حسین کے یزیدی عاشق
✍️ شاہد عادل قاسمی
_________________
آج کا سورج انسانی دھروں اور عام شاہ راہوں پر آگ کا گولہ برسا رہا تھا،ہر کوئ جل جانے سے بچنے کے لیے اپنی اپنی ترکیب اور کوشش کے لیے محوسفر تھا، انھیں انسانی سروں کے بیچ میں بھی چلچلاتی دھوپ میں کسی کے پیچھے بائک پر انسانی سروں کی فصلوں کو ناکام شمار کررہا تھا،بارہ بجے دوپہر کی دھوپ اور سڑک جام کی اس تصویر نے مجھے ہی نہیں سینکڑوں خلق خدا کو آگے پیچھے تک نہیں ہونے دیا،یااللہ الیکشن کا سیزن ہے اور نہ ہی کوئ کھیل وکودکا سمے ہے ، پھر یہ ہجوم سڑک پر کیوں دھوپ اور دھول کی آمیزش میں گرفتار ہے ؟حرمت کا مہینہ ہے پھر یہ کٹ حجتی کون سی مخلوق ہے جو سبھی راہ گیروں کے لیے وبال جان ہے، اشہر حرم کا مبارک ماہ سایہ فگن ہے پھر یہ کون ہے جو حرام کاری پر مصر ہے، ماہ اول کا وقت ہے پھر یہ کون ہے جو مریضوں کی گاڑیوں کو روک کر ان کی زندگی کا اختتام چاہ رہا ہے،معرکۂ حق وباطل کا ماہ ہے پھر یہ کون ہے جو اسلام مخالف مشن پر گامزن ہے،ماہ مذکور میں اپنی جان پر ظلم نہ کرنے کا فرمان خداوندی ہے پھر یہ کون ہے جو خداۓ برتر سے بغاوت کا بگل بجا رکھا ہے،سورۂ توبہ میں جس ماہ اشرف کا ذکر خیر ہے پھر بھلا یہ کون کتاب مبین کا منکر ہے جو سرکشی پر آمادہ ہے ؟یہ سبھی منظر کشی میرے ماتھے پر شرابور پسینے کے ساتھ جاری ہے،عظیم شہادت کی سچی تصویر کے غرض وغایت کے فقدان پر میرا ذہن کربلا کے سینے پر گردش کرنے لگا،عظیم شہید کی عظیم جرآت ، صبر، استقلال اور عزیمت پر میری جان ایک بار نہیں سوبار فنا ہونے کے لیے ترسنے لگی، یقینا وہ دل سوز اور دردناک وقت ہوگا جب نواسۂ رسول کی شہادت پر یزیدیوں نے ظلم کے قصے کو رقم کیا ہوگا،وقت کا یقینا وہ کٹھن مرحلہ ہوگا جب نہتوں پر نیزہ آزمایا گیا ہوگا، وہ ماہ جس کی حرمت کا اعلان اور رواج اس ظالم دور میں بھی تھا اس کی ناقدری کرکے ایک ایسی کربناک تاریخ رقم کی گئی جسے انسانیت کا سب سے بڑا مظلوم دن کہا جاتا ہے،ایسا مظلوم کون ہوسکتا ہے جو دریا سے پیاسا لوٹا ہو یقینا وہ افسوس ناک ہی نہیں غم ناک دن بھی تھا مگر قربان جائیے اس شہید آعظم پر جنھوں نے اپنی بہن کو بعد از مرگ رونے دھونے،نوحہ خوانی اور سرکوبی سے رکنے کی ہدایت کی،تاریخی اوراق ایسے سامنے پلٹنے لگے کہ اچانک یا حسین یا حسین کے بلند آواز سے میرا سلسلہ درہم برہم ہوگیا، ماضی کی تاریخ حالیہ تصویر سے ماؤف ہوگئ ،یہ عاشقوں کی کون سی منڈلی ہے جو ضدی بول اور ردی خول لیے سڑک پر تماشہ کئے کھڑی ہے،یہ کون سی جناتی جماعت ہے جسے ٹریفک رول کا علم ہے اور نہ ہی کسی کی رعایت کی فکر ہے،یہ کون سی منشیاتی مخلوق ہے جسے دھوپ لگتی ہے اور نہ لو چھو رہی ہے،یہ کون سے مکتب کی پڑھائ ہے، جسے تمیز ہے اور نہ ہی کوئ تہذیب ہے،یہ حق وباطل کی کون سی کش مکش ہے جو ان کے سروں پر سوار ہے،جس دن کا روزہ آدھی قوم سے زیادہ تعداد آج بھی رکھتی ہے بھلا یہ کس قوم کا حصہ ہے جو کھڑے کھڑے ایک سانس میں پانی کا بوتل سرعام پی رہا ہے،یہ کون سا میدان کربلا کا سچا ساتھی ہے جو بلا ہی بلا کررہا ہے،یہ کون سا عاشق حسین ہے جو حسینی اصول وضوابط کو ننگے پاؤوں روند رہا ہے،یہ کون سا دین اور مذہب کا حصہ ہے جو اپنی ضد اور انا سے مریضوں کو مار رہا ہے،یہ کون سا سچا خادم ہے جو خدامان دین کا راستہ روکا ہوا ہے،یہ کس آئیڈیالوجی کا فالوورز ہے جو کھلے عام اصول شکنی کررہا ہے ،یہ کون سا ماتم ہے جس پر دنیا خود ماتم کررہی ہے، یہ کون سا مرثیہ خوانی کا طریقہ ہے جس پر عوام کو زبردستی لادھاجارہا ہے،یہ کون سی سینہ زوری ہے جو دوسروں کے ساتھ زیادتی دکھارہی ہے سچ پوچھیئے تو یہ نہ پکا مسلمان ہے اور نہ ہی پکا انسان ہے،اسلام تو راستہ سے کانٹا بننا ایمان کا حصہ بتلایا ہے اور یہ تو کانٹے ہی کانٹے راستے میں بو رہے ہیں ،اسلام تو راہ گیروں کے لئے مدد د اور تعاون کا اپیل کرتا ہے یہ تو راہ ہی مسدود کر بیٹھے ہیں کہیں سے ،کبھی بھی، کسی بھی وقت اسلام اس بدنظمی اور زوروزیادتی کا حامی نہیں رہا ہے۔
مجھے تو صاف صاف یقین ہوا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے دور کے یہ یزیدی ہیں جو آج حضرت حسین کو شہید کرکے ان کی عاشقی میں مبتلا ہیں۔
کاش حفیظ جالندھری سے کبھی ان کی ملاقات ہوجاتی:
دلاوری میں فرد ہے بڑا ہی شیر مرد ہے
جس کے دبدبہ کے لیے دشمنوں کا رنگ زرد ہے
حبیب مصطفی ہے یہ مجاہد خدا ہے
جبھی تو اس کے سامنے یہ فوج گرد گرد ہے