✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
________________
4 جون کو انتخاب کے نتائج کے ساتھ دو اور قابل ذکر کام ہو ئے ایک تو شیر بازار ابتدائی رجحان میں گرتا چلا گیا اور بے تحاشہ گرا، جس کی وجہ سے حصص کے خریداروں کو غیر معمولی نقصان ہوا، جیسے جیسے شام تک این ڈی اے کو اکثریت ملنے کی بات سامنے آئی اور یقین سا ہو گیا کہ این ڈی اے کی حکومت بنے گی شیر بازار اٹھتا چلا گیا اور دوسرے دن غیر معمولی طور پر شیر بازار میں اچھال آیا۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ یہ اتار چڑھاؤ مصنوعی تھا، اس لیے اس کی جانچ ہونی چاہیے، جانچ تو ہونی نہیں ہے، البتہ اتنی بات صاف ہو گئی کہ مودی حکومت امراء کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، اسی لیے انڈیا اتحاد کی حکومت آنے کے خطرے سے حصص گرتے چلے گیے۔
نیٹ کا رزلٹ پارلیمانی انتخابی نتائج کے دن سے دس دن قبل چار جون کو ہی شائع کر دیا گیا تاکہ اس امتحان میں پیپر لیک اور سوالات کی خرید وفروخت کا معاملہ دب جائے۔ اس بد عنوانی کی وجہ سے پورے نمبر 720لانے والوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ الامان والحفیظ، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، چھ سو (600)سے اوپر نمبر لانے والے بھی اتنی بڑی تعداد میں آگیے ہیں کہ ان میں سے سب کو اچھے میڈیکل کالج نہیں مل سکیں گے اور کٹ آف مارکس اتنا اوپر رہے گا کہ بہت سارے امیدواروں کا داخلہ مشکل ہو جائے گا، اس پورے واقعہ کی جانچ اور نیٹ امتحان کو کینسل کرکے دوبارہ کرانے کی مانگ دن بدن زور پکڑ رہی ہے، معاملہ سپریم کورٹ پہونچ گیا ہے اور عدالت نے پیپر لیک معاملہ سے متعلق ایجنسی اور افراد کو نوٹس جاری کیا ہے، البتہ اس نے کونسلنگ پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے، سماعت کی تاریخ مقرر کر دی ہے، لیکن اس میں کچھ ہوتا جاتا نظر نہیں آتا۔ دوسرا بڑا واقعہ انتخابی نتائج کے دن شیر کی قیمتوں کا اوندھے منہہ گرجانا ہے، حصص خریدنے کے لیے مودی اور امیت شاہ نے تلقین بھی کی تھی، دوسرے دن حصص کی قیمت گرجانے سے شیر خرید نے والوں کا بڑا نقصان ہوا، بعض تو کنگال ہو گیے، کہاں یہ جا رہا ہے کہ ایسا انبانی اور اڈانی کوفائدہ پہونچانے کے لیے کیا گیا، حزب مخالف اس کی بھی جانچ کے لیے آواز اٹھا رہی ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