پی ایم مودی کو یاد رکھنا ہوگا!
✍️ شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
__________________
اپنے تیسرے دور میں ، وزیر اعظم نریندر مودی نے ، مرکزی وزرا کو قلمدانوں کی تقسیم میں کوئی چونکانے والا فیصلہ نہیں کیا ۔ داخلہ ، خارجہ ، خزانہ ، دفاع اور سڑک و ٹرانسپورٹ کی وزارتیں جن بھاجپائیوں کے پاس پہلے تھیں اس بار بھی انہیں کو سونپی گئی ہیں ۔ ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ امیت شاہ سے اس بار داخلہ کا قلمدان لے کر کسی اور کو سونپا جائے گا ، اور نرملا سیتا رمن کی جگہ کوئی اور وزیر خزانہ بنایا جائے گا ، لیکن دونوں ہی کو دوبارہ یہ وزارتیں سونپ دی گئی ہیں ، حالانکہ دونوں ہی کی کارکردگی سوالات کے گھیرے میں رہی ہے ۔ وزیر داخلہ کے طور پر امیت شاہ کو ایک ناکام وزیر کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے دور میں ملک میں امن و امان کی صورتحال کوئی بہت بہتر نہیں رہی ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات ، مآب لنچنگ کے واقعات اور دہشت گردانہ و انتہا پسندانہ حملے ہوتے رہے ہیں ، بالخصوص جموں و کشمیر اور نکسلی تحریک سے متاثرہ علاقوں میں ۔ دونوں ہی جگہ فوجی اہلکاروں اور اعلیٰ فوجی و پولیس افسروں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی ہے ، اور ٹارگٹ کلنگ میں نہ جانے کتنے بے قصور مارے گیے ہیں ۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹا دیا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ۔ کشمیری بھی ناراض ہیں اور کشمیری پنڈت بھی اور جموں و لداخ کے لوگ بھی کچھ خوش نہیں ہیں ۔ امیت شاہ کا سارا زور اپوزیشن کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے ، مسلم نوجوانوں کو اسیر زنداں کرنے اور حقوق انسانی کے کارکنان اور دانشوران کو ملک دشمن ثابت کرنے یا پھر سی اے اے اور این آر سی کا نفاذ کرنے پر لگا رہا ، ایک وزیر داخلہ کی حیثیت سے ملک کی مثبت تعمیر میں ان کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا ۔ کچھ یہی حال نرملا سیتا رمن کا تھا ۔ انہوں نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ پانچ سو ٹریلین کی اکانومی کے نعرے سے غریبوں کا پیٹ نہیں بھرتا ! سوال یہ ہے کہ گزشتہ حکومت کے ان ناکام وزرا کو دوبارہ وہی وزارتیں دے کر مودی کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب سامنے ہے ؛ وہ جتانا چاہتے ہیں کہ الیکشن کا جو بھی نتیجہ آیا ہو ، عوام نے بھلے ان کی پالیسیوں کو ٹھکرا دیا ہو ، وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح راج کریں گے ۔ قلمدانوں کی تقسیم میں یہ پیغام بھی ہے کہ ان کی حکومت کی بیساکھیاں یعنی نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو بھی ان کے فیصلے کو متاثر نہیں کر سکتے ۔ ان کے دوسرے حلیف ایکناتھ شندے اور اجیت پوار وزارتوں اور قلمدانوں کی تقسیم پر ناراض ہیں ، لیکن مودی انہیں یوں نظرانداز کر رہے ہیں جیسے ان کی کوئی حیثیت نہ ہو ۔ مودی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن وجوہات کے لیے عوام نے ان کی 63 سیٹیں کم کرکے ان کے پر کترے ہیں ان ہی پر دوبارہ عمل کرنا عقلمندی نہیں ہے ۔ مودی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ شندے اور اجیت پوار کی خفگی بی جے پی کے ہاتھ سے ریاست مہاراشٹر کو چھین سکتی ہے ، جہاں اکتوبر تک اسمبلی الیکشن متوقع ہیں ۔ مودی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ نتیش کمار کے وعدے بس ہوا کے ہوتے ہیں ، وہ کھسک لیں گے اور پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ مودی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ چندرا بابو نائیڈو پر آسانی سے سے لگام نہیں کسی جا سکتی ، وہ سیاست کے ایک گھاگ کھلاڑی ہیں ۔ اور مودی کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ عوام سب یاد رکھتی ہے اور مع سود کے واپس لوٹا دیتی ہے ۔ لہذا مودی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ خدا کے لہجے میں بولنے کا دکھاوا چھوڑ دیں۔