۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

تمہاری جیت میں پوشیدہ ہار ہے شاید

✍️ عبدالغفارصدیقی

________________________

عام انتخابات ہوگئے۔رزلٹ آگیا۔تاج پوشی ہوگئی ایک بار پھر مودی جی کے سرپر وزرات عظمیٰ کی پگڑی بندھ گئی۔مگر اس بار اس پگڑی میں پھولوں کے ساتھ کچھ کانٹے بھی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی جی ان خاروں کو کس حد تک اور کس وقت تک برداشت کرتے ہیں۔ویسے ان میں سہن شکتی(تحمل) بہت ہے۔ان کے مخالفین انھیں نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں،بقول ان کے جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں اس کے باوجود بھی مودی جی کے لب بے مزہ نہیں ہوتے۔بعض لوگ اسے تحمل کے بجائے کچھ اور ہی نام دیتے ہیں۔اس بار جس حکومت کی سربراہی انھیں سونپی گئی ہے اس میں دودرجن سے زیادہ پارٹیاں ہیں،بیشتر پارٹیاں ان کی فکر اور تہذیب سے اتفاق نہیں رکھتیں،مثال کے طور پر ٹی ڈی پی کو ہی لے لیجیے،اس نے اعلان کردیا ہے کہ آندھرپردیش میں مسلمانوں کو دیا جانے والا چار فیصد رزرویشن جاری رہے گا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو رزرویشن دینے کے نام پر تو بی جے پی والوں کا دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے،وہ اس کو کیسے برداشت کریں گے؟نتیش جی بھی کچھ کم مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہیں،جب ضرورت پڑتی ہے ٹوپی اور رومال گلے میں ڈال کر مولانا نتیش بن جاتے ہیں۔انھوں اگنی ویر یوجنا پر نظر ثانی کی گزارش تاج پوشی سے پہلے ہی کردی ہے۔لوک دل کے جینت چودھری کسانوں کے مسیحا سمجھے جاتے ہیں او رمودی حکومت کو کسان اپنا دشمن مانتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کی متضاد خیال پارٹیاں کس وقت تک ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔مودی جی نے پچھلے پچیس سال(15سال وزیر اعلیٰ اور 10سال وزیر اعظم) جس انداز سے حکومت کی ہے وہ بالکل آزاد انہ طرز تھا،ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا۔اپوزیشن نام کی کوئی چیز ان کے سامنے نہیں تھی۔وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے اور جو چاہتے تھے ہوتا تھا۔ وزراتوں کے قلم دان الگ تھے مگر سب میں سیاہی ایک ہی تھی۔مگر اب کیا ہوگا جب وزراتیں الگ ہوں گی اور ان کی سیاہی بھی دوسروں کی ہوگی،معلوم نہیں ایسے قلم سے مودی جی اپنی مرضی کی کہانی کس طرح لکھوائیں گے۔ مودی جی نے جس حکومت کا حلف اٹھایا ہے اگر اسے پانچ سال چلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیں گے۔
اس وقت ذرائع ابلاغ میں ایک بحث یہ چل رہی ہے کہ موجودہ انتخابات میں کس کی جیت ہوئی ہے؟کیا مودی جی کو واقعی کامیابی ملی ہے؟یا وہ بظاہر جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں ان ایشوز کو نظر میں رکھنا ہوگا جن کو سامنے رکھ کر ہمارے محترم وزیراعظم نے انتخابی مہم چلائی تھی۔ان کی پوری مہم  خاص طور پردو نکات پر محدود تھی۔ایک یہ کہ ”جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے“۔اور ”یہ لڑائی رام بھکتوں اور رام ودروہیوں کے درمیان ہے۔“یعنی اس انتخاب کا ہم ایشو شری رام تھے۔اسی کو سامنے رکھ کر جنوری میں مندر کا افتتاح کیا گیا تھا حالانکہ تمام پنڈت اور مہاراج اس بات پر متفق تھے کہ ابھی اس کی شبھ گھڑی نہیں ہے۔اب ایودھیا میں مودی جی کی شکست نے یہ ثابت کردیا کہ واقعی وہ شبھ گھڑی نہیں تھی۔وہ ایودھیا جس میں شری رام کا  بھویہ رام مندر ہے۔ جس کے افتتاح کے موقع ہر ایک دو نہیں ہزاروں عظیم الشان شخصیات پہنچی تھیں،پورے پردیش کا ماحول ”رام مے“ہوگیا تھا۔جے شری رام کے ادگھوش سے پورا ملک گونج رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ آنے والے عام انتخابات میں بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کو کوئی سیٹ نہیں  ملے گی مگر اسی رام نگری سے مودی جی ہار گئے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایک دلت سے ہار گئے،جن کا نام اودھیش ہے اوراتفاق یہ ہے کہ شری رام اور ان کے والد شری دشرتھ کو بھی”اودھیش“ کہا جاتا ہے،اس شکست نے یہ ثابت کردیا کہ رام کا اصلی بھکت کون ہے۔صرف ایودھیا ہی نہیں ہارے بلکہ خود بنارس کی سیٹ پر بھی ہارتے ہارتے بچے۔جس سیٹ پر وہ 2019میں 4لاکھ 79ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے وہیں اس بار یہ فرق گھٹ کر ایک لاکھ 52ہزار ہی رہ گیا۔مودی جی اتنے کم فرق سے جیتے ہیں کہ ان سے زیادہ فرق سے جیتنے والے ممبران لوک سبھا کی تعداد 224ہے۔یہ فتح نہیں شکست ہے۔
دوسرا ایشوجس پر مودی جی کی پوری مہم چلی وہ مسلمان ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کانگریس آگئی تو مسلمانوں کو سب کچھ دے دے گی،یہاں تک کہ ہماری بہنوں کے منگل سوتر بھی چھین کر مسلمانوں کے حوالے کردے گی۔اس ملک میں مسلمان پندرہ سو سال سے رہ ہے ہیں۔آپ  کے بھکتوں نے بھلے ہی مسلم بہنو ں کے سر سے حجاب نوچ کر پھینک دیا ہے مگر ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں کسی مسلمان نے کسی ہندو بہن کے گلے سے منگل سوتر چھینا ہو۔مودی جی کی طرح ہماری ریاست کے وزیر اعلیٰ نماز کے تعلق سے یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ”اب، کوئی بھی یوپی کی سڑکوں پر نماز پڑھنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مساجد نے اپنے مائیک ہٹا لیے ہیں۔ آئندہ 5 برسوں میں لوگ مساجد کی اذانوں کو بھول جائیں گے۔“مسلمانوں کو لے کر جو جی آئے میں بکواس کی گئی۔ان کے مذہب کو نشانہ بنایا گیا اور مسلمان خاموش رہے۔مگر انتخابی نتائج نے ثابت کردیا کہ یہاں اللہ اکبر کی کبریائی کا اعلان و اظہار جاری رہے گا۔ بھارت میں نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،اورغیر مسلم اتنے بے وقوف بھی نہیں ہیں جتنا آپ انھیں سمجھتے ہیں۔اس طرح یہ بھی ایک طرح سے مودی جی کی شکست فاش ہے۔
جو سیاسی جماعت چارسو پار کے نعرے سے میدان میں اتری ہواور جس نے اس کے حصول کے لیے سارے سرکاری تنتر منتر کا استعمال کیا ہو اس کے باوجود اسے سرکار بنانے کے لیے ضروری 272سیٹیں بھی نہ ملی ہوں تو اسے شکست نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ان 240سیٹوں میں بھی کتنی سیٹیں وہ ہیں جو مسلمانوں کی نادانی اور غیر دانش مندی کی وجہ سے جیتے ہیں،جن میں اترپردیش کی سولہ سیٹیں وہ ہیں جہاں بی ایس پی نے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا اور بعض مسلمانوں نے انھیں ووٹ دیا۔اس کے باوجود بھی بہن جی دلتوں کو شکریہ ادا کررہی ہیں اور مسلمانوں کو کوس رہی ہیں۔میری مسلمانوں سے دست بستہ عرض ہے کہ آئندہ وہ قسم کھالیں کہ بی ایس پی کو ووٹ نہیں کریں گے۔اس سے پہلے بھی بہن جی اپنی شکست کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتی رہی ہیں۔اگر مسلمان یہاں بھی یک طرفہ انڈیا الائنس کے امیدوار کو ووٹ کرتے تو شاید کچھ لوگ خود کو ہی بھول جاتے۔
