✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
___________________
جس روز ٹی وی کے نیوز چینل ’ آج تک ‘ پر ملک کے وزیراعظم نریندر مودی ، یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ، انہوں نے رمضان کے مہینے میں اپنے خصوصی ایلچی کو اسرائیل بھیج کر ، غزہ پر بمباری رکوانے کی کوشش کی تھی ، اسی روز یہ خبر بھی اخبارات کی سرخیوں میں چمک رہی تھی کہ ہندوستان نے ہتھیاروں اور گولے بارود سے بھرا ہوا ایک بحری جہاز اسرائیل بھیجا ہے تاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھ سکے ۔ یہ ہے کتھنی اور کرنی کا فرق ۔ نریندر مودی کو یہ افسوس ہے کہ لوگ انہیں مسلمانوں کے بارے میں گھیرتے ہیں ، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے رمضان المبارک کے مہینے کے احترام میں یہ کوشش کی کہ اسرائیل غزہ پر بمباری روک دے ۔ یقیناً پی ایم مودی نے غزہ پر بمباری رکوانے کی کوشش کی ہوگی کہ ساری دنیا کے سربراہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو پر جنگ بند کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ پی ایم مودی کیسے پیچھے رہ سکتے تھے ! زبان ہلا کر یہی تو بولنا تھا کہ غزہ پر بمباری روک دیں ، کوئی جبراً ہاتھ پکڑ کر تو بمباری رکھوانا نہیں تھی ! نتن یاہو نے بھلے اُن کی نہ سنی ہو ، لیکن اُن کی کوشش کو سراہا جانا چاہیے ، اور لوگ ان کی کوشش کر سراہتے ہیں بھی ۔ فلسطین کے تعلق سے ہندوستانی حکومت کے چند حالیہ اقدامات قابلِ تحسین ہیں ، جیسے کہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی تائید یا دو ریاستی فارمولے کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت وغیرہ ۔ لیکن یہ ہتھیاروں اور گولے بارود سے بھرے بحری جہاز بھیجنے کی خبر افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ نے بھی ، جو اسرائیل کا پکّا دوست ہے ، اُسے ہتھیار دینے سے ہاتھ اٹھا لیے تھے ، ہندوستان نے کیوں اسرائیل کی ، ہتھیار بھیجنے کی درخواست کو ، ہری جھنڈی دکھائی اور اسے ہتھیار بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی؟ غزہ کی جنگ نازک موڑ پر ہے ، رفح بھی نشانے پر لے لیا گیا ہے اور اگر وہاں جنگ چھڑی تو تباہی اور بربادی جو ہونا ہے وہ تو ہوگی ہی بڑی تعداد میں انسانی جانیں چلی جائیں گی ۔ یہ امن کے لیے کوششوں کا وقت ہے ۔ اسپین نے ہتھیاروں سے بھرے جہاز کو اپنی بندرگاہ پر رکنے کی اجازت نہیں دی ، وہاں کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ جنگ میں تیزی لانے کے لیے ہتھیار فراہم کرنے کا نہیں امن کے قیام کے لیے کوشش کرنے کا وقت ہے ۔ کیا پی ایم مودی نے یہ نہیں سوچا کہ جن فلسطینیوں پر بم نہ برسانے کے لیے اُنہوں نے نتن یاہو کے پاس اپنے خصوصی ایلچی کو بھیجا تھا ، یہ ہتھیار اور گولے بارود انہی فلسطینیوں پر استعمال کیے جائیں گے؟ اسرائیل کو آج ہتھیاروں کی سخت ضرورت ہے کیونکہ اس کے اسلحوں کے گودام خالی ہو گیے ہیں ، پی ایم مودی نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ گودام ہتھیار سے خالی ہیں تو خالی ہی رہیں کم از کم بمباری تو بند ہوگی؟ مودی یہ سوال کرتے ہیں کہ اُنہیں مسلمانوں کے تعلق سے کیوں گھیرا جاتا ہے؟ اُن کی حکومت کے اِس اقدام میں ان کے سوال کا جواب پوشیدہ ہے ۔ صرف بات کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی جھوٹی کوشش سے کچھ ہوتا ہے ، مخلصانہ عملی قدم اہم ہے ۔ سچ کہیں تو آپ نے ان دس برسوں میں مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ، صرف ان کے خلاف بیان بازیاں کی ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تعلق سے لوگ آپ کو نہ گھیریں تو ایک کام کریں ، مسلمانوں کے حق میں دل سے ، کوئی ایک اچھا کام کردیں ۔ عملی قدم سے سارے گلے شکوے دور ہو سکتے ہیں ۔