اسلم جاوداں کی تصنیف : میری نظر میں
✍️ انوار الحسن وسطوی
______________________
زیر تبصرہ کتاب ” میری نظر میں ” ڈاکٹر اسلم جاوداں کی تنقیدی ، تبصراتی اور تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ وہ مضامین ہیں ، جنھیں موصوف نے وقتا فوقتا محبان اردو اور دانشوران علم و ادب کی فرمائش یا مطالبہ پر لکھے ہیں ۔ ڈاکٹر اسلم جاوداں اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ اردو تنقید اور صحافت کے تعلق سے ان کی شناخت مسلم ہے ۔ لیکن ان کی سب سے بڑی شناخت اردو تحریک کے حوالے سے ہے ۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران بہار میں اردو تحریک کو مضبوط اور منظم کرنے میں ان کا نمایاں رول رہا ہے ۔ اس تعلق سے اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر جاوداں فی الوقت اردو کے ایک ایسے کل وقتی خادم ہیں ، جن کے شب و روز اردو کے فروغ کی فکر میں گزرتے ہیں تو غلط نہ ہوگا ۔ جہاں اردو کے ڈھیر سارے خدام اپنی پذیرائی اور تحسین کی فکر میں غلطاں و پیچاں دکھائی دیتے ہیں ، وہیں ڈاکٹر اسلم جاوداں اردو کی خدمت کرنے والوں کے لیے” محفل اعتراف ” سجانے اور انہیں اعزاز سے نوازنے میں اپنی توانائی صرف کرتے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر جاوداں کو باری تعالی نے ایک عمدہ تنقیدی بصیرت عطا کی ہے ، اگر وہ اسے بروئے کار لاتے تو ایک بڑے ناقد کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لیتے ہیں ۔ صحافت ، بالخصوص ادبی صحافت پر تو انہیں مہارت حاصل ہے ، جن کے بین ثبوت چند رسالوں کے وہ خصوصی نمبرات ہیں جن کی تدوین کا کام انھوں نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے ۔ موصوف نے اردو کے فروغ کے لیے گوناگوں کاموں میں اپنا وقت صرف کیا ہے ۔ اس کے باوجود وہ پون درجن کتابوں کے مصنف اور ایک درجن کتابوں کے مولف ہیں ۔ ان کے علاوہ انھوں نے دو درجن سے زائد مقتدر شعراء و ادباء کے تعارفی فولڈر تحریر کرنے کا بھی کارنامہ انجام دیا ہے ۔ تصنیف تالیف کا عمدہ سلیقہ اور اس میں مہارت رکھنے کے باوجود اس معاملے میں ان کا کیا طرز عمل ہے ، اس کا اندازہ زیر تذکرہ کتاب میں شامل ان کی تحریر ” سطور چند ” کےاس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے :
۔ ” تخلیق اور طباعت کے سلسلے میں میری لاپروائی ، اجتناب اور سست روی اعلی مقام پر رہی ہے ۔ کلیم عاجز پر میں نے جو تحقیقی کام 1982 میں کیا تھا اور مخلصوں کے مسلسل اصرار کے بعد 2017 میں شائع ہو سکا اور 2021 میں اس کا اجرا عمل میں آیا ۔ میری دیگر کتابوں کی اشاعت بھی اس کیفیت سے الگ نہیں ہے ۔ میری اسی فطرت کی وجہ سے تخلیق اور طباعت کا کام میرے حصے میں بہت کم رہا ہے ۔ .
. . ( میری نظر میں : صفحہ ۔8)
۔ . زیر تبصرہ کتاب ” میری نظر میں ” 212 صفحات پر مشتمل ہے ۔ جس میں کل 22 مضامین شامل ہیں ۔ جن کے عنوانات ہیں : کلیم عاجز کے نثری اسلوب پر ایک نظر ، منور رانا کی شاعری : زندگی کی سچی آواز ، بدیع الزماں سحر کی شاعری نقش سحر کا عمومی جائزہ ، سحر کی منظوم سیرت نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم : ختم رسل ، افضل امام کا ذوق جنو ں، باکمال شاعر شمس مضطرکی نظم "فغا ن اردو "پر ایک نگاہ نقد ، فیض اور اسرار جامعی کی نظم” کتے” ایک تقابلی مطالعہ ، حیرت فرخ آبادی کی شاعری ، فرد الحسن کا شعری مجموعہ ” بے ترتیب ” : ایک مطالعہ ، غلام سرور : ایک سنہرے عہد کا نام ، پروفیسر ممتاز احمد خان : اردو ادب کے پاسدار ، اور پروفیسر طرزی اور ناز برداران اردو ، نسیم اختر کی تصنیف : "مکتوبات آرزو” ، احمد الیاس : ڈھاکہ کا ایک نابغہ روزگار ، محمد مرغوب کی ” شاہ سرخیاں ” : ایک سرسری جائزہ ، ” گفتگو چاند سے : ایک جائزہ "پر ایک نظر ،پروفیسر فاروق احمد صدیقی : ایک سرسری تصویر ، ثریاجبیں قادری کی کتاب ” کائنات ” پر ایک نظر ، ثریا جبیں قادری کا ناول ” خوشبو گلاب کی "، ” یادوں کی خوشبو : میری نظر میں ، اور "بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ ” : ایک قابل قدر کتاب ۔
