ایک مخلص و محسن دوست نیاز عطا کی وفات
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
_______________________
جس کو رہنا رہے قیدئی زنداں ہوکر
ہم تو اے نفسو ! پھاند کے دیوار چلے
انتقال جس کا ہو کسی فرد خاندان کا ،عزیز و قریب کا، دوست و ہم نشین کا دل و دماغ پر چوٹ ضرور لگتی ہے ۔ عربی زبان میں اسی چوٹ کو صدمہ کہتے ہیں اور حدیث شریف میں ہے ،، الصبر عند الصدمة الاولیٰ ،، غم کا سہہ لینا جس کو صبر کہتے ہیں وہی معتبر ہے، جو پہلی چوٹ پر ہو ۔ وقت گزرنے پر ہر شخص کو صبر آہی جاتا ہے ،کیونکہ وقت خود ہر زخم کا مرہم ہے ۔
6/ جون کو عصر کے بعد بھائی مشتاق ندوی کے ذریعہ مخلص اور محسن دوست نیاز بھائی کی وفات کی خبر ملی ،(جس کا خدشہ اسی وقت سے لگا تھا جب وہ 4/ جون کو کوما میں چلے گئے تھے اور ڈاکٹر نے ایک طرح جواب دے دیا تھا)،اس وقت قلب و دماغ پر صدمے کا گہرا اثر تھا ، اس وقت ایک وفیاتی نوٹ اور مختصر تحریر نیاز بھائی کے بارے میں لکھا تاکہ دوست و احباب کو اس افسوس ناک واقعہ سے مطلع کر دوں ۔ وہ تحریر ایک محب ،مخلص کی یاد میں ٹپکے ہوئے آنسو تھے، مگر نیاز بھائی کا حق مجھ پر اس سے زیادہ تھا اور ہے اور جب تک ژندہ رہوں باقی رہے گا ۔
یوں تو موت و حیات خدائے واحد کے دست قدرت میں ہے ،ہزاروں روز پیدا ہوتے ہیں اور سیکڑوں روز لقمئہ اجل بنتے ہیں ،حوادث کی کمی نہیں روزانہ اچانک موت کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ایک شخص جو عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو اس کا وقت موعود جب بھی اور جس حال میں آئے کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ لیکن اگر دوست و احباب اور عزیز واقارب میں کسی جواں سال کی موت ہوتی ہے، تو صدمہ گہرا ہوتا ہے ، ہمارے دوست نیاز بھائی بھی قضا و قدر کے فیصلہ سے موت کی طرف جانے میں سبقت کرگئے ،ان کی موت اور ایسی اچانک موت کس طرح دبے پاؤں آئی کوئی قریب ہو یا دور ہر ایک کو حیرت میں ڈال گئی ،ایسا محسوس ہوا کہ نیاز بھائی زبان حال سے کہہ رہے ہیں:
جس کو رہنا ہے رہے قیدئی زنداں ہوکر
ہم تو آیے نفسو ! پھاند کے دیوار چلے
واقعی نیاز بھائی اس طرح کے حدود حیات سے نکل کر حدود آخرت میں داخل ہوگئے ،جیسے کوئی دیوار پھاند کر جائے اور گوش دل میں ان کی آواز سنائی دے رہی ہو ،، کہ اللہ نے میری بخش فرمائی اور مجھے اپنے فضل و کرم سے باعزت لوگوں میں کریم آقا نے شامل کرلیا ۔۔
نیاز بھائی سے میری رفاقت اور میرا تعلق کم و بیش تین دہائی سے زیادہ سے تھا ۔ 1989ء میں ندوہ میں درجہ ثانویہ خامسہ میں میرا داخلہ ہوا ، یاد رہے کہ راقم نے اسی سال شعبان المعظم میں ندوہ کی شاخ مدرسہ انوار الاسلام مادھو پور سیوان سے ثانویہ رابعہ کا سالانہ امتحان دیا تھا اور کامیابی حاصل کی تھی اور یہیں سے مادر علمی سے خوشہ چینی کا موقع ملا ۔
شوال المکرم میں 1407ھ جب ندوہ میں داخلہ لیا، تو باوجود نو وارد ہونے کے ندوہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا، کیونکہ اس سے پہلے جب راقم الحروف ثانویہ ثانیہ اور ثالثہ میں مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور میں زیر تعلیم تھا تو دونوں سال بقرعید کی چھٹی گزارنے خال معظم حامد الغازی صاحب ( حال پرنسپل مدرسہ حسینہ تجوید القرآن دگھی گڈا جھارکھنڈ و جنرل سکریٹری آل مدرسہ بورڈ جھارکھنڈ ٹیچر ایسو ایشن) کے پاس رکا تھا، جو اس وقت ندوہ میں عالیہ کے درجات میں زیر تعلیم تھے اور بقرعید کی چھٹی میں ندوہ میں رک جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اس وقت ندوہ میں ہمارے علاقہ کے درجنوں سینئر طلبہ زیر تعلیم تھے ، جس بنا پر کسی وقت اجنبیت کا احساس نہیں ہوا ۔ مزید یہ کہ استاذ الاساتذہ جناب مولانا شفیق الرحمن صاحب ندوی رح سے بھی پہلے سے تعارف ہوگیا تھا، وہ اس وجہ سے کہ وہ سیوان مدرسہ کے ناظم تھے اور دو بار حضرت مدرسہ انوار الاسلام مادھو پور تشریف لائے تھے ۔ مولانا سے یہ تعلق ہمیشہ کام آیا اور وہ میرے علمی و فکری مربی تھے، ۔
شوال میں جب سیکشن اور فصلوں کی تقسیم ہوئی تو پہلے میرا نام الف سیکشن میں تھا ،ہفتہ دس دن اسی سیکشن میں پڑھنے کا موقع ملا ، جس میں نحو قطر الندیٰ کا گھنٹہ مولانا محمد برجیس صاحب کا تھا ، منثورات مولانا حفظ الرحمن صاحب ندوی اور تہذیب الاخلاق مولانا عبد العزیز صاحب بھٹکلی ندوی اور قدوری کا گھنٹہ مولانا محمد طارق ندوی صاحب کا تھا ۔ وغیرہ
اچانک طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے الف اور ب کے بعد ج/ سیکشن کا اضافہ کردیا گیا اور پندرہ طلبہ کو اس سیکشن میں منتقل کر دیا گیا ۔ نیاز عطا ،معراج ملیح آبادی اور عبید قریشی وغیرہ کیساتھ میرا نام بھی اس سیکشن میں آگیا ، سیکشن الف سے نام کٹنے کا اتنا صدمہ ہم ساتھیوں کو تھا کہ لگ رہا تھا کہ ہم لوگوں نے کوئی قیمتی سرمایہ کھو دیا ہے ۔ ساتھیوں نے اپنے اپنے طور پر کوشیش کیں، لیکن کسی کو کامیابی نہیں ملی ۔۔
افسوس اس کا تھا کہ مولانا برجیس صاحب ندوی سے نحو پڑھنے کی سعادت چھن گئی، جو نحو و ادب کے امام ہیں اور ان کی طرح انداز تدریس کا کوئی اور نہیں ہے ، قدوری مولانا طارق صاحب جس جذب و مستی سے پڑھاتے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ۔ مولانا عبد العزیز صاحب صرف کتاب ہی نہیں پڑھاتے بلکہ فکر ندوہ کو سمجھا اور پلا دیتے ہیں کہ طالب علم اعتدال و توازن اور وسطیت کا مفہوم جان لے اور یہ سمجھ لے کہ کس وقت کہاں کس چیز کی کتنی اور کس مقدار میں ضرورت ہے ۔
بہر حال سیکشن الف کے چھوٹنے کا صدمہ بہت تھا ۔ تقریباً پندرہ روز استاد محترم مولانا عبد العزیز صاحب سے استفادہ کا موقع ملا تھا، مولانا موصوف نے حدیث کی کتاب کے درس سے پہلے ندوہ کا مقصد اور ندوہ کب، کیسے اور کیوں قائم ہوا ؟ ندوہ کا نمایاں امتیاز اور وصف کیا ہے ؟ اس پر سیر حاصل گفتگو کی ،جس کا مفہوم اور خلاصہ کچھ اس طرح تھا ۔
،، سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد کا عہد اور زمانہ تاریخ وہ دور ہے جو اپنی کسمپرسی کے کے محتاج بیان نہیں ،یہ سب اہل علم کی نظر میں ہے ، ہندوستان کے مسلمان شکست خوردہ احساس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے پھر اپنے اپنے نظریہ اور توفیق کے مطابق علماء اور اہل فکر و نظر نے قوم کو اس مہلک احساس سے نکالنے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں دار العلوم دیوبند قائم ہوا اور پھر علی گڑھ مسلم محمڈن کالج قائم ہوا ان دونوں بزرگوں کے خلوص و نیک نیتی کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس ملی کرب اور فکری کشمش کو ذہن میں رکھئے جو قدیم صالح اور جدید نافع کے درمیان برپا ہوئی اور ملت اسلامیہ ہندیہ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، اس وقت اور اس ماحول میں ندوہ کا قیام عمل میں آیا جس نے اصلاح نصاب اور رفع نزاع باہمی میں کلیدی کردار ادا کیا اور قدیم و جدید کی کشمکشِ کو قصئہ پارینہ قرار دیتے ہوئے خذ ما صفا دع ما کدر اور شعارنا الوحید الی الاسلام من جدید کے حکیمانہ اصول کو اپنا مطمح نظر بنایا ۔یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ دار العلوم دیوبند نے اگر ایک ضرورت پوری کی ،جو اس وقت کے ماحول کے مطابق اصل و حقیقی تھی تو علی گڑھ تحریک نے بھی ایک خلا کو پورا کیا اور ندوہ نے دونوں کے درمیان پیدا ہو جانے والی خلیج کو پاٹ دیا ،اسی پر دونوں جانب سے اس کو تائید حاصل ہوئی ۔۔ تحریک ندوہ نے جہاں ماضی میں کارنامے انجام دیا جن کی پذیرائی ہوئی، وہیں حال میں بھی بڑے نمایاں کام اللہ تعالیٰ نے اس تحریک سے وابستہ افراد سے لیا ۔ خصوصا عہد جدید میں ادب کے ذریعہ جب اسلام پر حملہ کیا گیا ، اشتراکیت کے افکار کو ناول و افسانہ اور دیگر اصناف کا سہارا لے فنکاری کا ثبوت دیتے ہوئے پردئہ زنگاری میں پیش کیا گیا تو اس میں شک نہیں کہ عرب و ہند کے علماء نے بروقت ادب اسلامی کی آواز اٹھائی اور ایسے مفسد ادب کا مواخذہ کیا گیا ، اس خدمت میں نمایاں کردار ندوہ کا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال ہم ساتھیوں میں جن کو الف سیکشن اور ان ماہر اساتذہ کے درس کے چھوٹنے کا صدمہ کافی دنوں رہا ،ان ساتھیوں میں بھائی نیاز بھی پیش پیش تھے ، اس وقت بھی ان کا فکری شعور اور ذہنی بلندی ہم سے زیادہ تھی ، تعلیم شروع ہوئی۔ سیکشن ج/ میں مولانا اکرم صاحب ندوی سے قطر الندیٰ اور مولانا محمد اقبال غازی پوری ندوی سے منثورات کلیلہ و دمنہ مولانا جاوید اقبال ندوی سے انشاء مولانا سلطان الھدیٰ صاحب ندوی سے قدوری مولانا مظہر کریمی صاحب سے شذ العرف اور ماسٹر اکرام صاحب کانپور سے انگریزی پڑھنے کا ہم سب کو موقع ملا ، مولانا اکرم درس کے علاوہ خارجی باتیں بھی بہت بتاتے تھے۔ اس سیکشن میں جن ساتھیوں سے زیادہ مناسبت و انسیت رہی، بلکہ بعد میں کھانا پینا ٹہلنا بھی ساتھ رہا، ان میں نیاز بھائی کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ ہم دونوں پانچ سال ندوہ میں( وہ عالمیت کرکے جامعہ ملیہ اسلامیہ چلے گئے تھے ہم دو سال فضیلت میں بھی رہے) اس طرح رہے کہ بہت سے طلبہ اور خاص طور پر کینٹین کے مالک یہ سمجھتے تھے کہ ہم دونوں سگے بھائی یا قریبی رشتہ دار ہیں ۔
ان کی تحریری صلاحیت اچھی تھی ، کتابوں کا وہ مطالعہ خوب کرتے تھے ،ڈاکٹر فہیم اختر ندوی صاحب، ندوہ کے مایہ ناز فرزند جن کو ہم لوگ ندوہ میں فہیم بھائی کہتے تھے ، فیروز عطا ندوی برادر اکبر نیاز عطا کے درسی ساتھی تھے ، جس کی وجہ سے نیاز بھائی کا ان سے بہت تعلق تھا اور نیاز بھائی کی وجہ سے میرا تعلق بھی ہوا ۔
ہم دونوں ان سے مشورہ لے کر کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے ہم تو صرف مشورہ لیتے تھے ،لیکن نیاز بھائی باقاعدہ اس کتاب کو خرید کر یا حاصل کرکے مطالعہ کرتے تھے ، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ثانویہ خامسہ میں سیرت النبی (مؤلفہ شبلی نعمانی رح / سید سلیمان ندوی رح)کی مکمل جلدیں دو مہینے میں مطالعہ کرلیا ، اسی سال راقم الحروف نے نیاز بھائی کے مشورہ سے راغب الطباخ کی کتاب تاریخ افکار العلوم الاسلامیہ کا اردو ترجمہ تاریخ افکار علوم اسلامی مترجم افتخار بلخی کا حرفا حرفا مطالعہ کیا، جس سے علوم و فنون کی حقیقت کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ۔
نیاز بھائی کا آبائی وطن صوبہ بہار کا مردم خیز ضلع ، ضلع دربھنگہ تھا ،لیکن ان کے والد جناب عطاء اللہ صاحب مرحوم دہلی میں مقیم ہوگئے تھے اور وہیں بود و باش اختیار کر لی تھی ، اس لئے نیاز بھائی اپنے نام کے ساتھ دہلوی کا لاحقہ بھی لگاتے تھے ۔
ان کا ادبی ذوق اچھا تھا، وہ تقریر کرتے نہیں تھے لیکن بہت سے ساتھیوں کو تقریر لکھ کر دیا کرتے تھے ، انعامی مقابلے میں مجھے متعدد تقریریں لکھ کر دیں ، جس سے میں نے انعامات حاصل کئے ، مضمون اچھا لکھتے تھے ،ان کی تحریروں میں ظرافت اور طنز و مزاح کی آمیزش تھی ۔ رمضان کی چھٹیوں میں وہ مجھے خط بھی لکھا کرتے تھے ، ایک موقع پر رمضان کے پہلے ہفتہ میں ان کا خط آیا ،جس کا ابتدائیہ کچھ یوں تھا ،،
عزیزم دمدار ! سلام عقیدت
خوش رہو ،خوشیوں کے ترانے گاتے رہو ۔ میں بھی بہتر ہوں اور اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے درمیان دلی میں خوش ہوں ۔
تم دمدار سے دم والا جانور نہ سمجھ لینا اور ناراض نہ ہو جانا ، دم دار ایک خوبصورت ستارہ کا نام ہے، ہم نے تم کو اس سے تشبیہ دی ہے ۔ اب خوش ہوگئے نا ،ذرا چہرے پر ہاتھ رکھ کر مسکراؤ تو ۔
اچھا اور بتاؤ کیسے ہو؟ والدین اور دیگر عزیز و اقارب کیسے ہیں ، رمضان کے اس مبارک مہینے میں والدین کی خدمت کرکے آخرت کی سعادت حاصل کر رہے ہو یا نہیں ؟ ۔ دیکھو اس سعادت سے محروم نہیں ہونا ،یہ سب سے بڑی سعادت ہے ۔۔
(جاری)