مودی جی کی ہار میں مسلمانوں کا کوئی اہم کردار نہیں ہے اس لیے کہ مسلمان اس ملک میں صرف پندرہ فیصد ہیں اور بہت کم سیٹوں پر موثر ہیں۔البتہ ان کی ہار میں ملک کے دلت طبقات کا اہم کردار ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے یہ کہنا کہ اس بار چارسو سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہیں اور پھر آئین بدلنا ہے۔خود مودی جی کے دل کی منشا بھی یہی تھی۔اس اعلان نے ملک کی اقلیتوں اور اوبی سی نیر ایس سی ایس ٹی طبقات کے اندر خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا ایک احساس پیدا کردیا تھا۔گزشتہ دس سال میں ”سنکھیا بل“ پر جس طرح پارلیمنٹ میں آئین سازی کی گئی اس کو دیکھ کر یہ اندیشہ درست تھا کہ اگر بی جے پی کو چارسو سیٹیں ملیں تو وہ آئین کو کالعدم کرکے ملک کو ہندو راشٹر گھوشت کردے گی۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک پر صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا راج ہوگا،باقی تمام لوگ سیوک ہوں گے۔میں دلت رہنماؤں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے اس انتخاب میں بہت سوجھ بوجھ سے کام لیا اور فاشزم کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
انتخاب میں انڈیا الائنس نے بھی بہت دور اندیشی سے کام لیا۔خاص طور پر راہل گاندھی،کھڑگے جی اور اکھلیش یادو نے جس تحمل کا اظہار کیا وہ روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔البتہ اس الائنس کو باقی رہنا چاہئے۔علاقائی پارٹیوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی بقا الائنس کی بقا میں ہے۔الائنس کو ابھی سے ان ریاستوں میں محنت کرنا چاہئے جہاں آنے دو سال کے اندر اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔کانگریس کو بہت دن بعد عزت دار فتح نصیب ہوئی ہے،سماج وادی پارٹی کو بھی اترپردیش میں دوبارہ قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔بنگال میں ٹی ایم سی نے بھی بہت اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ان رہنماؤں کو اس جیت کے لیے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور کسی غرور وتکبر میں نہیں آنا چاہئے۔
اس الیکشن میں مودی جی اور ان کی جماعت کی اخلاقی شکست ہوئی ہے۔انھوں نے ملک میں انتشار و افتراق کی جو مہم چلائی اسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔انھوں نے آئین بدلنے کے جو ارادے ظاہر کیے تھے اس پر ووٹروں نے پانی پھیر دیا۔بی جے پی کو خوب معلوم ہے کہ اس کی جیتی ہوئی سیٹوں میں کتنی سیٹیں حقیقی اور ایمانداری پر مبنی ہیں۔اس کے ووٹ فیصد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی شکست قبول کرے اور اپنے نظریات پر نظر ثانی کرے۔کوئی انسان برا نہیں ہوتا،برے اس کے وچار اور اعمال ہوتے ہیں۔بھارت ایک عظیم ملک ہے،اس کی عظمت اس کی انیکتا میں ایکتا میں مضمر ہے۔مسلمان بھی اسی ملک کے باشندے ہیں،انھوں نے بھی اسی مٹی میں جنم لیا ہے،اس کی تعمیر میں ان کے اجداد نے بھی خون جگر لگایا ہے،اس کی آزادی اور تحفظ کی خاطر ان کے اسلاف کے سر بھی تن سے جدا ہوئے ہیں،وہ یہاں کسی اسلامی نظام کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں،نہ ہی وہ دوسروں پر شریعت نافذ کرنے کا اراد رکھتے ہیں،وہ تو خود اسلام اور شریعت سے دور بھاگ رہے ہیں اگر ان کو یہ سب کچھ کرنا ہوتا تو بادشاہت کے دورمیں آسانی سے کرلیتے،ایک ہزار سال حکومت کرنے کے بعد اور آپ کے بقول چار چار شادیاں کرکے بچے بنانے کے بعد بھی وہ صرف پندرہ فیصد ہیں،یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں آپ کو مٹانے یا گھٹانے کی کوئی ناپاک سازش نہیں کی۔اس لیے آپ بھی بقائے باہم کے اصول پر چلئے،آپ اور ہم کسی کو مٹا نہیں سکتے،کسی کو مارنہیں سکتے،یہ سب کچھ آسمان والے کے ہاتھ میں ہے۔وہ پل بھر میں زمین سے آسمان پر پہنچا دیتا ہے اور پل بھر میں عرش سے فرش پر لاکھڑا کردیتا ہے،جس کی بہترین مثال موجودہ الیکشن کے نتائج ہیں۔
تمہارے چہرے پہ جھوٹی ہنسی سی لگتی ہے
تمہاری جیت میں پوشیدہ ہار ہے شاید

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: