سراج الاولیاء مولانا سید شاہ نور علی : حیات و خدمات
✍️ محمد تجمل حسین نوری گنجریاوی
_________________
شیخ طریقت سراج الاولیاء حضرت مولانا الحاج سید شاہ نور علی معروف بہ حضور عالی علیہ الرحمہ والرضوان کی ولادت با سعادت 1907ء/ ١٣٢٨ھ کو اپنے آبائی وطن، دیہہ سادات، ضلع زرمت (افغانستان) میں ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی سید نور علی ہے جبکہ حضور عالی اور بڑے حضور سے آپ معروف ہیں۔ حضرت سید شاہ عبد العلی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے والد محترم اور حضرت سید شاہ عبد الھادی رحمۃ اللہ علیہ عم محترم اور قطب الاقطاب عارف باللہ حضرت سید شاہ فدا محمد عبد الکریم معروف بہ اعلی حضرت مولانا سمرقندی علیہ الرحمۃ آپ کے جد امجد ہیں۔ آپ کے پیر و مرشد شیخ طریقت حضرت سید میرا جان آغا رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن سے آپ کو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں خلافت و اجازت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ آپ کو سلسلۂ قادریہ اور چشتیہ کی بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف ہی میں حاصل کی اور 14 سال کی عمر میں اپنے والد محترم اور چچا جان (بڑے سید صاحب اور چھوٹے سید صاحب) کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے اور دربھنگہ ہی کے معروف ادارہ دار العلوم حمیدیہ قلعہ گھاٹ میں معقولات و منقولات کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل فرمائی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد روحانی منازلِ سلوک طے کرنے کے لئے اپنے ہی وطن قندھار میں اپنے پیر و مرشد سیدنا سرکار میرا جان آغا رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ تشریف لے گئے اور اپنے پیر و مرشد سے بھر پور اکتساب فیض فرمایا۔ پھر بار دیگر بہ ایمائے جد امجد حضرت مولانا سمرقندی علیہ الرحمۃ و بہ ایمائے مرشدِ گرامی دوبارہ ہندوستان تشریف لائے اور خلقِ خدا کی رشد و ہدایت کے لئے دائمی طور پر یہیں مقیم ہوگئے۔
تقریباً 1968 میں دربھنگہ شریف میں دار العلوم فدائیہ کا سنگ بنیاد رکھی گیا جس کے توسط سے ملک اور بیرون ملک کے سینکڑوں طالبان علوم نبویہ کو خانقاہ بلا کر علم سے آراستہ کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے دینی تعلیم کے فروغ و استحکام اور رب تعالیٰ کی عبادت و ریاضت کے لئے کثیر تعداد میں مدارس، مکاتب اور مساجد کی بنیاد رکھی، خصوصاً صوبہ بنگال کے ضلع اتر دیناجپور اور صوبہ بہار کے ضلع کشن گنج میں متعدد مدارس، مکاتب اور مساجد کا قیام آپ کے دست مبارک سے عمل میں آیا۔ بہار، بنگال، اڑیسہ، آسام، جھار کھنڈ، ممبی، دلی، راجستھان، گجرات، علاوہ ازیں بیرون ملک نیپال، افغانستان، اور پاکستان میں آپ سے وابستہ مریدین معتقدین، اور متوسلین لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کے مریدین میں بڑے بڑے جید علمائے کرام بھی ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت:
علاقہ طیب پور ضلع کشن گنج (بہار) کے ایک گاؤں پیر پوکھر کے رہنے والے مولانا امیر الرحمن صاحب نے (مشائخ نقشبندیہ اور حضور عالی) کے مصنف مفتی محفل اشرف صاحب سے فرمایا کہ میں ایک شب خواب میں سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کے شرف سے مشرف ہوا۔ مگر میں نے اس خواب کا کبھی کسی سے تذکرہ نہ کیا، اپنے دل ہی میں یہ راز سر بستہ کی طرح چھپا کر رکھا۔ کچھ دنوں کے بعد علاقے میں حضور عالی کا دورہ ہوا۔ دیگر عقیدت مندوں کی طرح میں بھی ملنے گیا، ابھی سلام اور دست بوسی کے مرحلے سے گزر ہی رہا تھا کہ میرے کانوں کے قریب حضور عالی نے فرمایا، "مولانا آپ نے خواب میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے نا؟” میں نے عرض کیا کہ جی حضور۔ تھوڑی دیر تک مجھ پر سکتے کی کیفیت طاری رہی! پھر یکا یک میرے قلب میں ایک عجیب انقلاب برپا ہوا اور یہ دل ایسا مائل ہوا کہ میں حضور عالی کے دست اقدس پر بیعت ہوگیا۔
آپ کی طرف سے ضروری ہدایات برائے مریدین:
١) دین و ایمان سب سے قیمتی سرمایہ ہے ان کی محافظت میں حد سے زیادہ کوشش ضروری ہے ۔ لہٰذا عقائد اہلسنت (مسلک اعلیٰ حضرت) پر قائم رہیں، بد مذہبوں سے دور رہیں
٢) نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اور دیگر فرائض وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کریں، اس لئے کہ کوئی بھی ریاضت و مجاھدہ ان فرائض کے برابر نہیں
٣) پنج وقتہ نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کریں اور جتنی نمازیں قضا ہوگئیں ہیں وہ سب جلد از جلد ادا کریں، کاہلی نہ کریں کہ موت کا کوئی وقت معلوم نہیں
٤) والدین، اولاد، بھائیوں، بہنوں، پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں
گویا آپ کی حیات پاک کا ایک ایک لمحہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت، اطاعت اور فرمانبرداری میں گزرا۔ آپ کی پوری زندگی مسلک اہلسنت (مسلک اعلیٰ حضرت) کے فروغ میں منہمک رہی۔
آپ کا شجرہ نسب حسبِ ذیل ہیں:
سید شاہ نورعلی بن سید عبد العلی بن مولانا سید خواجہ محمد برادر کبیر شیخ المشائخ فدا محمد عبد الکریم علیہ الرحمۃ بن سید بیگ بن سید نیاز محمد بن سید شیخ زادہ بن شیخ المشائخ سید شریف بن قطب العالم سید کمال الدین بن سید میر محمد بن سید عبد اللہ بن سید حاجی حبیب اللہ بن سید محمد بن سید احمد بن قطب الاقطاب سید شمس الدین بن غوث الاغواث سید سلیمان بن سید ناصر الدین بن غوث جہاں سید محمد روحانی بن قطب الاقطاب سید محمود بن سید محمد عمر بن سید یوسف بن سید ابوالنصر (مصنف کتاب فلاحی) بن سید ابو الفضل بن سید ابو الفوارض بن سید محمد شاہ بن سید تاج الدین شہزادہ اصفہان بن سید کمال الدین بادشاہ اصفہان بن سید سعداللہ بن شیخ الاسلام سید فخر الاسلام بن سید عبد السلام بن سید خالد بن سید محمد بن شیخ المشائخ سید نا فضیل بن سیدنا حضرت امام موسی کاظم بن سیدنا حضرت امام جعفر صادق بن سید نا امام محمد باقر بن سیدنا امام زین العابدین بن سید الشہداء صاحب گلگوں قبا سیدنا امام حسین بن سیدنا علی المرتضیٰ و سیدہ کائنات جگر پارۂ مصطفیٰ سیدہ فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ ﷺ و رضی اللہ عنھم اجمعین (صبغۃ الواصلین / مصباح العارفین/ گنجینۂ کرامت)
آپ سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم المرتبت بزرگ اور عالم با عمل تھے۔ آپ کے بعد آپ کے صاحبزادے پیرِ طریقت رہبرِ راہ شریعت شمس العرفاء حضرت مولانا الحاج سید شاہ شمس اللہ جان مصباحی معروف بہ سرکار بابو حضور دام ظلہ العالی آپ کے جاں نشین ہوئے۔
زندگی بھر اپنے گھرانے کا فیضان بانٹنے والے اور لوگوں کو جہالت اور گمراہی سے نکال کر اہلسنت کے شاہراہ پر لانے والے وہ مرد کثیر الصفات ١١٠ کی عمر میں ٢١ ذی الحجہ ١٤٣٨ھ مطابق 12 ستمبر 2017ء منگل کا دن گزر کر رات ١٠ بجکر ٥٦ منٹ پر واصل بحق ہوگئے۔
نمازِ جنازہ:
جانشین حضورِ عالی شمس العرفاء حضرت علامہ و مولانا الحاج سید شاہ شمس اللہ جان مصباحی دام فیوضہم القدسیہ نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی۔
آخری آرام گاہ:
آپ خانقاہ سمرقندیہ میں اپنے عم محترم حضرت سید عبد الہادی اور والد گرامی حضرت سید عبد العلی علیہما الرحمہ کے آغوش میں آرام فرما رہے ہیں۔
ابرِ رحمت ان کی مرقد پر گُہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے