✍️امداد الحق بختیار
جامعہ اسلامیہ دار العلوم حیدرآباد
__________________
اسلام نے ترغیب دی ہے کہ حتی الامکان نکاح کے رشتہ کو پوری زندگی برقرار رکھا جائے، شدید ضرورت اور مجبوری کے بغیر اسے ختم نہ کیا جائے؛ اسی لیے اس رشتہ کو ختم کرنے کا جو عمل ہے، جسے ’’طلاق‘‘ کہا جاتا ہے، اسلام نے شدید انسانی ضرورت کی بنیاد پر اس کی مشروط اجازت تو دی ہے؛ لیکن اجازت کے باوجود اسے سخت ناپسند قرار دیا ہے۔
تاہم بسا اوقات بعض لوگوں کے مخصوص حالات کی وجہ سے نکاح کے رشتہ کو باقی رکھنا، ان کے لیے مزید پریشانی کا سبب ہوتا ہے، اِس رشتہ میں رہنے کی وجہ سے یا تو بیوی پر ظلم ہوتا ہے، یا شوہر مظلوم بنتا ہے، یا دونوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے؛ لہذا اس طرح کی پریشان کن صورت حال کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام نے طلاق کا تصور اور نظام پیش کیا ہے؛ جس کی وجہ سے بہت سی صورتوں میں طلاق کا یہ راستہ خود عورت کے لیے رحمت ثابت ہوتا ہے۔ جن مذاہب، اقوام یا قوانین میں طلاق کا تصور نہیں پایا جاتا، وہاں اِس طرح کی صورت حال میں عورت گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے یا بعض اوقات خود کشی کر نے پر مجبور ہوتی ہے۔ لیکن اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد زوجین کے درمیان کوئی رشتہ باقی رہا یا نہیں؟ طلاق کے بعد بھی اُن دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق ہوتے ہیں یا نہیں؟ کیا طلاق، علیحدگی، دونوں کا راستہ اور زندگی الگ ہونے کے بعد بھی شوہر پر مطلقہ بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری عائد ہونی چاہیے یا نہیں؟
🔹مطلقہ کے نان ونفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ
10/ جولائی بروز بدھ کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے تلنگانہ کے ایک شخص عبد الصمد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی)کے سیکشن 125 کے تحت ایک مسلم خاتون اپنے شوہر سے نان ونفقہ حاصل کرسکتی ہے، یہ قانون بلا لحاظ مذہب لاگو ہوگا۔دونوں فاضل ججس نے کہا کہ پرو ٹیکشن آف رائٹس آن ڈائیورس ایکٹ بابتہ 1986مسلم خواتین پر لاگو نہیں ہوگا؛ کیوں کہ یہ سیکولر قانون کو زیر نہیں کر سکتا۔فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ نان ونفقہ خیرات نہیں؛ بلکہ تمام شادی شدہ خواتین کا حق ہے۔
فاضل ججس کے فیصلہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلم خواتین اپنے شوہر سے طلاق کے بعد بھی تا حیات یا تا ازدواج ثانی نان ونفقہ حاصل کرنے کا قانونی حق رکھتی ہیں۔
🔹مطلقہ کا نان ونفقہ اور 1986 ایکٹ
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خود ہندوستانی قانون سے متصادم ہوتا ہے اور دستور کے مخالف جاتا ہے؛ کیوں کہ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 25 ہندوستان میں رہنے والے تمام طبقوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ نیز 1937 کے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ نے مسلمانوں کو شادی، طلاق، وراثت اور دیگر عائلی معاملات میں اپنے مذہبی قوانین کے مطابق عمل کرنے کی آزادی دی۔ اسی طرح جب 1985میں شاہ بانو کیس میں عدالت نے دفعہ 125 کے تحت ہی فیصلہ سناتے ہوئے، عدت کے بعد بھی مطلقہ کو نان ونفقہ دینے کا اسی طرح کا فیصلہ سنایا تھا، تو مسلمانوں نے اس کے خلاف ملک میں جمہوری طور پر زبردست تحریک چلائی تھی، جس کے دباؤ میں اس وقت کی انڈین حکومت نے پارلیمنٹ سے 1986 کا ایکٹ پاس کیا۔ اس قانون کے مطابق جب کوئی مطلقہ مسلمان خاتون عدت کے بعد اپنے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی، تو عدالت مطلقہ خاتون کے رشتہ داروں کو اسے نفقہ دینے کا حکم دے گی، جو اسلامی قانون کے مطابق اس کے اثاثوں کے جانشین ہیں۔ لیکن اگر ایسے رشتہ دار نہیں ہیں، یا وہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، تو اس صورت میں عدالت ریاستی وقف بورڈ کو نفقہ دینے کا حکم دے گی۔ یوں طلاق دینے کے بعد شوہر کے ذمہ محض عدت کے دوران کے اخراجات ہی باقی رہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- مسلم پرسنل لا کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟
- یہ امت خرافات میں کھو گئی
- تعزیہ سے بت پرستی تک
- عدت کے بعد مطلقہ کا نان و نفقہ
لہذا عبد الصمد کے معاملہ میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ دستور کی دفعہ 25، مسلم پرسنل لاز جیسے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 اور مسلم خواتین (طلاق پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ، 1986 کے خلاف ہے۔ اورجب تک یہ دونوں قانون دستور اور قانون کا حصہ ہیں، کسی جج کو اس طرح کا فیصلہ سنانے کا دستوری حق نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ معاشرہ کے بھی خلاف ہے، عقل کے بھی خلاف ہے اور ہندوستان میں رہنے والی دوسری سب سے بڑی کمیونٹی (Second largest Indian Community) کے مذہب اور عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔
🔹فیصلہ عقل کی میزان میں
اسلام کے ساتھ تمام ملکی قوانین میں ازدواجی رشتہ ایک معاہدہ ہے، اس رشتہ کو وجود میں لانے کا بھی ایک طریقہ ہے اور ختم کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے، یہ کوئی خونی رشتہ نہیں ہے، جو پیدائش سے موت تک بر قرار رہے، اس مخصوص معاہدہ سے پہلے بھی زوجین کا آپس میں کوئی رشتہ ہونا ضروری نہیں اور اس معاہدہ کے ختم ہونے کے بعد بھی، معاہدہ سے متعلق کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔
جب یہ ایک معاہدہ ہے، اس معاہدہ کے بعد ہی شوہر پر بیوی کی ذمہ داری آتی ہے، اس سے پہلے یہ ذمہ داری اس پر نہیں ہوتی، تو جب یہ معاہدہ کسی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے، تو پھر شوہر پر بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری کیوں باقی رہے گی؟
نیز شوہر پر بحیثیت بیٹا اپنے والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے، بحیثیت باپ اپنے بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، بحیثیت بھائی اپنے بھائی بہنوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف بیوی پر سوائے اپنی ذات کے کسی دوسرے کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوتی ؛ بلکہ اس کی ذمہ داری بھی اس کے والدین وغیرہ پر ہوتی ہے۔ لہذا طلاق اور عدت کے بعد بھی شوہر پر تاحیات مطلقہ کی کفالت کو لازم قرار دینا غیر سماجی اور عقل میں نہ آنے والا (Non-Rational)فیصلہ ہے۔
🔹خواتین کے حق میں نقصان دہ فیصلہ
اگر گہرائی سے اس فیصلہ پر غور وخوض کیا جائے، تو یہ فیصلہ غیر واجبی ذمہ داری ڈال کر نہ صرف شوہر پر زیادتی کر رہا ہے؛ بلکہ یہ خواتین کے حق میں بھی مفید نہیں ہے؛ ان کے لیے نقصان دہ اور بڑی مصیبت کا دروازہ کھولتا ہے؛ کیوں کہ جب شوہر کو معلوم ہوگا کہ طلاق کے بعد بھی پور ی زندگی اسے اپنی مطلقہ بیوی کی ذمہ داری اٹھانی ہے، تو وہ طلاق دینے پر اقدام نہیں کرے گا؛ چاہے عورت کو ہی طلاق کی ضرورت کیوں نہ ہو؛ بلکہ نکاح میں باقی رکھتے ہوئے، اس کے ساتھ اجنبیوں والا سلوک کرے گا، یا اس سے چھٹکارے کی دیگر غیر قانونی راہ اختیار کرے گا۔ جس میں ظاہر ہے کہ عورت کا ہی نقصان ہے۔
🔹غیر سماجی (Anty Society) فیصلہ
اگر اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مردوں کی طرح خواتین کو بھی طلاق لینے اور دینے کے اختیار کا قانون بنایا جائے، جیسا کہ یورپین ممالک میں اس کا عام رواج ہے، تو ان یورپین ممالک کی طرح یہاں بھی اس سے معاشرہ میں نکاح کی شرح میں کمی آئے گی۔ اس ڈر سے کہ نکاح اور طلاق کے بعد شوہر کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ عورت لے کر چلی جائے گی، مرد حضرات نکاح کے بجائے بغیر نکاح کے خواتین سے تعلق قائم کرنے کو ترجیح دیں گے، جیساکہ یورپین ممالک میں یہ بھی عام ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ فیصلہ معاشرہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا، اس کی وجہ سے معاشرہ بے حیائی کے دلدل میں ڈوب جائے گا، انسانی اقدار کی کھلے عام پامالی ہوگی، خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھ جائے گی، صرف ایک دوسرے کو استعمال کر کے چھوڑ دینے کا سلسلہ بڑھ جائے گا۔ اس سے عورتوں کے استحصال کی شرح مزید بڑھے گی۔
ظاہر ہے کہ اس میں بھی خواتین کا ہی نقصان ہے، ایسی صورت حال میں زندگی کے اُس مرحلہ میں اُس کا کوئی سہارا نہ ہوگا، جب کہ وہ قدرت کی عطا کی ہوئی خوبصورتی اور جسمانی طاقت دونوں سے محروم ہوچکی ہوگی۔ وہ اس وقت تنِ تنہا، بے یار ومددگار ہوگی اور دَر، دَر کی ٹھوکرے کھانے پر مجبور ہوگی۔
🔹غلط استعمال کے دروازے کھولنے والا فیصلہ
بعض بد اخلاق عورتیں اس قانون سے ہمت پا کر شادی کے بعد زبردستی شوہر سے طلاق لیں گی، تاکہ وہ آزادنہ زندگی گزاریں اور خرچہ کا پورا بوجھ شوہر پر ڈالیں۔بعض عورتیں سابق شوہر سے انتقام لینے اور پوری زندگی نفقہ حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر دوسرا نکاح بھی نہیں کریں گی۔ اور غیر اخلاقی راستے اختیار کریں گی۔
🔹اسلام میں مطلقہ کا نفقہ
اسلام میں ضابطہ یہ ہے کہ جب تک بیوی شوہر کی زوجیت میں رہتی ہے، اس وقت تک اس کا نان ونفقہ شوہر کے ذمہ ہوتا ہے؛ اسی طرح طلاق کے بعد بھی عدت گزرنے کی مدت تک رہائش اور نان ونفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہی ہوتی ہے۔ جس کی مکمل تفصیل سورہ طلاق، پارہ 28 میں موجود ہے۔البتہ عدت گزرنے کے بعد چوں کہ دونوں کے درمیان رشتہ ازدواج بالکل ختم ہو جاتا ہے؛ اب دونوں کے درمیان سے نکاح سے متعلق کسی طرح کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا؛ لہذا اس کے بعد سے مطلقہ بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ نہیں ہے۔
🔹کیا اسلام نے مطلقہ جیسی خواتین کو بے سہارا چھوڑا ہے؟
سوال یہ ہوتا ہے کہ جب مطلقہ کا نان ونفقہ سابقہ شوہر کے ذمہ نہیں ہوگا، تو اس کی کفالت کون کرے گا، کون اس کے نان ونفقہ کی ذمہ داری برداشت کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے مطلقہ اور بیوہ جیسی خواتین کو بے سہارا نہیں چھوڑا، اسلام میں شادی کے بعد بھی خاتون کا رشتہ اپنے میکے والوں سے بدستور قائم رہتا ہے، چنانچہ طلاق کے بعد اس کے والدین، اس کے بھائی بہنوں اور اس کی اولاد پر اس کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا ضابطہ یہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد جتنے لوگ اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد اور مال کے وارث ہوتے ہیں، زندگی میں بھی وہی لوگ اس کے کفیل اور نان ونفقہ کے ذمہ دار ہوں گے۔
نیز اگر اس کی اولاد نابالغ ہے، تو 8 سال تک لڑکے اور بالغ ہونے تک لڑکی کی پرورش شوہر کے بجائے بیوی کے پاس ہوگی۔ اور اولاد اور پرورش کرنے والی بیوی،اِن سب کا مکمل معقول خرچہ شوہر کے ذمہ ہوگا۔اتنی مدت تک اس طرح بھی اس کا نان ونفقہ چل سکتا ہے۔
اسی طرح اسلام میں خاتون کو والدین کی میراث میں بھی حصہ ملتا ہے، نیز بھائی بہنوں کی میراث سے بھی بعض صورتوں میں حصہ ملتا ہے۔ اس سے بھی گزر اوقات ہو سکتی ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ ان میں سے کوئی صورت نہ ہو؛ حالانکہ ایسا ہونا بہت شاذ ونادر (Rare) ہے، تو ایسی صورت حال میں افراد خاندان اور مسلم معاشرہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کی خواتین کی کفالت کریں اور ان کا تعاون کریں۔
چوں کہ یہ تمام تصور برادران وطن کے یہاں نہیں پایا جاتا؛ وہ نکاح کو تا زندگی اٹوٹ رہنے والا رشتہ تصور کرتے ہیں، ان کے یہاں پہلے طلاق کا تصور ہی نہیں تھا، میراث کا نظام نہیں تھا؛ حتی کہ شادی کے بعد میکے سے لڑکی تعلق ختم سمجھا جاتاتھا، جس کے اثرات سے ابھی بھی ان کا معاشرہ پورے طور نہیں نکل سکا ہے؛ اسی لیے وہ سابقہ شوہر پر ہی نفقہ کی ذمہ داری ڈالنے کی بات کرتے ہیں۔
🔹بے سہارا خواتین کے حوالے سے شعور بیداری کی ضرورت
ہر مشکل سے نمٹنے کے لیے اسلام نے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور بتایا ہے، ہر مشکل گھڑی میں اسلام نے اپنے ماننے والوں کی دست گیری لازمی کی ہے، پریشانی میں کھڑا کرکے ان کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا ہے؛ لیکن پریشانی اس وقت کھڑی ہوتی ہے، جب ہم اسلام کی بتائی ہوئی راہ کو اختیار نہیں کرتے؛ چنانچہ مطلقہ اور بیوہ جیسی خواتین کے مسائل سامنے آنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کے حوالے سے اپنے دین کی بتائی ہوئی ہدایات (Instructions) پر عمل نہیں کیا، جس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ برادران وطن کی طرح ہمارے مسلم معاشرہ میں بھی بیوہ اور مطلقہ خواتین سے نکاح کو معیوب سمجھا جانے لگا، استطاعت کے باوجود نکاح ثانی کو جرم اور گناہ سمجھا جانے لگا؛ جس کی وجہ سے یہ مسائل کھڑے ہوئے۔ جب کہ مطلقہ اور بیوہ سے نکاح خود ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے؛ چنانچہ سوائے سیدہ عائشہ ؓ کے رسول اللہ ﷺ کی تمام ازوج مطہرات یا تو مطلقہ تھیں یا بیوہ تھیں۔ اس حوالے سے قرآن کی صریح ہدایت پر ہم عمل پیرا نہیں ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ۔ ترجمہ: اور تم نکاح کراؤ اپنے (معاشرہ) میں سے بے نکاحے (مردوں اور خواتین) کا۔(سورۃ النور 32.)
اسی طرح ہمارے اندر ایک دوسرے کے تعاون کا جذبہ اتنا کم ہو گیا ہے کہ ہم اپنی فیملی کے علاوہ کسی اور کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں سمجھتے؛ حتی کہ بہت سے بد نصیبوں کو اپنے والدین کی ذمہ داری بھی بوجھ لگنے لگی ہے، جو اسلامی تعلیمات (Teachings) کے بالکل خلاف ہے اور اسی وجہ سے غیر شرعی عدالتیں ہماری شریعت میں دخل اندازی کر رہی ہیں۔
🔹مسلمان اپنے معاملات کے لیے دار القضاء سے رجوع ہوں:
جن ممالک میں مسلمانوں کی حکومت نہیں ہے، ملکی عدالتیں مسلمانوں کے معاملات میں کتاب وسنت کے بجائے اپنے ملکی قوانین کے مطابق فیصلے صادر کرتی ہیں، ایسے تمام خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مسائل؛ خصوصاً عائلی مسائل کے لیے کورٹ، کچہری اور پولیس اسٹیشن کے بجائے دار القضاء کا رخ کریں، تاکہ کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے مسائل کا جائز، صحیح اور حق پر مبنی تصفیہ ہو سکے۔ یاد رکھنا چاہیے دنیاوی عدالتوں سے اگر کسی نے کوئی ایسا فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا، جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے، تو اس فیصلہ کی بنیاد پر اس کے لیے دوسرے کا مال لینا جائز نہ ہوگا، شریعت کی نگاہ میں وہ ناجائز اور حرام مال ہوگا۔ ہمارے مرد اور خواتین سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے۔