مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
_______________________
اوقاف ملت کا قیمتی اثاثہ ہیں، جسے ہمارے بڑوں نے ملت کے فلاحی اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کیا تھا، مساجد، مزارات، خانقاہیں، مسافر خانے، قبرستان وغیرہ سب کا تعلق اوقاف سے ہے، زمینیں اسی کام کے لیے وقف ہیں، اور اس کی آمدنی سے ان کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، شرعی اعتبار سے ان کی آمدنی یا زمینوں کو واقف کی منشا کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے، مسلمانوں کے لیے یہ شرعی معاملہ ہے اور مسلم پرسنل لا کے تحت آتا ہے۔
وقف بورڈ ایکٹ پہلی بار 1954میں پاس ہوا تھا، موقع بموقع اس میں ترمیما ت ہوتی رہیں، آخری ترمیم کے بعد امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی ؒ نے تحریک چلائی تھی، اور امارت شرعیہ نے اپنی افرادی ومالی قوت سے اس میں جان ڈالی تھی، مختلف شہروں کا دورہ ہوا تھا او رایک قسم کے دباؤ کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی کئی ترمیمات کو سرکار نے قبول کر لیا تھا، اور ملت اسلامیہ ہندیہ نے چین کی سانس لیا تھا۔
لیکن حکومت ہند کی اوقاف پر پھر بُری نظر پڑنے لگی ہے، وہ رواں پارلیمانی اجلاس میں وقف بورڈ سے متعلق ترمیمات منظور کرانا چاہتی ہے، یہ چالیس ترمیمات ہیں، جس پر وزیر اعظم نے اپنی کابینہ سے منظوری لے لی ہے، ان ترمیمات کے نتیجے میں اوقاف کی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی، اور سرکار کی منظوری کے بغیر نئے اوقاف کا اندراج نہیں ہو سکے گا، اگر یہ ترمیمات منظور ہو جاتی ہیں تو ان کی آمدنی اور زمینوں کا استعمال واقف کی منشا کے مطابق بھی نہیں کیا جا سکے گا، اس طرح یہ شریعت میں مداخلت ہوگی، جسے مسلمان کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرے گا، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ان ترمیمات کے خلاف عوامی بیداری، قانونی چارہ جوئی اور ایوان میں اوقاف کی حیثیت کی بر قرار ی کے لیے مدلل مباحثہ کی ضرورت پر زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر یہ بل پارلیامنٹ میں پیش ہوتا ہے تو اسے سلیکٹ کمیٹی کے حوالہ کرنا چاہیے، تاکہ اس پر سلیقے سے غور وفکر کیا جا سکے؛چنانچہ 8/اگست 2024ء کو حکومت کی طرف سے یونین منسٹر کرن رججو نے وقف ترمیمی بل 2024ء ایوان زیریں میں بحث کے لئے پیش کیا،اپوزیشن پارٹیوں خاص طور پر کانگریس اور ترنمول کانگریس نے اس بل کی خامیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی سفارش کی جب کہ دائیں بازو کی حلیف پارٹی جس میں جدیو بھی شامل ہے اس نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا؛ لیکن اپوزیشن پارٹیوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ بل لوک سبھا میں پاس نہیں ہو سکا اور اسے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی)کو غورو خوض کے لئے بھیج دیا گیا، اس کے لئے اکتیس (31)نفری کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وزارت برائے اقلیتی امور نے دسمبر2022ءمیں ایک سوال کے جواب میں پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ وقف بورڈ کے پاس ساڑھے نو لاکھ ایکڑ آراضی اور7.8لاکھ غیر منقولہ جائیدادیں ہے، اس طرح وہ ریلوے اور فوج کے بعد سب سے زیادہ غیر منقولہ جائیداد کی مالک ہے، یہ اعداد وشمار وقف بورڈ میں درج جائیدادوں کے ہیں، جو زبانی طور پر وقف ہیں، یا جو عملی طور پر بغیر کسی اندراج کے مسجد، قبرستان وغیرہ کے استعمال میں ہیں، ان کا شمار اس فہرست میں نہیں ہے، ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اوقاف کی زمینوں کا غلط مصرف بھی لیا جا رہاہے، بہت ساری زمینوں پر اپنوں اور غیروں نے ہی قبضہ کر رکھا ہے، سروے کا کام اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا ہے، اوقاف کے متولی حضرات اور مختلف ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کے ذمہ دار بھی اپنی ذمہ داریوں کے معاملہ میں سست واقع ہوئے ہیں، وقف املاک کے تجاوزات اور غیر قانونی قبضے کو ہٹانے میں وقف بورڈ ناکام رہا ہے، کیوں کہ وہ خالی کرانے کے لیے ان دفعات کا سہارا نہیں لے پا رہا ہے، جس کے سہارے سرکاری زمینوں کو خالی کرایا جا تا ہے، وقف املاک کی خرید وفروخت کاکام بھی غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے۔
ان حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ وقف ایکٹ کو مزید مضبوط کیا جائے، نہ کہ اس میں ترمیم کرکے سب کچھ سرکار کے قبضے میں دیدیا جائے، حالات انتہائی نا گفتہ بہہ ہیں، اور حکومت کی بُری نظر ملت کے اس قیمتی اثاثے کو تباہ وبرباد کرنے پر لگی ہوئی ہے، ایسے میں ضرورت ہے کہ پورے ملک کے اوقاف کے ذمہ داران، ضلعی کمیٹی کے صدور وسکریٹریز، وکلاء، علماء، دانشوران، ارکان پارلیمان وغیرہ اس مسئلہ پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی لائحہ عمل طے کریں تاکہ اوقاف کی حفاظت کی جا سکے، اورسرکار کے دست برد کے ساتھ دوسروں سے بھی اس کا تحفظ کیا جاسکے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز وتحریک پر امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے زیر اہتمام چار صوبے (جس میں مغربی بنگال کو بھی شامل کیا گیاہے) ایک خصوصی اجلاس15ستمبر 2024کو بابو سبھاگار، گاندھی میدان پٹنہ میں رکھا گیا ہے، تاکہ اس معاملہ پر کھل کر بحث کی جا سکے، عوامی بیداری کے ساتھ سرکاری نقطہ نظر کے مضر اثرات سے عوام کو با خبر کیا جا سکے