✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
______________________
جمہوریت کا سب سے بڑا تہوار نتائج آنے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا، بی جے پی اور کانگریس میں سے کوئی بھی اپنے بل پر اقتدار کی دہلیز پر دستک دینے کی پوزیشن میں نہ آسکی، البتہ بھاجپا کی انتخابی حلیف جماعتوں کی جیت نے اسے واضح اکثریت دے کر مودی کے اقتدار تک پہونچنے کا راستہ صاف کر دیا، انڈیااتحاد اس کے قریب بھی نہیں پہونچ سکا، لیکن جشن ہر خیمے میں ہے، بی جے پی خوش ہے کہ حلیف جماعتوں کی مجموعی کارکردگی سے اکثریت مل گئی، کانگریس خوش ہے کہ اسے پورے ہندوستان میں دوبارہ زندگی مل گئی ہے اور وہ انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، الیکشن کمیشن خوش ہے کہ بخیر وخوبی مرحلہ تمام ہوا، ای وی ایم پر کوئی داغ نہیں لگا۔
این ڈی اے کے اقتدار تک پہونچنے کا راستہ بہار، اڈیشہ،مدھیہ پردیش ارونا چل پردیش اور آندھرا پردیش نے ہموار کر دیا، بہار میں لالو جی کا غرور، صحیح امیدوار کے انتخاب میں چوک نے این ڈی اے کو برتری دیدی، ان کی دو بیٹیوں میں سے ایک میسا بھارتی کی پاٹلی پترا سے جیت نے ان کے غم کا قدرے مداوا کر دیا، گو روہنی اچاریہ کی شکست نے اس خوشی کو ہاف کر دیا، میسا بھارتی کی جیت اس معنی میں بہت اہم ہے کہ 2014ء میں اور 2019ء میں اس سیٹ سے میسا بھارتی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس سیٹ سے لالو جی بھی ایک بار ہار چکے تھے، میسا کی جیت میں تقریباً بائیس سال بعد امارت شرعیہ اور خانقاہ مجیبیہ میں حاضری کا اثر بھی دیکھنے کو ملا اور منہہ بولی بھتیجی نے منہہ بولے چچا کو شکست سے دو چار کر دیا، بہار میں راجد کے ٹکٹ پر لڑ رہے دونوں اور جدیو کے ٹکٹ پر لڑ رہے ایک مسلم سیاست داں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، سیوان میں راجد نے اگر حنا شہاب کو ٹکٹ دیدیا ہوتا تو وہ سیٹ بھی یقینی طور پر نکل جاتی، انڈیا اتحاد کی سیٹ جو بہار میں کم ہوئی اس کی ایک وجہ یادووں کے ووٹوں کی تقسیم ہے، اس نے ان امیدواروں کو بھی ووٹ دیاجو یادو تھے اور انڈیا اتحاد سے الگ تھے۔ بہار میں اگر مسلم تنظیموں نے امارت شرعیہ کی قیادت میں ووٹوں کے تناسب بڑھانے پر محنت نہیں کیا ہوتا تو انڈیا اتحاد کے لیے نتائج اور بھی خراب ہوتے، ان حضرات کی محنت سے ووٹوں کا تناسب انڈیا اتحاد کے حق میں بڑھا، لیکن وہ نتائج میں تبدیل نہ ہوسکے۔
بہار میں سب سے بڑی کامیابی چراغ پاسوان کو ملی، این ڈی اے نے اس کو یہاں پانچ سیٹ دیا تھا اور چراغ پاسوان نے پانچوں سیٹ پر فتح کا جھنڈا لہرا دیا، حالاں کہ اس پر ”پریوار واد“ اور ٹکٹ کی بکری کا بھی الزام لگا تھا، لیکن سو فی صد کامیابی نے چراغ کے قد کو اونچا کیا، اور سارے الزامات لوگ بھلا بیٹھے، ان تمام سیٹوں کی جیت سے یہ پیغام بھی لوگوں میں گیا کہ دلت اور پس ماندہ طبقہ کا سیاسی شعور اس قدر بالیدہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کو ووٹ دینے کی نہیں سوچتا اور اگر کئی دلت کھڑے ہو گیے ہوں تو بھی اپنے ووٹ کو منتشر ہونے سے بچاتا ہے، جس کا فائدہ اس انتخاب میں چراغ پاسوان کو پورے طور پر مل گیا۔
جدیو کی سیٹیں کم ہوئیں، لیکن اس نے اپنے کام پر ووٹ مانگا تھا، اس لیے عوام نے اسے ووٹ دیا، اور پارٹی اس مقام تک پہونچ گئی کہ وہ این ڈے اے حکومت کے لیے کنگ میکر بن گئی، لالو جی کی خواہش یہی تھی کہ نتیش جی پلٹی مار دیں تاکہ مرکز میں انڈیا اتحاد اور بہار میں تیجسوی کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ ہموار ہوجائے، دیر سویراگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نتیش جی کی آخری کامیاب پلٹی ہوگی۔
اتر پردیش میں یوگی کے بلڈوزر نے بی جے پی کو اکھاڑ پھینکا، جس کا فائدہ سماج وادی پارٹی کو بھر پور ملا، بھاجپا کا خیال تھا کہ رام مندر بنا کر ہم نے ہندو وٹوں پر قبضہ جمالیا ہے، لیکن یہ فارمولہ بھی کام نہیں آیا اور فیض آباد ڈویزن کی ساری سیٹیں سماج وادی پارٹی کو چلی گئیں اجودھیا کارڈ کو بھاجپا ووٹ میں تبدیل کرنے میں بری طرح نا کام رہی، کسانوں، مسلمانوں، دلتوں کے ساتھ یوگی کے ظالمانہ رویہ نے بھی دہلی پہونچنے کے راستے کو سخت نقصان پہونچایا، اکھلیش یادو کی بلے بلے رہی اپنی پارٹی کو بھاری کامیابی دلانے کے ساتھ، خاندانی سیاست کو پروان چڑھانے میں وہ کامیاب ہو گیے، خود جیتے، بیوی جیتی اور تین چچا زاد بھائی یعنی کل ملا ئم خاندان کے ایک ساتھ پانچ لوگ پارلیامنٹ پہونچ گیے، یہ ہندوستانی تاریخ میں ایک رکارڈ ہے،ا س کی وجہ یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو کے دور میں چچا شیو پال یادو سے جو جھگڑا تھا، اسے ان لوگوں نے مل جل کر طے کر لیا تھا، اس خاندانی اتحاد نے خاندانی سیاست کو پروان چڑھا نے میں نمایاں رول ادا کیا۔ دوسری طرف امیٹھی میں سابق وزیر اسمرتی ایرانی کو کانگریس کے ایک کارکن نے جس کے پاس پارٹی اور گاندھی خاندان سے وفاداری کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی، نریندر مودی کی سب سے محبوب اور پارٹی میں سب سے زیادہ مقبول اسمرتی ایرانی کو ڈیڑھ لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرا کر یہ ثابت کر دیا کہ غرور کا سر نیچا ہوا کرتا ہے، شاید مودی جی کو پہلے سے پتہ تھا کہ وہ اس بار ہار جائے گی، اس لیے وہاں انہوں نے انتخابی اجلاس نہیں کیا تھا۔
اڈیشہ، اروناچل اور مدھیہ پردیش میں بھاجپا نے اس طرح اپنا جھنڈا لہرایا کہ دوسری پارٹیوں کا تقریباًصفایا ہو گیا، اروناچل، مدھیہ پردیش میں پہلے سے بھاجپا کی حکومت ہے، اروناچل اسمبلی کے پارلیامنٹ کے ساتھ ہونے والے انتخاب میں پھر سے وہ بر سر اقتدار آگئی ہے، اس کا فائدہ اسے ملا، اڈیشہ میں نوین پٹنایک کے کاموں کو پانڈین کا دیکھنا اور اسے پرچار میں اپنے ساتھ رکھنا بغل میں بٹھانا اور پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو اہمیت نہ دینا ہار کا سبب بن گیا، نوین پٹنایک کی مقبولیت میں آج بھی کمی نہیں ہے، لیکن ریاست سے چوبیس سالہ ان کا اقتدار ختم ہوگیا، اور پارلیامنٹ میں تو صفایہ ہو گیا، بی جے پی پہلی بار اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی،یہاں مودی میجک نہیں تھا، لیکن مودی جی کی تقریر کا یہ حصہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا کہ تم لوگ اڈیشہ کو تامل ناڈو کے حوالہ کر دو گے، پانڈین تامل ہیں اور نوین پٹنایک کے اس قدر قریب ہیں کہ حکومت کے سارے کام وہی دیکھتے اور فیصلے لیتے رہے تھے، یہ پورا اڈیشہ پہلے سے جانتا تھا کہ نوین پٹنایک صرف مکھوٹا ہیں، پردے کے پیچھے اقتدار کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ ہے، علاقائی تعصب کا یہ منتر کام کر گیا اور مقبولیت کے باوجود نوین پٹنایک کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔
آسام میں سیاسی پارٹیوں کی آپسی رسہ کشی کام کر گئی، انڈیااتحاد کا کوئی اثر وہاں دیکھنے کو نہیں ملا، مولانا بدر الدین اجمل بھی بری طرح ہارے، انہیں انڈین نیشنل کانگریس کے رقیب الحسن نے دس لاکھ بارہ ہزار چار سو انتیس ووٹوں سے ہرایا جو پارلیامنٹ الیکشن کی تاریخ میں ایک رکارڈ ہے، اس کی وجہ سے رقیب الحسن کا نام گنیز بک آف انڈیا میں درج ہو سکتا ہے، کانگریس اور آل انڈیا یونائیٹد ڈیموکریٹک فرنٹ کی آپسی لڑائی نے مولانا بدر الدین اجمل کو اس ذلت آمیز شکست تک پہونچا دیاکہ ان کی پارٹی کا پوری طرح صفایا ہو گیا، وہ تینوں سیٹ ہار گیے، اگر انڈیا اتحاد کے ساتھ مل کر انتخاب کا سامنا کرتے تو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا۔
آندھرا پردیش میں بھاجپا نے تیلگو دیشم پارٹی کو این ڈی اے کا حصہ بنایا، اس کا فائدہ چندرا بابو نائیڈو کو یہ ملا کہ وہ بھاری اکثریت سے آندھرا پردیش میں کامیاب ہو گیے اور وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ا ن کی واپسی ہو گئی، پارلیامنٹ کا الیکشن بھی انہوں نے این ڈی اے کے ساتھ لڑا، اس لیے نتیش کمار کی طرح ان کی حیثیت بھی کنگ میکر کی بن گئی، وہ جب چاہیں دہلی حکومت کو جھٹکا پہونچا سکتے ہیں اور ان کے بغیر دہلی کے اقتدار پر کسی کا قابض رہنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔
کرناٹک میں کانگریس کی حکومت تھی، لیکن وہ اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکی، راجستھان میں بھی بھاجپا کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا، کیرالہ میں البتہ اس کو ایک سیٹ مل گئی، اور پہلی بار وہاں اس کا کھاتا کھل گیا، منی پور، تریپورہ وغیرہ کے نتائج چونکا نے والے نہیں رہے، البتہ تامل ناڈو سے بھاجپا کا صفایا ہو گیا، یعنی وہاں اس کا کھاتا نہیں کھل سکا۔
بنگال میں ممتا بنرجی کا جادو باقی رہا اور بھاجپا کا سندیش کھالی مدا بھی فلاپ ہو گیا، یہاں ممتا کی سیٹ بڑھی اور بھاجپا کو کم از کم چھ سیٹ کا نقصان سہنا پڑا۔
۔
مہاراشٹرا میں بھی بھاجپا کو سخت نقصان اٹھانا پڑا، وہاں کی عوام نے نقلی شیو سینا کو ٹھکرا دیا اور مہا اگھاڑی جس میں کانگریس، شرد پوار کی نیشنل کانگریس پارٹی اور ادھو ٹھاکرے والی شیو سینا بازی مار گئی،ایکناتھ شنڈے جنہوں نے شیو سینا سے بغاوت کرکے بھاجپا کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا، اس کو منہہ کی کھانی پڑی اور عوام نے بتا دیا کہ وہ مہااگھاڑی کے ساتھ ہے، جس میں ادھو ٹھاکرے جو بال ٹھاکرے کے اصلی جانشیں ہیں اور شرد پوار جیسا چانکیہ موجود ہے، ہم اسی کو اصل مانتے ہیں۔ لوک سبھا کے ان نتائج نے پورے ملک کو جو سبق دیا ہے وہ یہ کہ
1۔ اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، ڈکٹیٹر شپ، آمریت او رنفرت کی کاشت کو یہاں کے لوگ پسند نہیں کر تے اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اسے الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
2۔ اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب یہاں کے عوام کو پیاری ہے اور وہ ہندتوا کے تسلط کے ذریعہ اس تہذیب کا خاتمہ نہیں دیکھ سکتے، کانگریس کی بہت ساری سیٹیں اس لیے بڑھ گئیں کہ لوگوں کو راہل گاندھی کی پیدل یاترا میں محبت کا پیغام پسند آیا، اور ان کا یہ جملہ تو سلوگن بن گیا کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“۔
3۔ عوام نے سیاستدانوں کو یہ بھی بتا دیا کہ جذباتی تقریریں، جھوٹے وعدے، دوسروں کی توہین کرکے الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، اسی وجہ سے مودی کی گارنٹی، منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دینے وراثتی ٹیکس، مسلمانوں کو رزرویشن دینے، انہیں قبرستان اور پاکستان پہونچانے کی تقریروں پر انتخابی جلسوں میں مودی، مودی کے نعرے خوب لگے، لیکن یہ نعرے ووٹ میں بدلنے میں ناکام رہے، بھاجپا کے پاس اپنی دس سالہ کار کر دگی کے نام پر نوٹ بندی، جی، ایس ٹی، رام مندر، تین طلاق کے خلاف قانون، 370 کا کشمیر سے خاتمہ، پارلیامنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے علاوہ کہنے کو کچھ نہیں تھا، نوٹ بندی، جی ایس ٹی سے ساری عوام پریشان ہوئی اس لیے اس کا ذکر کرنے سے وہ کتراتے رہے۔
4۔ بھاجپا والے مسلم ووٹوں کی ضرورت کا انکار کرتے تھے، اور اس کو کوئی ٹکٹ بھی انہوں نے نہیں دیا، شاہ نواز حسین ان کے خاندانی داماد ہیں، اس لیے پنڈولم کی طرح ان کو لٹکا تے رہتے تھے، اس بار ان سے بھی بھاجپا نے دامن جھاڑ لیا تھا، دوسری طرف مسلمانوں نے اپنے ووٹ کو عموماً منتشر نہیں ہونے دیا، ایسے میں پہلی بار انہیں مسلمانوں کی ووٹ کی اہمیت سمجھ میں آئی، ستر فی صد جگہوں پر بھاجپا کے امیدوار اس لیے ہار گیے کہ وہاں مسلمانوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا، اس اہمیت کو وہ انتخاب سے پہلے محسوس کرنے لگے تھے اس لیے نریندر مودی اور امیت شاہ نے ہندو مسلم کا رڈ کھیلا تا کہ ہندو ووٹ مجتمع ہو جائے، لیکن ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں“۔
5۔ این ڈی اے نے پارلیامنٹ میں اکثریت حاصل کرلی ہے، اس کی حکومت بن رہی ہے، لیکن وہ گٹھ بندھن کی حکومت ہے اور گٹھ بندھن میں شامل پارٹیاں ان کی لگام اس طرح کسیں گی کہ من مانی کا کوئی موقع حکومت کے پاس نہیں ہوگا، بھاجپا تنہا 243/ سیٹیں ہی حاصل کر سکی ہے، اس لیے حلیف پارٹیوں کا خیال رکھنا ہوگا، پہلے کی طرح نہیں ہوگا کہ بھاجپا اکثریت کی وجہ سے کسی کی سنتی نہیں تھی، پارٹیوں کی کون کہے، ان کی اپنی پارٹی کے نیتا بھی اجنبی بن کر رہ گیے تھے،ا میت شاہ، نریندر مودی، راج ناتھ سنگھ کے علاوہ عام آدمی کو کسی وزیر کا پتہ بھی نہیں تھا، اور عام لوگوں کی بات کیا، اساتذہ اور آئی ایس، آئی پی ایس کی تیاری کرنے والے بھی ان ناموں سے نا واقف تھے، جو کچھ ہوتا نریندر مودی اور امیت شاہ مل کر کر ڈالتے تھے، نئی حکومت میں یہ طریقہ کار باقی نہیں رہ پائے گا، اس سے آمریت اور ڈکٹریٹر شپ کا خاتمہ ہوگا۔
6.گودی میڈیا پر پہلے ہی اعتماد ختم ہو چکا تھا، اس بار کے ایکزٹ پول نے ثابت کر دیا کہ ٹی وی چینل ہو یا ایجنسیاں سب بھاجپا کے ہاتھوں بکی ہوئی ہیں، ان کی باتیں، تبصرے اعداد وشمار سب جھوٹے تھے، ان کے مقابل یو ٹیوب چینلوں کے اکزٹ پول زیادہ صحیح ثابت ہوئے۔ پتہ یہ بھی چلا کہ ان کے جاری کردہ اعداد وشمار سے حقیقت کا واسطہ نہیں ہوتا، یہ آن ٹیبل اعداد وشمار تیار کرتے ہیں اور حکمراں طبقہ سے روپے بنانے کا کام کرتے ہیں، وہ بھول گیے کہ میڈیا جمہوریت کے چار ستون میں سے ایک تھا، انہوں نے پیسے لے کر اقتدار کی غلامی قبول کر لی تو وہ کس طرح جمہوریت کے چوتھے ستون رہیں گے، اس بار کے اگزٹ پول نے سب کی پول کھول دی اور تھوڑا بہت جو بھرم باقی تھا وہ بھی جاتا رہا۔
اس بار کے انتخابی نتائج کے یہ چند مثبت پیغامات ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے، تاکہ پھر کوئی سر پھرا اقتدار کے گھمنڈمیں یہاں کی جمہوریت کو ختم کرنے کاحوصلہ نہ جٹا سکے۔