✍️ محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
______________________
مشہور شاعر اور ادیب ماہر القادری مرحوم نے علامہ اقبال مرحوم کے بارے میں لکھا ہے کہ میر کی شاعری آہ ہے سودا کی واہ تو اقبال کی شمع راہ ہے ،رومی نے مسلمانوں کو ولی اللہ یعنی اللہ کا ولی بنانے کی کوشش کی تو اقبال نے کافر کو مسلمان بنایا ۔
شاعر مشرق پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، آئیندہ بھی لکھا جائے گا اور جتنا بھی لکھا جائے گا، کمی ہی محسوس ہوگی، علامہ اقبال مرحوم کی شاعری کی جامعیت اور وسعت و ہمہ گیری کا تقاضا ہے کہ قوم کے افراد اس سے استفادے کا سلسلہ موقوف نہ کریں ۔مگر انہوں نے جو پیغام دیا تھا، اس پر عمل ہوا بھی کہ نہیں؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے خواب گراں سے بیدار ہوں، وہ ناموس ازل کے امین، جبرئیل و اسرافیل کے صیاد، ظاہر و باطن کی خلافت کے سزا وار ،زہر کا تریاق مہر و مئہ انجم کے حاکم خود نگر خود گیر بانگ درا اور بال جبریل اور ضرب کلیم بن کر رہیں (مستفاد از کاروان ادب اسلامی)
پروفیسر شمس تبریز خاں مرحوم نے بالکل سچ لکھا ہے کہ اقبال کے ہاں جذبہ اور خیال کی مثالی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ،ان کے قلب و نظر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ایمان و یقین کے نور سے روشن نہ ہو ،اور جس پر اسلامیت کی چھاپ نہ لگی ہو،اقبال نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے ،علم و ادب ،مذہب و تہذیب معیشت و معاشرت تاریخ و سیاست کے ہر پہلو سے بحث کی ہے، اور انہیں اپنے افکار کا موضوع بنایا ہے لیکن ان سب میں اگر کوئی چیز قدر مشترک کہی جاسکتی ہے ،تو وہ ان کی اسلامیت اور مومنانہ انداز نظر ہے ،جو ان کے علوم وفنون کی ہر شاخ میں اس طرح رواں دواں ہے کہ ع/
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم !
اور بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی ،، اقبال اور حالی کے کلام کا سنجیدگی اور احترام سے مطالعہ کئے بغیر ملت، اور ملت کے بخشے ہوئے فضائل کا ادراک و احساس آسان نہیں ہے ،یہ فیضان ہے عشق رسول کا جس نے ان شعراء کے کلام کو گرانمایہ اور لازوال بنا دیا ہے،، ۔
یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کے اس دور زوال و انحطاط میں جن شعراء نے اپنی شاعری کو قوم مسلم کے تن مردہ میں روح ڈالنے اور قوم کو خواب گراں سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنایا، ان میں اقبال کا نام سب سے نمایاں اور سرفہرت ہے ۔بلکہ وہ اپنی شاعری میں الفاظ و معانی کی مناسبت استعارات و تلمیحات اور نکتہ آفرینی کے ساتھ ساتھ جذبئہ ملی، فکر بلند اور دل درد مند کے لحاظ سے بھی اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خود کو صاحب ادراک، حکیم ملت اور دانائے راز کہیں ۔
اقبال کی شاعری کو پڑھنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اقبال کی شاعری میں محض شاعری نہیں بلکہ ایک واقف رموز دین کا پیغام ہے ، ڈاکٹر اقبال مرحوم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ شاعری کرنا ان مقصود نہیں ،اپنے ایک مخلص اور عزیز ترین دوست مولانا غلام قادر کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
” میرا مقصد کچھ شاعری نہیں بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا ،اس قسم کے اشعار لکھنے سے غرض عبادت ہے نہ شہرت ہے، کیا عجب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لئے ذریعہ نجات ہو جائے (کلیات مکاتیب اقبال بحوالہ کاروان ادب اسلامی جنوری تا جون 98ء)
ان کے اشعار پر ناقدین ادب نے باعتبار زبان دانی بہت اعتراضات بھی کیے، جن میں سب سے نمایاں نام کلیم الدین احمد صاحب کا ہے،۔۔
علامہ اقبال مرحوم ایک عظیم شاعر فلسفی اور مفکر تھے اگر چہ وہ اپنی شاعری کو شاعری نہیں سمجھتے تھے، یہ ان کا کمال ظرف تھا ۔ محمد دین فوق کے نام مکتوب میں وہ تحریر فرماتے ہیں ،، لکھنؤ والے یا اور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال شاعر ہے ۔مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی کا اظہار یا مضمون آفرینی نہیں ،نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعر سمجھا ہے ،حقیقت میں فن شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہوسکتا پھر میں کیوں کر کامیاب ہوسکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مقصود گاہ گاہ نظم لکھنے سے اس قدر ہے کہ چند مطالب جو میرے ذہن میں ہیں ان کو مسلمانوں تک پہنچا دوں ،،۔۔کلیات مکاتیب اقبال بحوالہ کاروان ادب اسلامی جنوری تا جون 1998ء۔۔۔۔۔
بعض نقاد اپنے عجب و تعلی میں ایسے مست ہوئے کہ انہوں نے ان کو شاعر تسلیم ہی نہیں کیا ،ان کے ناقدین اپنی تنقیدوں میں کہاں تک حق و راستی پر تھے، یہ الگ موضوع اور بحث ہے۔ اپنے شاعر ہونے کی نفی ان کے کمال ظرف کا ثبوت ہے ۔آج ان ناقدوں کے نام کوئی نہیں جانتا لیکن کلام اقبال روز افزوں اقبال نصیب ہے ۔
بہر حال تمہید طویل ہوگئی مقصد یہ تھا کہ فکر اسلامی کے احیاء میں کلام اقبال کی اہمیت پر ایک سرسری مطالعہ نذر قارئین کروں ۔۔۔
اقبال کی شاعری میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ہے امت مسلمہ کی ذہنی دینی اور فکری تربیت اور فکر اسلامی کی احیاء اور نشأة ثانیہ ۔۔۔
صباح الدین عبد الرحمن مرحوم اقبال مرحوم کے فکر و نظر کے تعلق سے لکھتے ہیں ،،
۔ علامہ اقبال مرحوم اس وجودی تصوف سے بیزار تھے جس کی حکمت ملکوتی اور علم لاہوتی میں حرم کے درد کا درماں نہیں اور جس تعلیم میں ذکر نیم شبی ،مراقبے اور سرور ہیں، مگر اس سے دل و نگاہ مسلماں نہیں بنی یا اس وجودی فلسفے سے بے رغبتی ظاہر کی جس سے اسلاف کا جذبہ دروں حاصل ہوتا ہو ،نہ جس سے زمزیہ لا یحزنون میں شریک ہونے کی تڑپ پیدا ہوتی ہو جس میں خرد کی گتھیاں سلجھا کر صاحب جنوں ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہو یا جس میں لا الہ الا ھو پی کر من و تو کی تفریق مٹ جاتی ہو یا جس سے وہ فقر حاصل ہوتا ہے، جس کے ہزاروں مقام میں روح قرآنی بے پردہ نظر آتی ہے ، اقبال کہتے ہیں ،،
یہ حکمت ملکوتی یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکر نیم شبی ،ترے مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو نہیں تو کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
عطا اسلاف کا ذوق جنوں کر
شریک زمزہ لا یحزنوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
مٹا دیا میرے ساقی نے من و تو
پلا کے مجھے مئے لا الہ الااللہ
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
علامہ اقبال کی یہ سعادت مندی اور خوش نصیبی رہی کہ انہوں نے کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیا ،انہیں جہاں اور جب موقع ملتا نوجوانوں میں اسلامی اسپرٹ اور خودی و خود اعتمادی پیدا کرتے اور انہیں ان کا مقام یاد دلاتے اپنے لائق فرزند جاوید اقبال کو مخاطب کرکے ایک خط میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبال مرحوم مسلمانوں کے عیش و عشرت اور زندگی کی تعیشات کو ناپسند کرتے تھے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ زندگی میں اختصار سے کام لو اور دنیا میں آزاد مردوں کی طرح زندگی گزارو ،علامہ اقبال مرحوم نے اسرار خودی میں اس مضمون کو بیان کیا ہے ۔
راہ دشوار است و ساماں کم بگیر
درجہاں آزاد زی آزاد میر
سبحئہ اقلل من الدنیا شمار
از تعیش اشوی سرمایہ دار
( مستفاد کارواں ادب اسلامی جنوری تا جون 1988ء)
نوجوانوں کو ناز و نعم اور عیش و عشرت سے بچنے اور اپنے مقام اور ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے بال جبریل میں کہتے ہیں ،،
تیرے صوفے ہیں افرنگی ، تیرے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا ،شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغناء سلمانی
نہ ڈھونڈو اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو ناامید نو امیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
(جاری)