کم عمری کی شادی سے نجات: نو مذاہب کے مذہبی رہنماؤں کا عہد
راے پور:
تمام مذاہب میں بچپن کی شادی اور سماجی تصورات میں نمایاں تبدیلی لانے کے لیے9 مذاہب کے مذہبی رہنماو ں نے بچوں کی شادی سے پاک ہندوستان بنانے کا عہد کیا یہ مذہبی رہنما چائلڈ میرج فری انڈیا کے اتحادی پارٹنر انڈیا چائلڈ پروٹیکشن کی جانب سے بچوں کی شادی کے خلاف بین مذاہب مکالمے کے لیے جمع ہوئے تھے پروگرام میں موجود مذہبی رہنماو ں نے متفقہ طور پر کہا کہ کوئی بھی مذہب کم عمری کی شادی کی حمایت نہیں کرتا اس لیے کسی مذہبی رہنما یا پادری کو بچوں کی شادی نہیں کرنی چاہیے۔ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہ تمام عبادت گاہوں کو اپنے احاطے میں بچپن کی شادی کے خلاف پیغام دینے والے پوسٹر بینرز لگانے چاہئیں، ان مذہبی رہنماو ¿ں نے اپنی برادری میں بچپن کی شادی کے برے رواج کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔ ہندو، اسلام، سکھ، عیسائی، بدھ، بہائی، جین، یہودی اور زرتشتی مذاہب کے ان مذہبی رہنماو ¿ں نے اس مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اتحاد کی اہمیت پر زور دیا۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام بچوں کو تحفظ، تعلیم اور ترقی تک رسائی حاصل ہونی چاہیے، ان مذہبی رہنماو ¿ں نے یہ بھی کہا کہ جو بھی بچپن کی شادی کرتا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔اسلام میں کم عمری کی شادی کے بارے میں مشہور تصورات کی تردید کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے ڈاکٹر ایم اقبال صدیقی نے مکالمے میں کہاکہ ‘اسلام میں شادی کے لیے عمر کی کوئی شرط نہیں لیکن اسلام یہ ضرور کہتا ہے کہ دولہا اور دلہن دونوں شادی کے لیے رضامندی ضروری ہے اور یہ ایک خاص عمر اور پختگی کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام کہتا ہے کہ علم ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ مذہبی رہنما علم کو مذہبی تعلیم تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ سراسر گمراہ کن ہے کیونکہ دعاو ¿ں میں سے ایک یہ ہے کہ مجھے وہ علم عطا فرما جس سے مجھے فائدہ پہنچے۔ مذہبی رہنماوں کو ان تعلیمات کے منطقی نفاذ کے بارے میں سوچنا چاہیے اور انہیں سمجھنا چاہیے کہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والا کوئی بھی قانون شریعت کے خلاف ہے۔ان سے اتفاق کرتے ہوئے ورلڈ پیس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد اعجاز الرحمن شاہین قاسمی نے کہا کہ اسلام کم عمری کی شادی کی اجازت نہیں دیتا۔کم عمری کی شادی کے خاتمے کے مقصد کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستانی سرو دھرم سنسد کے قومی کنوینر گوسوامی سشیل جی مہاراج نے کہا کہ بچوں کی شادی کا مسئلہ تمام مذاہب اور برادریوں میں موجود ہے اور ہم تمام مذہبی رہنماوں کو مل کر اس کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ مباحثہ اس حقیقت کے پس منظر میں ہوا کہ ہندوستان جیسے انتہائی مذہبی ملک میں مذہبی رہنما سماجی اصولوں اور طریقوں کی تشکیل اور ان کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اکثر سماجی اور اخلاقی دونوں سطحوں پر کمیونٹی کی سرگرمیوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بچوں کی شادی ایک قانونی جرم ہونے کے باوجود مختلف برادریا ںاکثر اس برے عمل کو جاری رکھنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتی ہیں جو کہ بچپن کی شادی کے خاتمے کی راہ میں ایک بڑا چیلنج ہے۔
اس مکالمے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے چائلڈ میرج فری انڈیا کے بانی اور مصنف بھون ریبھو نے کہا، "بچوں کی شادی جیسےجرم کو تب ہی ختم کیا جا سکتا ہے جب تمام برادریوں اس کے خلاف جنگ میںجمع ہوں۔ عقیدہ، مذہب اور قانون تہذیب کی بنیاد ہیں اور بچوں کی شادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر خدا کی نظر میں تمام بچے برابر ہیں تو قانون اورانصاف کی نظر میں بھی برابر ہونے چاہئیں۔ مذہبی رسومات کی آڑ میں بچوں کے مستقبل سے کھیلنا ناقابل قبول ہے۔اس منفرد اور تاریخی مکالمے میں بچوں کی شادی سے پاک ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے مختلف مذاہب کے بااثر مذہبی رہنماو ¿ں کے درمیان اتحاد دیکھا گیا۔
اس مکالمے کا اہتمام چائلڈ میرج فری انڈیا (سی ایم ایف آئی) کے اتحادی پارٹنر انڈیا چائلڈ پروٹیکشن نے کیا تھا۔ چائلڈ میرج فری انڈیا کے پاس 200 سے زیادہ پارٹنر این جی اوز ہیں جو ملک بھر میں 2030 تک بچوں کی شادی کو ختم کرنے کے ہدف کے ساتھ کام کر رہی ہیں.
بشکریہ: آواز دی وائس