حرام خوری: نحوستیں اور مفاسد
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
_________________
کھانا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ہمیں کھانا پڑتا ہے، شریعت نے ہمیں پاک اور حلال چیزوں کے کھانے کا حکم دیا ہے، ارشاد ربانی ہے: ”اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو“ (سورۃ البقرۃ:168)ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ نفیس اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو“ (سورۃ المؤمنون:51)اس کے برعکس حرام مال کے استعمال سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، سود، غصب، رشوت اور اس جیسی کئی چیزیں شریعت کی نظر میں حرام ہیں اور ان سے حد درجہ بچنے کا حکم شدت سے دیا گیا ہے، ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ“ (سورۃ النساء:29) اسی طرح احادیث میں کثرت سے حرام خوری پر وعیدیں آئی ہیں، حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی، مال حرام کے ذریعہ کیا جانے والا صدقہ قبول نہیں ہوتا، اس کے جسم پر جنت حرام ہوجاتی ہے جو مال حرام کھاکر پلا بڑھا ہو، حرام کھانے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا، اس لیے کہ جس جسم کی پرورش مال حرام سے ہوتی ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے، حرام مال کھانے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور یہ عدم برکت اور زوال نعمت کا سبب ہوتا ہے، قیامت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے دشمن ہوں گے اور اس سے نمٹیں گے جس نے مزدور کا حق مارا ہوگا، یہ اور اس قسم کی وعدوں کا تقاضہ ہے کہ ہر حال میں حرام خوری سے بچا جائے اور رزق حلال کی طلب اور تڑپ اپنے اندر پیدا کی جائے، تاکہ بندہ کی عبادتیں بھی قبول ہوں اور دعائیں بھی، مرنے کے بعد اسے جہنم میں نہ جلنا پڑے، کیوں کہ جب لقمہ حلال انسان کے پیٹ میں جاتا ہے تو اس کا ذہن خیر کی طرف راغب ہوتا ہے اور منکرات سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، کھانا کے پاکیزہ رہنے سے آدمی مستجاب الدعوات ہوجاتا ہے، حلال اور حرام کے درمیان ایک درجہ مشتبہات یعنی مشتبہ اور مشکوک کا ہے، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا، اپنے آپ کو محفوظ رکھا، اس نے اپنے دین وعزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ میں ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنیاد پر بعض دفعہ کھجور نہیں کھایا کہ ممکن ہے کہ وہ صدقہ کا ہو، حضرات صحابہ کرام بھی پورے طورپر اس پر عامل تھے، اپنے بچوں کے منہ میں انگلی ڈال کر مشتبہ چیزوں کو نکال باہر کیا کرتے تھے، حضرت امام ابوحنیفہؒ اس پر اس قدر سختی سے عامل تھے کہ ایک کپڑا ملازم نے دام بڑھنے کے موقع پر روک کر بعد میں گراں قیمت پر بیچا وہ خوش تھا کہ حضرت سن کر خوش ہوں گے کہ اچھی کمائی ہوئی، لیکن حضرت نے اصل قیمت اور نفع سب کچھ صدقہ کردیا کہ تم نے لوگوں کی ضرورت کا فائدہ اٹھایا، ایک موقع سے کپڑا کا ایک تھان خادم نے بغیر عیب بتائے ہوئے فروخت کردیا تو اس کی قیمت صدقہ کردیا، کیوں کہ یہ خریدنے والے کو دھوکہ دے کر حاصل کیا گیا ہے
ہمارے سماج میں سود، غصب، رشوت، جوئے، چوری وغیرہ سے حاصل ہونے والے مال کو مال حرام سمجھا جاتا ہے، لیکن بہت ساری شکلیں ایسی ہیں، جن کے حرام ہونے کا تصور ہمارے دل ودماغ سے نکل گیا ہے، مثلاً جھوٹی گواہی دے کر مال کمانا، جھوٹے اور غلط فیصلے، قاضی یاجج کا روپے لے کر کرنا، جھوٹی وکالت کرکے مال حاصل کرنا، یتیم، غریب، بیوہ اور دوسروں کے مال میں خیانت کرنا، ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، جن پیشوں کی اجرت کو مفتیان کرام نے حرام قرار دیا ہے، یاترکہ کے مال پر تقسیم کے بغیر قبضہ جمائے رہنا اور اس سے حاصل شدہ آمدنی کو حلال تصور کرنا، سب مال حرام ہے، یہ دوسروں کی حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے اور جب تک ترکہ وارثوں میں تقسیم نہ کردیا جائے اس کے مال حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اسی طرح تلک اور جہیز کی رقم، فقہاء نے اسے سُحُت یعنی رشوت کی طرح مال حرام میں شامل کیا ہے، لیکن ہمارے یہاں دھڑلے سے لڑکے سلامی لے کر شادی کے لیے بیچے جاتے ہیں اور اس مال حرام سے لوگوں کی دعوتیں کی جاتی ہیں، لینے والا خود تو گناہگار ہوتا ہی ہے، اگر کھانے والے کو پتہ ہو کہ یہ دعوت مال حرام سے کی ہے تو اس کے لیے بھی احتراز لازم ہے، ورنہ وہ بھی حرام مال کھانے میں شامل سمجھا جائے گا اور اس کی نحوستیں اور مفاسد اس کے اندر بھی حلول کر جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:
- شعب ابی طالب کا پیغام
- مصنوعی ذہانت: اکیسویں صدی کاسب سے بڑا انقلاب
- نئے فوجداری قوانین کا نفاذ: عوام کی پریشانیوں اور پولیس کے اختیارات میں اضافہ
اسی طرح لوگ متعینہ ڈیوٹی کے اوقات کی پابندی نہیں کرتے ہیں، ہم نے اپنی خدمت جتنے اوقات کے لیے دی ہے، اس کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے، بعض سرکاری دفاتر میں تو بارہ بجے لیٹ نہیں اور تین بجے بھینٹ نہیں کا فارمولہ چلتا ہے، بعض میں غیر حاضر رہ کر بھی دوسرے دن حاضری بنالینے کا طریقہ رائج ہے، آپ نے ڈیوٹی ہی نہیں کی، یا جتنے اوقات کرنی چاہئے تھی نہیں کی، تو اس کے بقدر اجرت حرام ہوگئی، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی ایک تقریر کا کلپ سننے کو ملا، فرمایا کہ اگر کوئی ملازمت کے تقاضے پورا نہیں کرتا، متعینہ اوقات میں ملازمت کے نفل نمازیں پڑھتا ہے تو بھی اتنے وقت کی اجرت اس کے لیے حرام ہوگی اور وہ حرام کہلائے گا، اسی طرح مزدور بھی متعینہ اوقات میں کام کے علاوہ کھینی کھانے، ناشتہ کرنے اور گپ لڑانے میں گذار دیتے ہیں یہ خیانت ہے اور خیانت کے ذریعہ حاصل ہونے والا مال بھی مال حرام ہے، اس لیے وقت کی پابندی اور ایمانداری سے متعلقہ کاموں کی انجام دہی رزق حلال کے لوازمات میں سے ہے، ورنہ حرام خوری سے بچنا ممکن نہیں ہوسکے گا، ہمارے اکابر اس کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ وہ ڈیوٹی کے وقت میں اگر کوئی ملنے آجاتا تو اس کے اوقات ڈائری میں درج کرتے اور اتنی تنخواہ کٹوا دیتے، جتنا وقت دوسرے کاموں میں لگا تھا، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے کسی نے پوچھا کہ میں استاذ ہوں اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تعلیم کے اوقات میں میرے پاس آکر لوگ بیٹھ جاتے ہیں، جس سے طلبہ کا حرج ہوتا ہے تو کیا یہ خیانت ہے، حضرت تھانویؒ نے فرمایا بے شک یہ خیانت ہے، دریافت کیا: جو اب تک ہوچکا، اس کی تلافی کی کوئی صورت؟ ارشاد فرمایا: سوائے توبہ کے کچھ نہیں، دریافت کیا کہ خارج اوقات میں پڑھا دیں تو؟ فرمایا یہ بھی بدل نہیں، کیوں کہ فرض کے قائم مقام نفل نہیں ہوسکتا، مولانا مفتی مظفر حسین، مولانا اطہر حسین، مولانا محمد یامین رحمہم اللہ ”کوتاہی ئ ملازمت“ کے نام سے کچھ رقم دفتر میں جمع کردیا کرتے تھے، تاکہ کوتاہی کی تلافی ہو جائے، اس قسم کی بہت ساری مثالیں اساتذہ مظاہر علوم اور دارالعلوم دیوبند کے بارے میں کتابوں میں مرقوم ہیں، ایک مدرسہ جو سرکاری تھا وہاں کی انتظامیہ کو دیکھا وہ دو حاضری رجسٹر رکھتے تھے ایک رجسٹر میں آمد ورفت کے صحیح اوقات کا اندراج کراتے تھے تاکہ آمد ورفت میں جو تاخیر ہوتی ہے، اس کی تنخواہ دفتر وضع کرلے۔
یہ تو مدارس دینیہ اور دینی تقاضوں سے واقف ہونے والوں کا حال تھا، مجھے ایک بار بوکارو میں ایک ایسے انجینیر کا سامنا ہوا جس نے بتایا کہ اس کا جھگڑا بوکارو اسٹیل سیٹی کے اکاؤنٹنٹ سے ہوتا ہے، میں نے کہا جھگڑا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے، پھر آپ کیوں جھگڑتے ہیں، کہنے لگے ہم لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے جاتے ہیں، کمپنی کی طرف سے جمعہ کی نماز پڑھنے کی چھٹی نہیں ہے، ہم فورمین (نگراں) کو کہہ کر چلے جاتے ہیں، وہ بخوشی اس کی اجازت دیتا ہے، لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ بھی اس کا حق نہیں رکھتا کہ کمپنی کے اوقات میں فرصت دیدے، اس لیے میں ہر مہینہ جتنا وقت جمعہ پڑھنے میں لگتا ہے اتنا جوڑ کر اس سے تنخواہ کاٹ لینے کو کہتا ہوں، وہ بگڑتا ہے کہ ہمیں جوڑ گھٹاؤ کرنا پڑتا ہے، کون تم کو اس بات پر مجبور کرتا ہے؟ میں کہتا ہوں اللہ، تو وہ اور بھڑک جاتا ہے، بتانا یہ ہے کہ جب رزق حلال کی طلب ہوتی ہے تو اس قسم کے واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں، پریشانیاں آتی ہیں، کبھی فاقہ کی نوبت بھی آسکتی ہے، لیکن حرام خوری سے بچنا، دنیا وآخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے، اس لیے پریشانیاں جس قدر آئیں رزق حلال کی فکر کرنی چاہئے اور اللہ کے بتاتے ہوئے طریقہ پر عامل رہنا چاہئے