مصنف کتاب ڈاکٹر اسلم جاوداں نے مذکورہ مضامین کے تعلق سے اپنی تحریر ” سطور چند ” میں یہ واضح کیا ہے کہ کتاب میں شامل بیشتر مضامین ایسے ہیں جو 15 ۔ 20 سال قبل کے لکھے ہوئے ہیں ۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ان مضامین کے پڑھنے سے آج بھی وہی لذت اور تازگی محسوس ہو رہی ہے ، جو ان کی تخلیق کے وقت ان کی لذت اور معنویت رہی ہوگی ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
کتاب کا پہلا مضمون " کلیم عاجز کے نثری اسلوب پر ایک نظر ” ہے ۔ اپنی اس تحریر میں جاوداں صاحب کا کلیم عاجز کی نثر نگاری کے اوصاف کی بنیاد پر انھیں ایک صاحب طرز نثر نگار کہنا مبنی برحقیقت ہوگا ۔ ڈاکٹر جاوداں لکھتے ہیں :
۔ ” صاحب طرز نثر نگار ہونا نہ تو معمولی بات ہے اور نہ ہی عام ۔بلکہ صاحب طرز اور صاحب اسلوب ہونا بڑی توفیق کی بات ہے ۔ اس کے لیے صحت مند انفرادیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ جوہر انفرادیت ہزاروں میں سے کسی ایک ہی کے قلم میں چمکتا ہے ۔ کلیم عاجز کا صاحب طرز ہونا ان کی برتری کی دلیل ہے ۔ ” ۔ ۔ ٠( میری نظر میں : صفحہ ۔ 12 )
منور رانا نے عام شاعرانہ روش سے ہٹ کرعام فہم زبان میں جو شاعری کی اور اس کے سبب انھیں جو مقبولیت حاصل ہوئی ، اس سے دنیا واقف ہے ۔ ڈاکٹر جاوداں نے ” منور رانا کی شاعری : زندگی کی سچی آواز ” کے عنوان سے رقم کردہ اپنی تحریر میں منور رانا کی شاعری کا عمدہ تجزیہ پیش کر کے ان کی انفرادیت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے :
۔ ” آپ منور رانا کی پوری شاعری کا مطالعہ کر جائیے اس میں خیالی تصوراتی اور عینیت پسندی کی باتیں نہیں ملیں گی ، بلکہ زمینی حقائق اور روزمرہ کی زندگی سے جڑی ہوئی سچائیاں نظر آئیں گی ۔ جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کی جڑیں ہماری زمین میں اندر تک پیوست ہیں ۔ "
۔ ۔ ۔ ( میری نظر میں: صفحہ۔ 25 )
۔ اردو کے معروف صحافی اور مشہور سیاستدان الحاج غلام سرور ایک عہد ساز اور عہد آفریں شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی شخصیت کا ہر پہلو روشن اور مثالی تھا ۔ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے ان کی رحلت کے بعد خدا بخش لائبریری میں منعقدہ ایک سیمینار میں پڑھنے کے لیے ایک خصوصی تحریر رقم کی تھی ۔ اس کا عنوان ہے ” غلام سرور : ایک سنہرے عہد کا نام ” ، یہ تحریر اس کتاب میں بھی شامل ہے ۔ غلام سرور پر لکھی یہ تحریر واقعی بہت عمدہ اور شاندار ہے ۔ ڈاکٹر جاوداں نے اپنی اس تحریر میں غلام سرور صاحب کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا تحریر فرمایا ہے کہ :
۔ ” بلا خوف تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی قریب اور حال کے دنوں میں بھی غلام سرور جیسی شخصیت کا کوئی ثانی نہیں ، جس نے بیک وقت صحافت ، قیادت اور سیاست تینوں شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ، جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں ۔ بلا شبہ غلام سرور ایک شخص کا نہیں ایک عہد کا نام ہے ” ۔
۔ . ( میری نظر میں : صفحہ ۔ 160 )
پروفیسر ممتاز احمد خان اردو کے نامور ادیب و ناقد اور بہار میں اردو تحریک کے بڑے مضبوط سپاہی اور علمبردار تھے ۔ سالار اردو پروفیسر عبدالمغنی کی قیادت میں بہار میں اردو کا جو کارواں بنا تھا ، پروفیسر ممتاز احمد خان اس کے ایک اہم رکن تھے ۔ انھوں نے اردو ادب کی ہمہ جہت خدمت کی ۔ ان کی ادب دوستی اور ادب نوازی مشہور زمانہ رہی ہے ۔ ڈاکٹر اسلم جاوداں نے ان کی مقتدر شخصیت پر بھی اپنا زور قلم صرف کیا ہے ۔ جس کا عنوان ہے ، ” پروفیسر ممتاز احمد خان : اردو ادب کے پاسدار ” ۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے 10 سال قبل جب ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (حاجی پور) ، پروفیسر ممتاز احمد کی حیات و خدمات پر کتاب ترتیب دے رہے تھے تو اسی موقع سے ڈاکٹر مشتاق مرحوم کی فرمائش پر اسلم جاوداں صاحب نے یہ تحریر رقم کی تھی ۔ ڈاکٹر جاوداں نے کھلے دل سے پروفیسر ممتاز احمد خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے :
۔ ” پروفیسر ممتاز احمد خان نے جہاں اردو ادب کی قابل اعتنا خدمات انجام دی ہیں ، وہیں انھوں نے اردو زبان کی ترقی و توسیع اور تحفظ و بقا کے لیے اپنی زندگی کے طویل قیمتی ایام اردو تحریک کو کامیاب اور مضبوط بنانے میں گزارے ہیں ۔ انجمن ترقی اردو بہار کے توسط سے انھوں نے اردو کو بہار کی دوسری سرکاری زبان بنانے میں غلام سرور اور پروفیسر عبدالمغنی کے شانہ بشانہ جدوجہد کر کے اپنی اردو دوستی اور اپنے تحریکی کردار کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ بہار کے مجاہدین اردو اور اردو تحریک کاروں میں پروفیسر ممتاز احمد کا نام قابل لحاظ ہے "۔
۔( میری نظر میں : صفحہ 164 )
بزرگ شاعر بدیع الزماں سحر ، ڈاکٹر اسلم جاوداں کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ ڈاکٹر جاوداں کی تحریک پر جناب سحر نے درجنوں نظمیں اور "ختم رسل "جیسی مقتدر اور مستند سیرت نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم لکھی ہے ۔ ” ختم رسل ” کے تعلق سے جاوداں صاحب کا کہنا ہے کہ :
۔” مسدس حالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سر سید احمد خان فرماتے تھے کہ جب خدا حشر میں مجھ سے سوال کرے گا کہ ” ساتھ میں کیا لائے ہو ؟” تو میں کہوں گا "حالی سے مسدس لکھوا لایا ہوں "۔ میرا جواب بھی من وعن یہی ہوگا کہ” سحر سے مسدس لکھوا لایا ہوں ۔”
بدیع الزماں سحر سے اسی گہری وابستگی کے سبب جاوداں صاحب نے ان کی شاعری کے تعلق سے کئی مضامین تحریر کیے ہیں ، جن میں سے تین مضامین اس کتاب میں شامل ہیں ۔
اس کتاب میں شامل ایک اہم تحریر” پروفیسر فاروق احمد صدیقی : ایک سرسری تصویر ” بھی ہے ۔ اگرچہ جاوداں صاحب نے اپنی اس تحریر کو سرسری تصویر کا نام دیا ہے ، لیکن سچ پوچھیے تو ڈاکٹر جاوداں نے فاروق صدیقی صاحب کے تعلق سے ساری باتوں کو اپنی اس تحریر میں سمیٹ کر دریا کو کوزہ میں بند کرنے کے مترادف کام کیا ہے ۔ یہ کمال اسلم جاوید جیسے باکمال صاحب قلم انجام دے سکتے ہیں ۔
۔ "بہار کی اردو شاعری میں علماء کا حصہ ” ، مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کے سابق پرنسپل مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی کی ایک تحقیقی تصنیف ہے ، اس کے مطالعے سے عالم شعراء کی شعری و ادبی خدمات کا بصیرت افروز علم ہوتا ہے ۔ڈاکٹر جاوداں نے مذکورہ کتاب کا بہت ہی عمدہ اور منصفانہ تجزیہ کیا ہے ۔ اس کتاب کے تعلق سے ان کی رائے ہے کہ :
۔” اپنے مواد کی نوعیت اور پیشکش کے اعتبار سے یہ کتاب منفرد ہونے کے ساتھ عالم شعراء کی خدمات کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ، جسے اردو شاعری کی تحقیق میں ایک اضافے سے تعبیر کیا جانا چاہیے ۔ یہ عالم شعراء پر کام کرنے والوں کے لیے ایک بہترین حوالہ جاتی کتاب ہے ۔”
۔ ۔ ( میری نظر میں: صفحہ۔ 260 )
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر اسلم جاوداں کی اس کتاب کے تمام مضامین علمی تحقیقی اور تنقیدی حیثیت کے حامل ہیں ۔ کتابوں پر لکھے ان کے تبصرے بھی معروضی اور بے باک ہیں ۔ کتاب میں شامل تقریبا سبھی مضامین بہت عمدہ دلچسپ اور معلوماتی ہیں ، جس کا بھرپور لطف کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے ہی اٹھایا جا سکتا ہے ۔ اتنی عمدہ ادبی تصنیف پر میں برادرم ڈاکٹر اسلم جاوداں کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں ۔ کتاب کے مطالعے کے خواہشمند حضرات اسے اردو کونسل ہند ، دار الغیاث ، سبزی باغ پٹنہ ۔۴ یا ارم پبلشنگ ہاؤس دریا پور پٹنہ ۔ ۴ اور بک امپوریم ، اردو بازار ، سبزی باغ پٹنہ ۴ سے حاصل کر سکتے ہیں ۔