Slide
Slide
Slide

اُمہات القدس:”دفتر ہستی میں ہے زریں ورق تیری حیات”

✍️ عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

________________

ہردور میں خواتین نے فروغ اسلام اور اس کے تحفظ کے لئے اپنے حصے کی نمایاں قربانی دی ہے،خواتین کی انہیں قربانیوں کے نتیجے میں دین بھی فروغ پاتا رہا اور اس کے شعائر کا تحفظ بھی ہوا ہے ، حال کے دنوں میں مسجد اقصی کے تحفظ اور صیہونیوں سے اس کی بازیابی کے لئے امہات القدس یعنی مظلوم فلسطینی خواتین نے جو جرئت دیکھا ئی اور اپنا دینی جذبہ پیش کیا ، اسے نہ صرف سراہا جارہا ہے ،بل کہ دنیابھر کی خواتین اسلام کے لئے رول ماڈل کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔فلسطین کی زمین پر اسرائیل کا ناجائز قیام,گرچہ 1948 میں ہوا ،مگر ظالم یہودیوں کی اس سلسلے کی ناپاک کوششیں قبل سے جاری رہیں ،جس کے نتیجے میں خواتین ونگ نے ، 1948 سے قبل قبل ایک سے زائد بار اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرتی رہیں، پیہم کوششوں کے بعد1884سے1920کے گرد، ان کی طرف سے منظم مظاہرے یہودی آباد کاری کے خلاف ہوتے رہے اور رہ رہ کر آواز یں اٹھتی رہیں ، میر صادق وجعفر کے لوگ ہر جگہ ملتے رہے ہیں ، اس لئے بعض اپنوں کی ناعاقبت اندیشی اور ابن الوقتی کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ صیہونی، فلسطین کے چھوٹے سے حصے میں بہ طور رفیوجی اور بھگوڑے یہاں جمع ہوتے رہے ،ادھر مردوں کے علاوہ خواتین بھی ان بھگوڑوں کے خلاف 1921سے عرب وومن سوسائٹی کے بینر تلے مسلسل چینختی چلاتی رہیں اور صرف اتنا ہی نہیں ،بل کہ 1924سے مسجد اقصی کی بازیابی اور فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کرنے کے جذبے سے متعدد خواتین نے قیمتی شہادتیں بھی پیش کیں : جن میں انابیہ زہرا، دلال المغربی ،لیلی خالد ، خالدہ حسن ،موھیبہ خورشید ،آیت الاخرس،،طفیلہ شاذ، شادیہ ابوغزالہ، اوروفا ادریس وغیرہ کی شہادتوں کی تفصیلات سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ دینی جذبہ اور شعائر اسلام کے تحفظ کے تئیں کتنی حساس خاتون تھیں اور آج کی دنیا میں دیگر خواتین اسلام کے لئے وہ کس درجہ بلند پایہ رول ماڈل ہیں۔
1921 سے 1930 کی دہائی میں متعدد پرتشدد واقعات ہوئے جس نے آخری دہائی میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی اور مظلوم فلسطینیوں کو مہاجر کیمپوں میں ایام گذاری کے لئے مجبور کردیا اور رفتہ رفتہ نتیجہ اس حد تک پہنچ گیا کہ یہ رفیوجی یہودی اپنے قدم جماتا گیا ،بالآخر وہ منحوس وقت بھی آیا جب 1948 میں فلسطین کی غصب کردہ زمین پر اس نے اپنے ناپاک "اسرائیل” کے قیام کا اعلان کردیا۔
واضح رہے کہ یروشلم فلسطین کا ایک ایسا شہر ہے ،جہاں دنیا کے تین بڑے مذاہب کے عبادت خانے پائے جاتے ہیں ،یروشلم جس کا قدیم نام بیت القدس بھی ہے ،جسے اب یروشلم کے نام سے زیادہ تر جانا جاتا ہے ،یہیں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی بھی ہے اور عیسائیوں کاسب سے بڑا چرچ ” ہولی سپلکر” جب کہ یہودیوں کے لئے ہیکل سلیمانی یعنی دیوار گریہ بھی موجود ہے ،ان مقامات کی وجہ سے اس پورے خطہ فلسطین میں شہر قدس کو کئی جہتوں سے مرکزیت حاصل ہے۔ ایک تازہ رپورٹ اور معتدل تجزیہ نگار سلیم آزاد کے مطابق ۔” اسرائیل کے قیام کے محض ایک روز بعد ہی 15 مئی سنہ 1948 کو پہلی بار اسرائیل پر 4 عرب ممالک، مصر، عراق، شام اور اردن نے حملہ کر دیا۔ سنہ 1967 میں مصر، اردن، لبنان اور شام نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا۔سنہ 1967 میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کی تصویرسنہ 1967 میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ کی تصویراسی طرح 6 اکتوبر سنہ 1973 میں بھی مصر اور شام کی افواج نے یہودی تہوار ‘یوم کِپر’ کے موقع پر اسرائیل پر تیسری بار حملہ کیا، لیکن ان تینوں حملوں میں اسرائیل نے اپنے حریفوں کو نہ صرف شکست دی، بلکہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا”۔

یہ بھی پڑھیں:

غرض !1948 کے بعد سے ان یہودیوں کے حوصلے بڑھتے گئے،چوں کہ بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی بھی اسے مل رہی تھی ،اس لئے یہ سازشی قوم ابتداءدن سے ہی ظلم وبربریت کو روا رکھنے پر اتارو تھی ،اس کے نتیجے میں جہاں فلسطینی جان بازوں کی گرفتاریاں اور شہادتیں جاری رہیں ،وہیں دختران اسلام اور معصوم بچوں کی گرفتاریاں بھی کثرت سے ہوئی ہیں۔ فلسطینی زمین پر یہودی فوجیوں کے ذریعے دختران اسلام کی گرفتاریوں کی کہانی طویل بھی ہے اور دل خراش بھی ،ھناشلپی کے مطابق اب تک جتنی جھڑپیں ہوئی ہیں ،اس میں اسرائیلی درندے جنگی اصولوں کی دھجیاں جی بھر کر بکھیرتے ہیں ،اسرائیلی درندوں کے ہاتھوں ضعیفوں ،معصوم بچوں اور خواتین تک کو بالقصد نشانہ بنایا جاتا ہے ، جہاں خاندان کے خاندان موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنوں کی لاشوں پر کوئی دوبوند آنسوں بہانے والا زندہ نہیں بچتا ،آسمانوں میں چیل اور کوے کی طرح اڑتے بم بردار راکٹ اور آگ برساتے جہاز ،مزاحمتوں کے دوران روز مرہ کی ضروریات میڈیکل ، ملک سینٹر اور بچوں کے اسکول تک کو ایک پل میں راکھ کا ڈھیر بنادیتے ہیں ،جہاں انسانی لاشیں بے گوروکفن ،فضاوں میں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔اسرائیلی درندوں کی فوجیں بچوں اور عورتوں کو چن چن کر اپنی قیدی وینو ں میں بھر بھر کر اٹھا لے جاتے ہیں ،جہاں انہیں بے دانہ وپانی ،تنگ وتاریک کوٹھریوں میں ،چوپایوں سے بد تر حالت میں زندہ لاش بن کر سانس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، خاتون قیدیوں کے ساتھ جو تشدد اور انسانیت سوز برتاو روارکھاجاتا ہے وہ نہایت ہی دردناک ہے ،کبھی ان قیدی خاتون کو جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ،کبھی بے لباس کر ان کی جامہ تلاشی ہوتی ہے ،کبھی انہیں آزادی کی لالچ دے کر ننگا کیا جاتا ہے ،غرض ! سزا کی وہ کون سی قسم ہے جو ان پر آزماکر انہیں تختہ مشق نہیں بنایا جاتا۔ ان بے قصور فلسطینی خواتین کے حمل گرائے جاتے ہیں ،ان کے نوزائدہ کو ان کے سامنے بندوق کی نوک پر رکھ کر دہشت پیدا کرنے کی ناپاک کوششیں کی جاتیں ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ناکوں پر بچوں کو جنم دینے پر مجبور ہوئیں، جنہیں بے دوا اور ںے علاج رکھ کر ان کے بچوں کو ممتا کی آنکھوں کے سامنے ہتھیلیوں پر دم توڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
مگر ساری اذیتوں کے باوجود امہات القدس ،یہ قربانی اس لئے دیتی ہیں ،کہ کل اس کا رب ،مسجد اقصی کے تحفظ اور اس کی بازیابی کے حوالے سے اس سے سوال نہ کرے اور اگر سوال ہو تو وہ مسکراکر اپنے جسموں پر لگے زخم دیکھا سکے اور بتانے کی جرئت کرسکے کہ ربا! میری جو سکت تھی اور جو میری ذمہ داری تھی میں دم آخر تک اس کو نبھا تی رہی ،میرے شوہروں کو شہید کردیا گیا ،میرے سامنے میرے بچوں کے لہو سے یہودی درندوں نے ہولی کھیلی ،مگر ربا میں نے شوہروں اور معصوم بچوں کی لاشوں کے سامنے تیرے گھر کی حفاظت میں پل بھر بھی کوتاہی نہیں کی۔ان فلسطینی خواتین کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اس جذبے سے کرتی چلی آرہی ہیں کہ اس کی گود میں پلنے والا ہر بچہ جذبہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا نمونہ بن کر زندگی کے دن گذار نے کا حوصلہ رکھتا ہے ،اس کے جیتے جاگتے نمونے ہمیں ان ویڈیوز کی شکل میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں ،جس میں یہ بچے مسجد اقصی کے پاکیزہ اور مبارک صحن میں ناپاک فوجیوں کو اپنے قبلہ اول اور فلسطین کی زمین پرسے کھدیرنے کے جذبے سے پتھر پھینکتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ،یہ حوصلہ مند بچے کبھی ان پر جوتے برساتے ہیں تو کبھی اپنی زندگی سے بے پرواہ ان ملعونوں کی بندوق پر تھوکتے ہیں ،انہیں طعنہ دیتے سنائی دیتے ہیں تو کبھی انہیں بزدل ، غاصب کہہ کر کتوں کی موت مرنے کی بددعا کرتے ہیں، بے شعوری کے باوجود ان بچوں میں یہ جذبہ صادق قابل دید وتقلید ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے پیچھے پیچھے پاوں چلتے ہوئے ،قبلہ اول کی سیڑھیوں تک پہنچ جاتے ہیں اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ ہی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے رب کی کبریائی کا نہ صرف نعرہ بلند کرتے ہیں ،بل کہ اللہ غایتنا اور القرآن دستورنا کہہ کر اپنے سے بڑوں کو استقامت کے ساتھ ان ملعونوں کے مقابلے پر اکساتے بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

رمضان کے مقدس دنوں میں10/مئی 2021 سے شروع ہونے والی جھڑپوں کے دوران وہاں کی خواتین اور دوشیزاو ں کا حال یہ تھا کہ وہ باری باری جیسے تیسے افطار اپنے گھر تیار کر تی رہیں ،مگر روزہ افطار کرنے وہ قبلہ اول حاضر ہوتی تھیں ،یہاں وہ تکبیر مسلسل کا ورد کرتی ہوئی بے خوف وخطرتلواروں کے سائے میں روزہ افطار کرتیں ،وہ گھروں کو تب جاتیں ،جب ان کے مرد نماز وتراویح سے فارغ ہو کر مسجد میں قیام نہ کرلیتے ،فلسطینی خواتین کی جرئت کو سلام کہ وہ بدقماش فوجیوں سے خائف ہوئے بغیر لذت ذکراللہ میں مشغول رہ کر ان دہشت زدہ ملعون فوجیوں کی زندگی دوبھر کئے رہتی ہیں ،اپنی شرمندگی چھپانے کی غرض سے جب ملعون ان کی گرفتاری عمل میں لاتا ہے تو مسکراکر یک لخت اس کے عزائم کو چخناچور کردیتی ہیں۔

اس طرح سے فلسطینی مائیں ،اپنے بچوں کی ،انقلابی ذہن کے ساتھ نہ صرف تربیت کرتے ہوئے ،تن تنہا وہ قریبا سو برس سے سرزمین فلسطین اور مسجد اقصی کی بازیابی کے لئے صیہونیوں سے پنجہ آزمائی کررہی ہیں ، بل کہ جام شہادت نوش کرنے والی ان خواتین میں قریب البلوغ وہ معصوم بچیاں بھی شامل ہیں ،جنہوں نے صیہونیوں سے مقابلے کے لئے کبھی گھروں میں آلات حرب تیار کرتے ہوئے تو کبھی ظالم یہودیوں کو جہنم رسید کرنے کے جذبے سے پلاننگ کرتے ہوئے ان ملعونوں کے ٹھکانوں کو تہہ وبالا کر نے کے دوران ، اپنے رب کے حضور جاپہنچیں ۔2021 کے اندر گیارہ روز کے مسلسل حملوں کے بعد عارضی طور پر گرچہ جنگ بندی ہوگئی ہے ،مگر اس مزاحمت کے نتیجے میں ڈھائی سوسے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوگئے ،جن میں انتالیس خواتین بھی شامل ہیں ۔یہ امہات القدس اور مقدس مائیں، بہین، ہماری خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں ،جو روز وشب اپنے لئے نہیں جیتیں ،بل کہ سرزمین انبیاءکی بقا اور دین وشعائر کے تحفظ کے لئے جیتی ہیں ،دین کو بلند کرنے اور حضرت خولہ رضی اللہ عنہاکی سنت کو زندہ کرنے کے جذبے سے قربانیاں دے رہی ہیں اور سوسال سے ہر اذیت وتکالیف کو رب حقیقی کی خوشنودی کے لئے خوش آمدید کہتی چلی آرہی ہیں۔

(جاری )

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: