہ #الجمعیۃ کی اشاعت بند کر دی ! سوال کرنے کی اصل جگہ جماعت اسلامی ہند ہے جس نے روزنامہ #دعوت کی اشاعت روک دی !
اردو داں مسلمانوں کو ان دونوں تنظیموں سے بازپرس کرنی چاہیئے اور کہنا چاہیۓ کہ آپ کے روزناموں کی غیر معیاری صحافت ، باسی خبریں ، کشش سے خالی گیٹ اپ ، گھٹیا کاغذ اور پرنٹنگ کی وجہ سے قارئین کی تعداد کم ہوتی گئی اور اسے جواز بنا کر آپ نے اشاعت بند کر دی ۔
اس کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لئے قومی آواز جو کانگرس پارٹی کا ترجمان کی حیثیت سے شائع ہوتا تھا جس کے اولین ایڈیٹر جواہر لعل نہرو تھے، لیکن یہ روزنامہ بھی عدم توجہی کا شکار ہو گیا ۔ غالباً ستر کی دہائی میں عشرت صدیقی صاحب کی ادارت میں بطور معیاری روزنامہ قومی آواز نے اردو صحافت کے میدان میں جگہ بنایا پھر اس کے مائل بہ زوال سے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشہور صنعت کار سہارا شری نے نہ صرف روزنامہ سہارا اردو نکالا بلکہ معیاری اردو سیاسی اور ادبی میگزین بھی نکالا ۔ اردو دنیا میں یہ تینوں بہت جلد مقبول عام ہوئے۔ پھر سہارا شری مختلف مقدمات میں ماخوذ ہوئے تو سہارا گروپ بھی ڈگمگا گیا۔ سہارا اردو کا عروج عزیز برنی صاحب کی ادارت میں ہوا ۔ انہوں نے دینی مدارس سے قربت حاصل کر کے خوب نام کمایا ۔
ماس میڈیا میں سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باوجود پرنٹ میڈیا کی ضرورت اہمیت اور افادیت کم نہیں ہوئی ہے۔ ضرورت ہے کمرشیل بنیاد پر یہ دونوں اخبار نکالے جائیں ۔ ان دونوں اخباروں کی ضرورت اس لئے ہے کہ یہ ملی ترجمان ہوں گے ۔ ذاتی طور پر جو لوگ اخبار نکالتے ہیں ضروری نہیں وہ ملت کی ترجمانی کریں ۔ یہ ان کی ذاتی ملکیت ہیں اور ان کی مرضی ہے جس سیاسی پارٹی یا پارٹیوں کے لئے نرم رویہ رکھیں اور براہ راست یا دبے لفظوں میں حمایت کریں۔
ملی ترجمان کے ایڈیٹر اور پبلشر نہ صرف ادارہ کو جوابدہ ہوتے ہیں بلکہ ملت کے افراد کے تئیں بھی جوابدہی ہوتی ہے۔
ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ہر روز نت نئی ایجادات صحافتی کام کو بھی آسانیاں فراہم کر رہی ہیں اور بیک وقت متعدد زبانوں میں اشاعت کا کام ہورہے ہیں۔ ملی تنظیموں کے ترجمان ( آرگن ) کے لئے ضروری ہے کہ بیک وقت مختلف زبانوں میں اشاعت ہو تاکہ کل ہند سطح پر ملت کے افراد تک پہنچے۔
جن دنوں یہ سہولیات میسر نہیں تھیں، یہاں تک فیکس بھی ایجاد نہیں ہوا تھا اس دور میں بھی قومی آواز کے ایڈیٹر عشرت صدیقی کا اداریہ غالباً ٹیلی پرنٹر کے توسط سے ہر ایڈیشن؛ دہلی ،بمبئ، لکھنؤ اور پٹنہ میں شائع ہوتا تھا جو رائے عامہ ہموار کرنے کا بہترین ذریعہ تھا ۔
آج ہمیں اپنے لوگوں کو صحیح صورتحال سے واقف کرانے، گمراہ کن بیانیوں کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے اپنا دفاع کرنے کے لئے بہر حال ملی ترجمان روزناموں کی ضرورت ہے۔