✍️ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
____________________
نام کتاب : مولانا محمد حبیب الرحمٰن خاں شروانیؒ کی دینی و علمی خدمات-کچھ اہم پہلو
مصنف : پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی
صفحات : 176
ناشر : مصنف
ملنے کے پتے : دار المصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ
نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی (1867 – 1950) کا شمار برصغیر کی ان شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے تاریخ میں اپنے گہرے نقوش و آثار چھوڑے، ایک زمانے کو متاثر کیا، مر کر بھی تاریخ میں زندہ رہے۔مولانا شروانی کا علم اور ملت سے رشتہ اس قدر گہرا تھا کہ اسلامیانِ ہند کی علمی تاریخ ہو یا ملی تحریکات کی تاریخ، دونوں ان کے ذکرِ خیر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتیں۔ مولانا شروانی کی زندگی کا بڑا حصہ ملت کی خدمت، علم و علماء کی خدمت اور سماج کی تعمیر و ترقی میں لگا۔ یہ واقعہ ہے کہ مولانا شروانی پر جس قدر کام ہونا چاہیے تھا اور جس طرح ان کا تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا، وہ اب تک نہیں ہوا، ۲۰۰۸ء میں ہمارے ادارے میں مولانا شروانیؒ اور مفتی لطف اللہ علی گڑھیؒ پر ایک مشترکہ سیمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تھا، دعوت نامے ارسال کر دیے گئے تھے، پروفیسر ریاض الرحمٰن ؒ صاحب کو کلیدی خطبہ کے لیے راضی کر لیا گیا تھا، بلکہ وہ میزبانی میں بھی شریک ہو گئے تھے، لیکن کچھ ناگزیر اسباب کی بنا پر اُسے ملتوی کرنا پڑا اور وہ التوا بھی ایسا ہوا کہ پھر اس کی نوبت نہ آ سکی۔ چند برس قبل مرحوم اخلاق شروانی صاحب کی کتاب آئی، جس میں انھوں نے مولانا شروانی پر اساطینِ علم اور اربابِ نظر کے مضامین کو مختلف کتابوں سے جمع کر دیا تھا، اس کی تقریب اجراء میں مجھے بھی تبصرہ کی دعوت موصول ہوئی۔ اس تبصرہ میں راقم نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور لائقِ تقلید گوشوں پر گفتگو کرتے ہوئے مجلس میں موجود مدیح الرحمٰن شروانی صاحب کی توجہ اس سیمینار اور مولانا پر مزید کام کی طرف مبذول کرائی، خدا خدا کر کے شعبۂ عربی میں ایک سیمینار منعقد ہوا، اس دوران کچھ اور بھی اس سلسلے کے کام منظر عام پر آئے۔
مولانا شروانی ایک ریاست کے امیر تھے، لیکن ایسے با ذوق امیر کہ نادر کتب کا بڑا ذخیرہ جمع کیا، علم دوست ایسے کہ اصحابِ علم و فضل ان کی طرف کھنچے چلے آتے، صاحبِ قلم ایسے کہ ان کے مقالات کی معنویت آج بھی محسوس کی جاتی، صاحبِ فضل ایسے کہ آج بھی ان کی سخاوت کے قصے سنے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ پہلو بڑا تابناک ہے کہ وہ اپنے زمانے کی ہر ملی کوشش سے گہرا ربط رکھتے تھے اور اس کے معاون ہوتے تھے، سر سید کی تحریک ہو، یا دیوبند کا مدرسہ یا تحریک ندوۃ العلماء یا اعظم گڑھ کا بیت الحکمہ، مولانا شروانی کی نمایاں شرکت ہر جگہ نظر آتی ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کا جو نقشہ مولانا علی میاںؒ نے اپنے مضمون کے ایک پیراگراف میں کھینچا ہے، وہ بڑا حسین و دل کش اور انتہائی جامع ہے، مختلف الجہات و جامع کمالات شخصیت کا مرقع پیش کرنے کے لیے ایسے ہی قلم کی ضرورت ہوتی ہے، جو چند سطروں میں پوری تصویر پیش کر دے، مولانا علی میاںؒ کا یہ پیراگراف اِس کی عمدہ ترین مثال ہے۔
’’میں نے اپنے طویل سفروں اور لوگوں سے تعلقات میں ہر طرح کے اہل کمال دیکھے ہیں، میں نے اہلِ علم کو بھی دیکھا ہے، اہلِ دین کو بھی دیکھا، ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملا، لیکن میں نے ان جیسا متضاد صفات کا جامع اور متنوع شخصیت کا حامل نہیں دیکھا، وہ حلقۂ امراء میں امیر، دبستانِ ادباء میں ادیب، طبقۂ شعراء میں شاعر، مصنفین کی دنیا میں مصنف، ناقدوں کی صف میں ناقد و مبصر اور ماہرین تعلیم کی محفل میں ایک ماہرِ تعلیم تھے اور جب کسی مجلس میں یہ سب جمع ہوتے تو وہ صدر محفل اور شمع انجمن ہوتے اور لوگ پروانہ وار انھیں گھیر لیتے، ان سے رجوع کرتے اور میرِ مجلس بناتے۔‘‘ (پرانے چراغ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، ص: ۲۷- ۲۸)۔
زیرِ نظر کتاب اسی جامع کمالات شخصیت کے بعض پہلوؤں کو پیش کرتی ہے، مصنف گرامی پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی خود ایک مخلص صاحبِ قلم ہیں، عرصہ پہلے سبک دوش ہو چکے، لیکن ان کے قلم سے مسلسل تعمیری ادب کی آبیاری ہو رہی ہے۔ مفید کتابیں نکل رہی ہیں اور ان کا فیضان اسی رفتار سے آج بھی جاری ہے، سچی بات یہ ہے کہ مولانا شروانی پر یہ کتاب مدتوں بعد ایک مکمل کتاب کی شکل میں آئی ہے۔ یہ پانچ ابواب اور دو ضمیموں پر مشتمل ہے، ابتدا میں سوانحی خاکہ درج ہے، پہلے باب میں مولانا شروانی کے قرآن سے تعلق پر مدلل گفتگو کی گئی ہےاور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ نہ صرف مولانا کو قرآن کی قرأت و تلاوت سے شغف تھا، بلکہ علوم القرآن، تفسیری نکات و متعلقاتِ قرآن پر ان کی گہری نظر بھی تھی، علمی و روحانی شغف کے علاوہ قرآن کریم کی تعلیمات کے اثرات ان کی زندگی میں نمایاں تھے، ان کا تقویٰ مسلم تھا، انھوں نے ریاستِ حیدر آباد کی پیشکش بھی اپنے دینی جذبہ کے تحت اور آخرت کی جواب دہی کے استحضار کے سبب ہی قبول کی تھی۔ کتاب کا دوسرا باب مولانا کے سیرتِ نبویؐ سے شغف پر روشنی ڈالتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس کو قرآن مجید سے تعلق خاطر ہوگا، اس کے صاحبِ قرآن کی ذاتِ گرامی سے اُنس و شغف اور محبت میں کیا شبہ۔ در حقیقت قرآن و سیرت، اسلامی ثقافت بلکہ اسلامیت و مشرقیت کے وہ دلدادہ تھے، ان کی قلمی زندگی کے یہی موضوعات تھے، وہ نبیؐ کے عشق کا اظہار کردار و عمل سے کرنے کے نظریہ رکھتے تھے، مصنف محترم نے اس پہلو سے ان کی شخصیت کی اچھی تصویر کشی کی ہے۔
مولانا شروانی کی زندگی ایک بڑا کارنامہ کتب خانہ حبیب گنج کا قیام اور انتظام و انصرام تھا، اس حوالے سے مصنف نے ان کی علم نوازی، اہلِ علم سےدوستی اور ان کی علمی خدمت پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ تاریخ میں کم ہی ایسی مثالیں ملتی ہیں، ایک ریاست کا امیر جلیل القدر عالم بھی ہو اور اس پر مستزاد اپنے ہم عصر علماء کا خادم و قدر داں بھی۔ مولانا گیلانی کے بقول ان کا پیکر شاہانہ مگر دل فقیرانہ (ص:۷۱، کتاب ہذا) بلکہ انداز بھی درویشانہ تھا، انھیں امارت کا پندار تھا نہ علمیت کا غرّہ، کتاب کا یہ باب نہ صرف لائقِ مطالعہ ہے، بلکہ آج کے اہلِ علم اور طلبہ کے لیے اس کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہیں۔ یہ سطریں پڑھتے چلیے:
’’اس بیش بہا مخزنِ کتب کے بارے میں نامور ادیب و اردو کے عظیم خادم پروفیسر رشید احمد صدیقی مرحوم کا یہ دل نشین تأثر بھی قابلِ نقل ہے:’’سوچنے اور فخر کرنے کی بات ہے کہ ایک شخص باوجود امارت، امیری اور شباب کی ترغیبوں کے جن سے لذت یاب ہونے کی آزادی نصیب تھی، مسلسل ساٹھ، ستّر سال تک اچھی کتابیں جمع کرتا رہا، تاکہ وہ ضائع نہ ہوں یا دوسروں کے قبضے میں نہ چلی جائیں اور اس طرح علم و فضل کے ناموروں کی میراث سے ان کے نام لیوا محروم نہ ہو جائیں۔‘‘(شمس تبریر خاں، صدر یار جنگ، ص: ۱۰۳، بحوالہ ضمیمہ مسلم یونیورسٹی گزٹ، ۲۴؍مئی ۱۹۶۱ء، ص ۲)۔
مولانا شروانی نے علم دوستی اور علمی خدمت کی بہت سی مثالیں چھوڑی ہیں، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کتب خانۂ حبیب گنج ان کی علمی خدمات کا ایسا روشن باب ہے جس کے نقوش آج بھی تابندہ ہیں اور اس کا فیض بدستور جاری ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ کسی نے لکھا ہے اور صحیح لکھا ہے:
’’ہندوستان کے طول و عرض میں ذاتی کتب خانوں میں شاید ہی کوئی کتاب خانہ ایسا ہو جو حبیب گنج کے اِس کتب خانہ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے۔ میرا خیال ہے کہ اگر نواب صاحب ساری عمر میں ملک و ملت کی یا علم و فن کی کوئی خدمت نہ کرتے اور صرف یہ کتب خانہ قائم کر دیتے، تو یہ اتنا عظیم الشان کارنامہ تھا کہ قوم ان کے شکریہ سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘ (ص: ۱۰۷-۱۰۸، کتاب ہذا)۔
چوتھے باب میں ’’سرسید کی یاد‘‘ کے عنوان سے کی گئی مولانا کی ایک تقریر اور اس کا تعارف و تجزیہ پیش کیا گیا ہے، سرسید سے مولانا شروانی بہت متأثر تھے، ان کی تعلیمی جد وجہد اور کالج سے ان کا گہرا تعلق تھا، وہ سرسید کے مداح اور قدر داں تھے۔ یہ خطبہ جو انھوں نے رام پور میں ۱۹۳۵ء میں سر سید ڈے کے موقع پر پیش کیا تھا، اس میں سر سید کے تعلیمی، تصنیفی، ادبی اور ملی کارناموں پر بہت جامع اور سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس تقریر میں انھوں نے سر سید کے افکار کو تازہ کرنے، ان کی تعلیمی تحریک سے جڑے رہنے اور تعلق کو زندہ کرنے اور ان کی جد جہد کو نمونہ بنانے کے لیے ان کی یادمنانے کا جواز پیش کیا۔
آخری باب میں مولانا شروانی کے ایک نادر مضمون ’’علی گڑھ کے مردانِ کار‘‘ کا متن پیش کیا گیا ہے اور متن سے پہلے مصنف نے تمہیدی گفتگو کی ہے اور مضمون کے اہم پہلوؤں کو نکات کی شکل میں واضح کیا ہے، آخر میں دو ضمیمے ہیں۔ پہلے ضمیمہ میں مولانا شروانی کے معارف میں شائع شدہ مضامین اور پھر ان پر لکھے گئے مضامین کا اشاریہ ہے۔ دوسرے ضمیمہ میں یحيٰ اعظمی کا منظوم خراج عقیدت بعنوان ’’ماتم حبیب شبلی‘‘ شامل کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ مولانا شروانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے یہ کتاب نہایت موزوں ہے، ان کی شخصیت کے پُر کشش پہلوؤں، قرآن و سیرت سے ان کے شغف، ریاستِ علم کی سربراہی، اقلیمِ قلم کی سلطانی، تقویٰ و تدین، علم دوستی و علم نوازی کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اہلِ علم بالخصوص نئی نسل کے لیے یہ کتاب پروفیسر اصلاحی کی طرف سے ایک قیمتی تحفہ ہے۔